بابری مسجد کی شہادت پر یوم سیاہ
#BabriMasjid #6December
تحریر،محمد توصیف قاسمی
بابری مسجد کی شہادت جتنا جمہوریت پر ایک بدنما داغ ہے ، اتنا ہی مسلمانوں کی ایمانی غیرت و جذبے پر بھی ، اس کی بازیابی کی ہر ممکن کوشش امت کا اجتماعی فریضہ ہے ، بعض مرتبہ اسے یوم سیاہ یا کسی دوسرے احتجاجی نام سے منسوب کیا جاتا رہا ہے ، بازیابی حقوق کے پچھلے طریقے آج کے دور میں اب تقریبا خارج از امکان ہیں ، ایک کی جان و آبرو بچانے کے لئے ایسا نہ ہوا ہزاروں کی اور چلی جائے ، موجودہ دور کے ایسے طریقوں کو اپنانے میں کوئی حرج نہیں جن کی صراحتا ممانعت شریعت میں نہیں ہے ، نیز آج ہم کسی حاکم شرعی یا قانون اسلامی کی ماتحتی میں نہیں ، جو ہر بات آمنا وصدقنا کرکے قبول کریں .احتجاج کا سب سے پہلا عنوان ہے قانون دنیا کے نقص کا اعتراف ، اور محتاج اصلاح ہونا ، لوگ اپنے احتجاج سے ناجائز بلکہ خلاف فطرت امور کو جواز فراہم کر رہے ہیں ، تو ہمیں اپنے جائز حقوق دینیہ و دنیویہ کو منوانے کے لئے احتجاج سے عالمی ، ملی ، ملکی و علاقائی طور پر ذرہ برابر پیچھے نہیں ہٹنا چاہئے .رہی بات کہ احتجاجی جلوس یا ریلی وغیرہ کا سبب اذیت ہونا تو یہ وہمی بات ، واقعہ سے اس کا تعلق نہیں ، کیونکہ جب اس نوع کا کوئی احتجاج کرنا ہوتا ہے تو حکومتی طور پر اس کی اجازت لی جاتی ہے ، اور حکومت و انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام الناس کو اپنا حق جتانے ، بات کہنے کا موقع فراہم کرے ، اس کے اسباب وافر کرائے ،نیز زمینی بندوبست کرے ، ٹریفک نظام عوام کو ان کی سہولیات کے مطابق مطلع کرے اور اس پر عمل کرائے ، اس میں کمی کا مظاہرہ عوام کی اذیت و نقصان کا سبب بنتا ہے ، اس کے وہ ذمہ دار ہیں .نیز مصالح شرعیہ کو دیکھا جائے تو حفظِ دین سب سے مقدم ہے ، مسلمانوں کی جان سے بھی زیادہ ، جس پر غیروں کی ایسی معمولی تبدیلئ عادت اثر انداز نہیں ہوسکتی .سیاہ پٹی باندھنا یا اسے یوم غم قرار دینا بھی کوئی شرعی طور پر ماتم منانے سے عبارت نہیں ، بلکہ دنیاوی قانونی عیب و نقص اور اسے چلانے والوں کو اطلاع و اعلان ہے کہ اس کی لاچاری سے یہ دن بطور احتجاج نامزد کیا گیا ، اس طرح کہ ان کے یہاں سیاہی یا کالی پٹی اظہار غم و غصہ کا ایک طریقہ ہے ، اس عنوان سے کوئی اسے عادة غم منانے نہیں لگتا ، اور اگر کوئی کرتا ہے تو غلط ہے .اسلام و مسلمانوں کی شوکت کا اظہار بھی شومئ اعمال اور جذبۂ اسلام کے تنزل کے سبب نہیں رہا ، پہلے اس کے اور طریقے تھے ، اب اور ، آج جلسے و جلوس کا انعقاد جن اہم مقاصد کے پیش نظر ہوتا ہے ، اظہار شوکت ان بنیادی اسباب میں سے ہے ، اس نوع کے احتجاج سے شوکت و اسلامی دبدبہ کا اظہار از بس ناگزیر ہے ، کیونکہ دوسرے طریقے بھی اب تقریبا متروک ہیں .قانونی لڑائی اصل درجہ ہے ، اور اس کے لحاظ سے بھی حق مسلمانوں کا ہی ہے ، البتہ ظالم حکام و انتظامیہ اپنی حقوق جتانے کے لئے ایسے پرامن طریقے کو اپنانے میں کوئی حرج نہیں.
والله اعلم و علمه اتم
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں