مسلمانوں کے ساتھ ناروا سلوک آخر کب تک!
تحریر :یاسین صدیقی قاسمی
ملک میں مسلسل فرقہ وارانہ فسادات گؤ رکشکو کےنام پر غنڈہ گردی قتل وغارت گری ہندوستان کی اقلیت بالخصوص مسلم سماج میں خوف وحراس پایا جارہا ہے ملک کے سابق نائب صدر جمہوریہ حامد انصاری نے عہدہ صدارت سے برطرف ہوتے وقت جو کہا تھاکہ ہندوستان کی اقلیتوں بالخصوص مسلم اقلیت میں خوف وحراس پایا جارہا تو لوگوں نے اس وقت ان کے بیان کو غلط اور نہ جانے کیسے کیسے القاب سے نوازا بہر حال وہ ملک کے عظیم عہدہ پر فائز تھے.اور اپنی سیاسی بصیرت سے حالات کو پرکھ کر یہ باتیں کہیں تھی لیکن اس کے بعد سے مسلسل طلبہ مدارس وعلماء کرام اور اہل مدارس کو نشانا بنایا گیا گزشتہ دو ماہ کے اندر اس طرح کے کئ واقعات رونما ہوچکے پہلی دہلی سہارنپور پیسنجر ٹرین نے دو عالم دین کو شاملی ریلوے اسٹیشن کے درمیان زدوکوب کیا ان کو بری طرح مارا مذہبی باتیں اور نازیبا الفاظ استعمال کیا لوگو نے ہنگامہ کیا اور اخبارات کی سرخیا بن کر رہ گئ دوسرا واقعات دہلی جو ملک کی راجدھانی ہے بوانہ میں سرعام بائک سوار افراد نے بوانہ مدرسہ کے مہتمم واستاذ کو مارا پیٹا اور یہ خبر بھی اخبارات تک محدود ہو کے رہ گیا اس کے بعد راجستھان میں لوجہاد کے نام پہ بےرحمی سے لکڑی کی طرح کلہاڑی سے مار کر ہلاک کردیا اور گزشتہ روز دہلی سے بھاگلپور جارہی وکرم شیلااکسپریس میں مولانا طاہر اور ان کے ہمراہ راقم الحروف کو بھی شرپسندو نے نشانہ بنایا اولا تو سامنے والی برتھ سیٹ پر دونوجوان لحیم وشحیم نے ہماری سیٹ کو خالی کرکے دوسری جگہ جانے کو کہا ہم نے ان کو منع کیا کیوں کہ یہ ہماری کنفرم سیٹ تھی بات ختم ہوگئ سفر چلتا رہا جب ٹرین بڑھیا ریلوے اسٹیشن جو کہ پٹنہ سے تقریباً دس بارہ کلو میٹر بعد آتا ہے انھوں نے آٹھ دس لڑکو کو فون کرکے بلایا جن میں تین چار لڑکے بشمول ان کے(جن کی سیٹ تھی)نےمولاناطاہر پر حملہ کردیا اور دھمکی آمیز لہجہ گالم گلوج اور ٹوپی داڑھی کو لیکر اور مشتعل ہوگئے اور مولانا کو جم کر مارا میں جب آگے بڑھا تو ایک دو تھپڑ میرے بھی رسید کردیا اس کے بعد بوگی میں بیٹھے تمام لوگ تماشائ بنے دیکھتے رہے فورا بعد ہی اک نوجوان لڑکا متیش نامی نے آگے بڑھ کر چھڑانے کی کوشش کی لیکن اس کے بھی تھپڑ رسید کردیا بیچارہ الگ جاکر اور سیٹ پر بیٹھ کر اس نے ویڈیو بنائ اور وزیر ریل پپوش گویل کو ٹویٹ کردیا شاید متیش (غیر مسلم)نام سے ٹویٹ ہونے پر فورا جواب میں موبائل نمبر اور پی این آر نمبر طلب کیا جوابا انہوں نے راقم کا نمبر دے دیا کیونکہ میرا نمبر اس کے پاس محفوظ (بایں وجہ کے میں نے اپنے واٹسپ پر وہ ویڈیو لی تھی) تھا کچھ دیر بعد آر پی ایف پولس حرکت میں آئ کیونکہ ٹویٹ کا جواب وزیر موصوف نے مالدہ ڈویزن کو بھیج دیا تھا آر پی ایف پولس نے میرے نمبر پر کال کیا اور تفصیلات جانی اس کے بعد دو پولس والے سادہ وردی میں اگلے اسٹیشن پر آئے اور بوگی نمبر سیٹ نمبر ہمارا اور ان کا لیکر چلے گئے اور انھوں نے کہاکہ آپ بھاگلپور پہونچ کر رپورٹ درج کروالیجئے میں یہاں سے ایس ایم ایس بھاگلپور آر پی ایف کنٹرول روم کردیتا ہوں اس کے بعد جمالپور ریلوے اسٹیشن پر پھر دوسرے آر پی ایف والوں کا فون آیا اور اتر کر مجھے کچھ لکھت روپ میں درخواست دینے کو کہا میں نے کہا سر اگر ہم یہاں رپورٹ درج کراتے ہیں تو ہمیں تاخیر ہوجائے گی اور ہمارے لئے اور مصیبت بن جائے گی بہرحال آنا فانا انہوں نے دو الفاظ (کہ مجھ سے آرپی ایف پولس نے رابطہ کیا اور میں اس سے خوش ہو ں اتنالکھا اور ٹرین چل پڑی اور مجھ سے دستخط لیا) دریں اثنا میں برابر مولانا یاسین قاسمی جمعیت علماء ہند اوفس آئ ٹی او اور مشفق محترم مولانا قاری فیض الدین جمعیت علماء ہند شہر لونی ان دون حضرات سے مسلسل رابطہ کرتا رہا اور ان دونوں حضرات نے حتی الامکان کوشش کی کہ ان کے خلاف کاروائ ہو اور ہمت اور صبر دلاتے رہے لیکن حیرت کی انتہا اس وقت نہ رہی جب میں نے مقامی جمعیت کے کچھ ذمہ داروں سے رابطہ کیا اور ان ان حالات سے آگاہ کیا تو انھوں نے جوابا ہمیں کہاکہ رپورٹ درج کرانے سے کیا فائدہ ؟تو آخر اتنی مسلمانوں کی تنظیم سے جڑے رہنے اور مسلم قوم کا ٹھیکیدار کیوں بنتے شہرت /دولت /یا پھر کسی اور کیلئے بہر حال میں ممنون ومشکور ہوں مولانا یاسین قاسمی صاحب کا کہ انھوں نے پھر کسی کو فون کیا اور مقامی صحافی حضرات جناب تسنیم کوثر انقلاب اقدم صدیقی منہاج عالم سنیل ودیگر حضرات نے میرے فون پر رابطہ کیا اور جگہ پوچھی ہم نے انہیں بتایاکہ ہم جی آر پی پولس اوفس میں ہیں آنا فانا وہ لوگ وہاں پہونچ گئے اور ان سے سوالات کے بوچھار لگا دیا (صحافیوں کے پہونچنے سے قبل ایف آئ آر کے سلسلے میں ہماری ان سے بحث ہورہی تھی کہ یہ معاملہ دوسرے تھانہ کا ہے خیر ان لوگوں کا بےحد ممنون ومشکور ہوں کہ ان کی مداخلت سے معاملہ تو درج ہوگیا لیکن آگے کی کاروائ کرنے اور ملزمین کو کیفردار تک پہونچانے کیلئے یقینا کچھ مال کی بھی ضروررت ہے اور اس بےچارے مولوی صاحب کے پاس اتنی وسعت کہاکہ وہ عدالت اورکچہری کا چکر کانٹے اسکے لئے تو یقینا ملک کی فعال مسلم تنظیموں کو آگے آنا چاہئے تاکہ دوسرے مولوی/یاڈاڑھی ٹوپی والوں کے ساتھ ایسامعاملہ نہ ہو لیکن افسوس کے اس سلسلے میں ابھی کسی بھی تنظیم کے افراد نے مداخلت تو درکنار رابطہ مزاج پرسی کرنا بھی اپنا فرض منصبی نہیں سمجھا اور مجھے افسوس تو ان لوگوں پر مزید ہوا جو کے دیگر خبروں کی سرخیاں تو چھاپتے ہیں خواہ الکٹرونک میڈیا ہو یا پرنٹ میڈیا (سوائے انقلاب اخبار کیوںکہ ان کے نمائندہ مولوی عارف سراج نعمانی سے میری فون پر بات ہوگئ تھی اور انھیں حالات سے آگاہ کیا اور نمایا طور پر شائع کروایا اور روزنامہ فاروقی تنظیم عوامی نیوز پٹنہ نے شائع کیا اور ملت ٹائمز و آئ این اے نیوز اونلائن )اس کے علاوہ کسی اخبار یا پورٹل نے شائع کرنا گوارا نہیں کیا خیر اب جی آر پی پولس نے تحریری طور پر شکایت تو لے لی اور کاروائ کی یقین دہانی بھی ان تمام لوگوں کا میں بےحد شکر گزار ہوں بالخصوص مولانایاسین قاسمی قاری فیض الدین عارف اقدم صدیقی عارف سراج نعمانی تسنیم کوثر قمر عالم کا جنھوں نے ہر قدم پر رہنمائ کی اور ہماری حوصلہ افزائ کی اور ساتھ میں کوہ نور ہوٹل کے مالک کا جنھوں نے رات میں ٹھرنے کیلئے ہمارے لئے انتظام کیا-خداحافظ

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں