مفتى محمد انتخاب ندوی ناظم تعليمات دارالعلوم فيض محمدى مہراج گنج گورکھپور
یقیناً ارض وسما نے بہت ساری ایسی شخصیات کا دیدار کیا ہوگا جنہیں یا تو فن تفسیر میں عبور حاصل ہوگا یا تو فن حدیث میں کمال یا تو انہوں نے میدان ادب کی شہسواری کی ہوگی یا گلشن فقہ بن کر دنیا کو معطر کیا ہوگا۔ مگر کم ہی ایسے رجال کے دیدار سے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچائی ہوگی، جنہوں نے یکساں طور پر مذکورہ تمام میدانوں میں شہسواری کی ہوگی، یکساں طور پر ان کے چشمہ علمی سے لوگوں نے آب حیات حاصل کیا ہوگا، انہیں نایاب شخصیات میں میرے مشفق و مربی شیخ الاسلام کے آخری شاگرد رشید،1957 میں دارالعلوم دیوبند کے ممتاز طالب علم، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن ،اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے نائب صدر، دارالعلوم ندوۃ العلماء کی مجلس تحقیقات شرعیہ کے سابق ناظم ،دارالقضاء اترپردیش کے صدر قاض ،شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے حقیقی ترجمان، مجتہد وقت امام عبد الحی فرنگی محلی کے عكس جمیل اور مفکر اسلام حضرت مولانا علی میاں کے مدعوخصوصی حضرت مولانا محمد برہان الدین سنبھلی رحمۃاللہ علیہ تھے۔
راقم الحروف کو آپ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے کا شرف اس وقت حاصل ہوا جب کہ آپ پیہم امراض بالخصوص فالج کی وجہ سے بالکل کمزور اور لاغر ہو چکے تھے حتی کہ آپ درجے کی حاضری اور جمعہ کی پابندی ویل چئیر کے ذریعے کیا کرتے تھے. راقم الحروف ان خوش قسمت طلبہ میں سے تھا جن کے درجے کے شيكشن میں آپ علمی ہیرے جواہرات لٹاتے تھے اور قابل ذکر اينكہ استاذ محترم کی شفقت و عنایت کا وافر حصہ راقم کی جھولی میں آیا، اس کی وجہ آپ کی خصوصی مجلس ودروس کی پابندی اور بعد نماز عصر آپ کی خدمت میں حاضری تھی اسی کا نتیجہ تھا کہ فالج سے متاثر زبان سے نکلے ہوئے الفاظ جہاں دیگر طلبہ بہت مشکل سے سمجھتے تھے راقم بڑی آسانی اور سہولت کے ساتھ ضبط تحریر کر لیا کرتا تھا اور استاذ محترم کے سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کرتا.
آپ صحیح البخاری کی کتاب الوحی کی تدریس کے دوران ایسے ایسے نکات کی طرف اشارہ کرتے جنہیں راقم الحروف شروحات بخاری کے مطالعہ بسیار کے باوجود تلاش کرنے سے قاصر رہتا، اسی طرح حجۃ اللہ البالغہ (جس کے بارے میں حضرت مولانا عبداللہ حسنى رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ ایک عالم اس کے پڑھے بغیر ناقص رہتا ہے اور بقول حضرت مولانا مفتی سعید احمد پالنپوری" یہ کتاب جوامع الکلم ہے") جب عليا ثانیہ میں پڑھاتے تھے تو ایسا محسوس ہوتا تھا کے آپ اس کتاب کے حافظ ہیں اس کی دلیل یہ ہے کہ ایک مرتبہ دوران عبارت خوانی راقم نے یہ سوچ کر کہ آپ کے سامنے تو کتاب نہیں ہے ایک جملہ سخت ہونے کے باعث جلدی سے چھوڑتے ہوئے آگے بڑھنے کی کوشش کی مگر استاذمحترم نے مسکراتے ہوئے لقمہ دیا اور اصلاح فرمائی۔
استاذ محترم کو تفسیر کا ذوق شیخ الاسلام سے ورثے میں ملا تھا اسی کا نتیجہ تھا کہ آپ نے سرزمین دہلی میں درس تفسیر کا چشمہ صافی جاری کرتے ہوئے ہزاروں کی تعداد میں عوام و خواص معلمین و متعلمین کو سیراب کیا اور دارالعلوم ندوۃ العلماء میں شیخ التفسیر کے لقب سے ملقب ہوئے۔
ہمیں معلوم ہونا چاہیے جب سرزمین عرب میں اہلحدیثوں نے تفسیر عثمانی کی اشاعت پر ایاک نعبد و ایاک نستعین کی تفسیر کو عقیدہ کی مخالف بتاتے ہوئے حکومت وقت سے مطالبہ کیا تھا تو ایسے وقت میں سعودی حکومت نے برصغیر کے تین مشہور اداروں دارالعلوم دیوبند دارالعلوم ندوۃ العلماء اور دار العلوم سہارنپور کے نظماء کے نام خطوط جاری کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ اگر علمائے احناف تفسیرعثمانی کا فیض سرزمین عرب میں جاری رکھنا چاہتے ہیں تو اہلحدیث کی طرف سے پیش کردہ اعتراضات کے جوابات جلد از جلد تحریر فرماکر ارسال کریں، بصورت دیگر اس کی نشر و اشاعت پر پابندی لگا دی جائے گی تو ایسے موقع پر مفکراسلام حضرت مولانا علی میاں رحمة اللہ علیہ نے استاذ محترم کے بقول یہ ذمہ داری انہیں دی گئی اور حکم ہوا کے جلد از جلد جامع و مانع اورمدلل انداز میں ایک جواب تحریر کریں چنانچہ میں نے شب و روز وصل کرتے ہوئے قليل مدت میں ایک دستاویز تیار کرکے مفکر اسلام کے حکم سے ارسال كرديا. پھر کیا تھا تمام معترضين کے شیش محل زمین بوس ہوگئے اور تفسیر عثمانی پہلے کے مقابلے میں زیادہ مقدار میں چھپنے لگی۔
واضح رہے یہ واقعہ استاذ محترم نے راقم الحروف کو درجہ میں میں بھی سنایا اور ساتھ ساتھ بعد نماز عصر کی مجلس میں بھی اور یہی نہیں بلکہ اس جواب کی ایک کاپی سے راقم الحروف کو بھی نوازا۔ بہرکیف! استاذمحترم بدون کسی مبالغہ نگہ بلند'سخن دلنواز اور جاں پرسوز جیسے صفات سے متصف' تواضع و انکساری کے پیکر اور علم و فضل کے بحرِ بے کراں تھے آپ مثل آفتاب تھے جس سے پورا عالم بالخصوص برصغیر منور ہو رہا تھا جو بروز جمعہ بتاریخ17/ جنوری کو غروب ہوگیا اناللہ وانا الیہ راجعون

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں