تازہ ترین

جمعہ، 31 جنوری، 2020

دیوبند میں احتجاج کرنے والی خواتین نے کہا جب تک حکومت یہ کالا قانون واپس نہیں لیتی تب تک احتجاجی مظاہرہ جاری رہے گا

دیوبند،دانیال خان(یواین اے نیوز 31جنوری2020) سرد ترین راتوں میں جب کوئی ذاتی کام سے بھی گھر سے باہر نہیں نکلنا چاہتا ایسے میں دیوبند کی با حجاب خواتین ملک اور قوم کے مستقبل کے تئیں اتنی فکر مند ہیں کہ انہوں نے نرم اور گرم بستروں کے ساتھ اپنے سکون اور آرام کو بھی قربان کر دیا ہے،پولیس کی زیادتیوں اورمقدمات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپناا حتجاج چوتھے دن بھی جاری رکھ کر اعلان کر دیا کہ مرتے دم تک این پی آر،سی اے اے اور این آر سی کی مخالفت جاری رہے گی۔سخت سردی کے باوجود خواتین انقلابی نعرے لگاتے ہوئے قومی پرچم ہاتھوں میں لیکر دھرنا گاہ پر پہنچ رہی ہیں وہیں احتجاجی مظاہرے کو روز بروز ملنے والی عوامی حمایت میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے گزشتہ دو روز قبل سہارنپور پارلیمانی سیٹ سے ایم پی حاجی فضل الرحمان علیگ، حمزہ مسعود اور بہوجن کرانتی مورچہ کارکنان نے خواتین کے مظاہرے کو اپنی حمایت دینے کا اعلان کیا تھا اور آج سابق ریاستی وزیر ونود تیجیان اور سابق ریاستی وزیر سید عیسی رضا ء نقوی نے دیوبند کے عیدگاہ میدان میں پہنچ کر مظاہرین کو اپنی حمایت اور ہر ممکن تعاون دینے کا اعلان کیا۔

اسی کڑی میں دیوبند کے محلہ گوجر واڑہ میں واقع تعلیم نصواں کے معروف دینی ادارہ مدرسہ جامعتہ القدصیات للبنات کی ناظمہ خالدہ عثمانی،جامعہ زینب للبنات کی ناظمہ اور مدرسہ جامعۃ الہامیہ للبنات کی ناظمہ خورشیدہ خاتون اور زینب عرشی ادارہ کی سیکڑوں طالبات کے ساتھ ہاتھوں میں امید کی جلی ہوئی موم بتیوں اور شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف مختلف نعرے لکھے اسلوگن لیکردھرنا گاہ میں پہنچی،جہاں انہوں نے شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف جاری احتجاجی مظاہرے کو اپنی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ جب تک حکومت یہ کالا قانون واپس نہیں لیتی تب تک احتجاجی مظاہرے جاری رکھیں گی اور ملک کے جمہوری اور سیکولر آئین کا تحفظ کرتی رہیں گی چاہے اس کے لیے ہمیں اپنی جان و مال کو بھی قربان ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔وہیں سماجوادی پارٹی کے سہارنپور سیٹ سے ایم ایل اے سنجے گرگ اور سابق ایم ایل اے و سماجوادی پارٹی کی سینئر خاتون لیڈر ششی بالا پنڈیر نے شام پانچ بجے کے قریب عیدگاہ میدان پہنچ کر شہریت ترمیمی ایکٹ کی مخالفت میں جاری خواتین کی تحریک کو اپنی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ بی جے پی کی مرکزی و ریاستی حکومت اقتدار کے نشہ میں چور ہوکر عوام کے جزبات کے ساتھ کھلواڑ کرنے کا کام کر رہی ہے،لیکن اقتدار کی کرسیوں پر بیٹھی ظالم حکومت اگر یہ سمجھتی ہیکہ وہ ملک کے دستور اور جمہوریت کو بآسانی نیست و نابود کردے گی۔

 تو وہ اسکی غلط فہمی ہے۔شہریت ترمیمی ایکٹ کی مخالفت میں جاری غیر معینہ دھرنے میں موجود مجمع کو افشاں،نشاء عمران،عرشی ملک،فاطمہ اور وجیہہ جمال نے کو بابائے قوم مہاتما گاندھی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے انکے بتائے عدم تشدد کے راستہ پر چل کرپر امن احتجاجی مظاہرہ جاری رکھنے کا عہد دلایا۔روزی نمبردار،ارم عثمانی، روحی، فرحانہ، شائستہ پروین اور ڈیزی شاہگل نے کہا کہ حکومت نے متنازع قوانین بناکر ملک کی امن پسند عوام پرظلم کیا ہے اور اسے ہر حال میں اپنی غلطی مانتے ہوئے اس کالے قانون کو واپس لینا چاہئے۔ آمنہ روشی، عنبر نمبردار،شائستہ پروین اور سلمہ احسن نے کہا کہ ہم سب کو حکومت کی سازش کو سمجھنے کی ضرورت ہے،یہ ایک ایسا گھٹیا قانون ہے جس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی،اگر یہ کوشش کامیاب ہو گئی تو مسلمانوں کو ملازمت ملنا تو بہت دور کی بات انکے بچوں کو بھی اسکولوں سے باہر نکال دیا جائیگا اس لئے ملک میں سیکولر نظام کے قیام کے لئے حق کی آواز اٹھانا ضروری ہے۔عظمی عثمانی،ہما قریشی اورفوزیہ سرورنے کہا کہ افسوس کا مقام ہے کہ شہر کے کچھ ذمہ دار لوگ ہمارے پر امن احتجاجی مظاہرے کو ختم کرانے کے لئے پولیس انتظامیہ کے ساتھ ملکر سازش رچ رہے ہیں۔

 اور مظاہرے میں شامل خواتین و لڑکیوں کو بری بری گالیاں دے رہے ہیں،ایسے لوگ سامنے آنے پر احتجاجی مظاہرے کی حمایت کرتے ہیں اور پیٹھ پیچھے احتجاجی مظاہرے کو ناکام بنانے کے منصوبہ بنا رہے ہیں،اگر انہیں ہمارا ساتھ نہیں دینا ہے تو نہ دیں مگر ہمیں گالی تو نہ دیں۔عنبر ملک،کلثم،نازیہ پروین،عظمہ خرم،صدرہ صدیقی اور نصرت جہاں نے کہا کہ شہریت ترمیمی ایکٹ،این پی آر اور این آر سی بنیادی حقوق اور ہندوستان کے آئین کی روح کے منافی ہے، مرکزی حکومت نے ملک کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے اور یہ تقسیم ملک کی سالمیت اور ترقی کے لئے بڑی رکاوٹ ہے۔ شازیہ سعد،ڈاکٹر شائستہ،خلدہ عثمانی اور روبینہ نے کہا کہ ملک میں عدم رواداری،عصبیت اور مذہبی منافرت کا ماحول انتہائی خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے موجودہ حکومت کو قطعا یہ برداشت نہیں ہے کہ اس ملک میں ہندو، مسلم، بودھ، جین،پ ارسی، عیسائی اور سکھ مل جل کر آپس میں پیار بانٹیں ایک دوسرے کے غم اور خوشی میں شریک ہوں۔ ساجدہ، شمع، رقیہ، واجدہ اور شاہین نے کہا کہ متنازع قوانین کے خلاف مظاہرہ کر رہے لوگوں کی آواز کو دبانے کے لئے یوگی حکومت نے پولیس کے ذریعہ جو وہشیانہ اور تشدد آمیز کارروائیاں کی ہیں۔

 وہ دل دہلانے کے ساتھ ساتھ یوگی حکومت کو سوالوں کے گھیرے میں لاکر کھڑا کر دیتی ہیں کہ وہ پولیس جس کو عوام کی حفاظت و صیانت کا درس دیا جاتا ہے وہ کیسے اپنے فرائض منصبی کو بھول کر عوام کے اوپر تشدد کر سکتی ہے؟ مظاہرے اس سے پہلے بھی ہوئے ہیں لیکن اب ملک میں ایک خاص طبقہ کو کمزور کرنا اور ان کے خلاف نفرت کا بازار کرنا ہی بی جے پی کی کامیابی کی ضمانت بن گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ بی جے پی حکومت کے عوام مخالف منصوبوں کو شکست دینے تک حالیہ احتجاج کو جاری رکھنے اور اسے زیادہ سے زیادہ مضبوطی دینے کے لئے عوام پر عزم ہیں اور یہی وجہ ہے کہ احتجاجی مظاہرہ میں چھوٹی بچیوں سے لیکر 80برس تک کی بزرگ خواتین بھی شامل ہو رہی ہیں۔خواتین کی اس تحریک کے سبب دیوبند کے حسایس و نہایت حساس علاقوں میں بڑی تعداد میں پولیس فورس کو تعینات کر دیا گیا ہے،دھنا گاہ کے آس پاس بڑی تعداد میں خواتین پولیس فورس کے ساتھ ساتھ مقامی پولیس،خفیہ محکمہ کی ٹیمیں اور ایس او جی افسران نہایت باریکی سے احتجاجی مظاہرہ کی ہر چھوٹی بڑی سرگرمی پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad