حضرت مفتی عبدالله پھولپوری : ایک عاشق زار کی وفات کچھ زندہ یادیں
تحریر۔مفتی محمدتوصیف_قاسمی
وہ صبح روز کی سی صبح تھی ، جب تک یہ خبر صاعقہ اثر نہیں پہنچی تھی کہ حضرت اقدس مفتی عبدالله صاحب پھولپوری رحلت فرماگئے ، فانا لله وإنا إليه راجعون
قلب و جگر پر یہ خبر مانو بادل کے پھٹنے یا زمین کے کھسکنے جیسی پڑی ، دل و دماغ سن رہ گئے ، نہایت معتمد ذریعہ سے خبر ملنے پر بھی یقینہ ہوا جب تک دو چار جگہوں سے تصدیق نہ کرلی ، آخر ہونی کو کون ٹال سکتا ہے ، کئی موقعوں سے بات پہنچنے پر ہی انا لله زبان سے نکل سکا .
حضرت اقدس مفتی صاحب صحیح معنوں میں ملت کا سرمایہ عظیم تھے ، در کفے سندان شریعت ، در کفے جام عشق کا مصداق تھے ، آپ کی ذات والا صفات مردہ قلوب کے لئے سیرابی کا سامان تھی ، شیخ المشائخ صدیق دوراں شاہ عبدالغنی صاحب نور الله مرقدہ کے صحیح معنوں میجانشیں ، محی السنة مولانا ابرارالحق صاحب رحمه الله 160کے معتمد و مجاز اور تربیت یافتہ ، شیخ العرب والعجم حکیم محمد اختر صاحب کے چہیتے اور دوسرے اکابر وقت کے منظور نظر تھے ، بلکہ آپ موجودہ وقت میں کسی لحاظ سے اکابر کی فہرست علیحدہ نہ تھے ، وقت بہت کم جن افراد کی فیاضی کرتا ہے ان میں سے ایک نادر شخصیت تھی حضرت مفتی صاحب کی جنھیں اب نور الله مرقدہ اور رحمة الله علیه کہتے ہوئے کلیجہ منھ کو آتا ہے .
جامع کمالات
جامعیت آپ کا طرہ امتیاز تھا ، ایک طرف کامیاب مدرس تو ساتھ ہی ناظم مدرسہ بھی ، فتوی پر درک ہے تو بخاری کا درس بھی لاجواب ہے ، علمی قیل و قال دامنگیر تو خانقاہی کیف و حال اوڑھنا بچھونا ، علوم کی خدمت ہے تو عوام کی بھی خدمات ہیں ، ملی و سماجی نیز سیاسی خدمات بھی آپ کی حیات کا ایک جیتا جاگتا باب ہیں .
الغرض آپ جامعیت کا ایک باب تھے ، جنھیں دیکھ کر لوگ اکابر کی یاد تازہ کرتے تھ
تزکیہ و تصوف کا رنگ
تھانویت تو آپ کو نسلا اپنے دادا مولانا شاہ عبدالغنی صاحب سے ہی خونی رشتہ میں ملی تھی ، پھر تربیت کے لئے بھی آپ در محی السنة پر حاضر ہوئے جو خود شاہ صاحب کے باقاعدہ نہ سہی لیکن مستفیدین میں تھے ، پھر جو طرز طریق حضرت محی السنة کا عہد موجود میں اصلاح کا کامیاب تر تھا اس کی مثال مشکل ہے ، اس لئے اسی طرز و فکر کے اپنی فطری صلاحیت کے سبب بہت بڑے داعی و مبلغ ہوگئے.
راقم نے ہردوئی کی طالب علمی میں آستانہ محی السنة پر بڑے چھوٹے بہت سے اکابر و اصاغر اہل فضل و کمال کا جھرمٹ دیکھا ، لیکن جن کی یادیں ذہن پر نقش ہوئیں ان میں سے ایک حضرت مفتی پھولپوری رحمه الله تھے .
آپ کے صلاح و تقوی کا پتہ آپ چہرہ بشرہ دیتا تھا ، انداز گفتگو محبت الہی کا آبشار 160تھا ، کسی کا ترنم تو کسی کا تکلم مست کرتا ہے ، آپ کی خموشی اور مسکراہٹ اور ادا ہی معرفت و محبت کا دریا تھی ، حدیث : من الذين إذا روؤا ذكر الله . (جن انھیں دیکھو تو الله یاد آجائے ) کا چلتا پھرتا مفہوم تھے ، انداز گفتگو نہایت دلنشین ، سہل تراکیب ، جملوں سے زیادہ انداز سے پلانے والے .
اعلی اخلاق کا نمونہ
حضرت سے باقاعدہ ربط و تعلق یا آمد و رفت نہ رہی تاہم چند محبت بھری ملاقاتیں ہوئیں ، پہلی تفصیلی ملاقات مدرسہ بیت العلوم سرائے میں ہوئی ، پہلی آمد ،نو فارغ ،طالب علم نہیں تو طالب نما ضرور تھا ، لیکن عنایات سے پانی پانی ہوا جاتا تھا ، یوں محسوس ہی نہ ہوا کہ کوئی نو عمر جوان حاضر ہوا ہے ، دیکھ کر ہیبت شخصی کا اثر ہوئے لیکن گفتگو اتنا قریب کردے کہ آپ سے زیادہ کوئی قریب نہ ہو .
حضرت محی السنة کی یادگار160
تزکیہ و اصلاح ، نہی عن المنکر ، عوامی سہل انداز خطاب آپ میں کافی حد تک حضرت ہردوئی کا سا تھا ، حتی کہ پسند و ناپسند بھی گویا ایک ہی میں گم ہوگئی تھی ، مدرسہ میں جب حضرت مفتی صاحب کی آرام گاہ میں داخل ہوا تو کچھ پل کو بھول گیا کہ یہ سرائے میر ہے یا آستانہ ابرار ؟ ہر چیز میں سفیدی ، بستر ، در و دیوار ، فرش و عرش ، الحاصل کہ ہر ذرہ میں شیخ کا عکس ، چند لمحے تو حضرتِ ابرار کی یادوں میں کھو گیا .
میرے ایک محسن کہتے ہیں کہ میرا تو جی چاہتا ہے کہ مفتی صاحب کو "آئینہ محی السنة" کہا کروں ، جو وہاں نظر آتا تھا اب مفتی صاحب کے یہاں بعینہ دکھائی دیتا ہے .
ایک شب پھولپور کی
حاضری پر رات قیام کی بات تھی تو فرمایا اگر مدرسہ میں قیام چاہیں تو یہاں ٹھہر جائیں اور چاہیں تو پھولپور چلیں ، کم وقت لیکر گیا تھا ، دوسرے موقع کا انتظار طویل جھٹ سے پھولپور کی حامی بھردی ، صبح کو خانقاہ دکھائی ، حضرت شاہ عبدالغنی صاحب کی کچھ یادگاریں دکھائیں ، خانقاہ میں مقیمین کے بارے ملاقات سے قبل فرمایا یہ یومیہ 24 ہزار کا ذکر کرنے والے حضرات ہیں ، بعد فجر ایک اپنی نوع کی مجلس تھی ، کبھی کچھ فرمادیتے ، کوئی سوال کرلیتا ، کبھی دوسرے موجود حضرات کی بات سن لیتے .
دلیل ولایت
ہردوئی میں اکابر مدرسہ سے سنا کہ " نبی کو پہچاننا آسان ہے ( اس سے معجزہ کا سوال ہوسکتا ہے ) لیکن ولی کو پہچاننا مشکل ، تاہم علامتیں ضرور ہیں جن سے اندازہ مشکل نہیں ، ذہن میں آرہا ہوگا کہ میں کسی کرامت کا ذکر کروں گا تو بتادوں ایسا ہرگز نہیں ، بلکہ ایک بڑی علامت جو اکابر اولیاء سے منقول ہے اس کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں ، اور وہ یہ کہ حضرت اقدس مفتی عبد الله صاحب کی ولایت کا ڈنکا جہاں دنیا کے دور گوشوں تک صدا لگا رہا تھا ، وہیں کچھ محروم العقل و القسمت لوگ تھے جو مفتی صاحب کو ناکردہ باتوں پر معتوب کرنے پر آمادہ تھے ، بعض باتوں کو توڑ مروڑ سوال بناکر دارالافتاء بھیجا گیا ، جب کہ اسے پڑھ معلوم ہوجاتا ہے کہ اس میں اعتراض کرنے لائق ایک بھی معقول وجہ و سبب نہیں ، سوائے ایک الله والے سے بغض و کینہ کے ، سوشل میڈیا پر بھی بعض ایسے ہی بد فکرے ان آدھی ادھوری باتوں کو پھیلا کر دل کے مرض کو تقویت دیتے دکھائی دیئے .
جی ہاں ! یہ دلیل ولایت ہے ، نظام الاولیاء حضرت نظام الدین رحمة الله علیه سے ان کے خادم نے کہا میں تو چلا ، جسے دیکھو آپ کی تعریف ہی کرتا ہے ، کوئی بھی برائی کرنے والا نہیں ، فرمایا اچھا چلے جانا لیکن ذرا پڑوسن تک جاکر یہ کام کردو ، وہ گیا اور جاکر حضرت حضرت کرنے لگا ، اس پڑوسن نے جب حضرت کا لفظ سنا تو سنانا شروع کیا اور جو ممکن ہوا سنا ڈالا کہ کہاں ہجرت ؟ وہ تو ایسا تیسا ہے .....خادم لوٹا بندھا بستر کھول دیا کہ اب جانے کی حاجت نہیں ، دیکھ لیا کہ آپ کے بھی دشمن موجود ہیں .
ان بدعقلوں کو کون سمجھائے کہ عصمت نبوت کا خاصہ ہے ، ولایت کا نہیں ، گناہ کا استثناء صرف انبیاء سے ہے ، دوسرے کسی نبی ولی سے نہیں ، حتی کہ انفرادا صحابہ سے بھی نہیں ، لیکن اولیاء الله کی ایسی باتوں کو جو ان سے بتقاضہ بشری صادر ہوئیں نیز وہ اس پر مصر بھی نہیں پکڑ کر بیٹھ جانا انھیں تو رسوا نہ کرے گا خود کو البتہ مردود بارگاہ الہی ضرور اور بالیقین کرے گا.
وفات العلماء کا سال
الله جانے کس نے یہ بات کہی ہے ، مجھے استناد میں تثبت نہیں لیکن ہوا کچھ ہی ہے کہ امسال علماء و اکابر کی رحلات کی ایک کڑی سی بن گئی ، سب کے اپنے جدا جدا خصوصیات ہیں ، مگر مفتی صاحب کا رنگ کچھ اور تھا ، کہیں کوئی منارہ علم پر قابض ہے لیکن عمل میں رشک جاہلاں ہیں ،اور دوسرا خانقاہ کی گدی پر براجمان ہے تو علم میں بوجہل ، علم و عمل کے جامع اور ایسے جامع کہ اکابر سے لے کر عوام تک یکساں محبوبیت کے مالک ہوں کم ملیں گے ، غم غلط کرنے کو چند جملے ترتیب دے دیئے ورنہ دل بار بار غم فراق پر نوحہ کناں ہے ، کوئی ایک طبقہ کا گھر نہیں ، پوری ملت تعزیت کے حقدار ہے .
آخری آرام گاہ
حضرت مع اہل و عیال عمرہ پر تھے کہ طبیعت میں گرانی ہوئی جو آخری سانسوں کا بہانہ بن گئیں ، لیکن دیکھیئے تو ایک سفر ، پھر غربت وطن ، خدمت علم ، زمانہ فساد میں احیاء سنت کی ترویج کرنا ، مکہ المشرفہ کی موت اتنے جلی اسباب تھے تو آپ کی وفات کو شہادت بنانے کے لئے قدرت نے پیدا کئے ، اور یا الله! عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے ، حرم مکہ کی نماز ،پھر عاشقوں کے مدفن میں ام المومنین عاشقۂ رسول ماں خدیجہ رضی الله عنھا کے قرب میں ، 160"الشفاء"جیسی عشق نبوی میں ڈوبی کتاب کے مولف قاضی عیاض مالکی یحصبی کے پہلو ، اور سید الطائفہ اہل دیوبند کا سرخیل حاجی امداد الله مہاجر مکی کا جوار نصیب ہوا ، یہ تھی آخری قیام گاہ جو بڑے بڑوں کے بھی صرف خوابوں میں ہے ، مگر اس عاشق زار کے لئے تیار تھی .
الله تعالی حضرت کو اپنے شایان شان امت کی طرف سے جزائے خیر عطا فرمائے ، نم دلوں کو صبر جمیل دے ، ان کے محاذوں پر نیابت کے لئے اپنے یہاں سے کسی لائق شخصیت کا انتخاب فرمادے.
#وفاتحضرتپھولپوری
تحریر۔مفتی محمدتوصیف_قاسمی
وہ صبح روز کی سی صبح تھی ، جب تک یہ خبر صاعقہ اثر نہیں پہنچی تھی کہ حضرت اقدس مفتی عبدالله صاحب پھولپوری رحلت فرماگئے ، فانا لله وإنا إليه راجعون
قلب و جگر پر یہ خبر مانو بادل کے پھٹنے یا زمین کے کھسکنے جیسی پڑی ، دل و دماغ سن رہ گئے ، نہایت معتمد ذریعہ سے خبر ملنے پر بھی یقینہ ہوا جب تک دو چار جگہوں سے تصدیق نہ کرلی ، آخر ہونی کو کون ٹال سکتا ہے ، کئی موقعوں سے بات پہنچنے پر ہی انا لله زبان سے نکل سکا .
حضرت اقدس مفتی صاحب صحیح معنوں میں ملت کا سرمایہ عظیم تھے ، در کفے سندان شریعت ، در کفے جام عشق کا مصداق تھے ، آپ کی ذات والا صفات مردہ قلوب کے لئے سیرابی کا سامان تھی ، شیخ المشائخ صدیق دوراں شاہ عبدالغنی صاحب نور الله مرقدہ کے صحیح معنوں میجانشیں ، محی السنة مولانا ابرارالحق صاحب رحمه الله 160کے معتمد و مجاز اور تربیت یافتہ ، شیخ العرب والعجم حکیم محمد اختر صاحب کے چہیتے اور دوسرے اکابر وقت کے منظور نظر تھے ، بلکہ آپ موجودہ وقت میں کسی لحاظ سے اکابر کی فہرست علیحدہ نہ تھے ، وقت بہت کم جن افراد کی فیاضی کرتا ہے ان میں سے ایک نادر شخصیت تھی حضرت مفتی صاحب کی جنھیں اب نور الله مرقدہ اور رحمة الله علیه کہتے ہوئے کلیجہ منھ کو آتا ہے .
جامع کمالات
جامعیت آپ کا طرہ امتیاز تھا ، ایک طرف کامیاب مدرس تو ساتھ ہی ناظم مدرسہ بھی ، فتوی پر درک ہے تو بخاری کا درس بھی لاجواب ہے ، علمی قیل و قال دامنگیر تو خانقاہی کیف و حال اوڑھنا بچھونا ، علوم کی خدمت ہے تو عوام کی بھی خدمات ہیں ، ملی و سماجی نیز سیاسی خدمات بھی آپ کی حیات کا ایک جیتا جاگتا باب ہیں .
الغرض آپ جامعیت کا ایک باب تھے ، جنھیں دیکھ کر لوگ اکابر کی یاد تازہ کرتے تھ
تزکیہ و تصوف کا رنگ
تھانویت تو آپ کو نسلا اپنے دادا مولانا شاہ عبدالغنی صاحب سے ہی خونی رشتہ میں ملی تھی ، پھر تربیت کے لئے بھی آپ در محی السنة پر حاضر ہوئے جو خود شاہ صاحب کے باقاعدہ نہ سہی لیکن مستفیدین میں تھے ، پھر جو طرز طریق حضرت محی السنة کا عہد موجود میں اصلاح کا کامیاب تر تھا اس کی مثال مشکل ہے ، اس لئے اسی طرز و فکر کے اپنی فطری صلاحیت کے سبب بہت بڑے داعی و مبلغ ہوگئے.
راقم نے ہردوئی کی طالب علمی میں آستانہ محی السنة پر بڑے چھوٹے بہت سے اکابر و اصاغر اہل فضل و کمال کا جھرمٹ دیکھا ، لیکن جن کی یادیں ذہن پر نقش ہوئیں ان میں سے ایک حضرت مفتی پھولپوری رحمه الله تھے .
آپ کے صلاح و تقوی کا پتہ آپ چہرہ بشرہ دیتا تھا ، انداز گفتگو محبت الہی کا آبشار 160تھا ، کسی کا ترنم تو کسی کا تکلم مست کرتا ہے ، آپ کی خموشی اور مسکراہٹ اور ادا ہی معرفت و محبت کا دریا تھی ، حدیث : من الذين إذا روؤا ذكر الله . (جن انھیں دیکھو تو الله یاد آجائے ) کا چلتا پھرتا مفہوم تھے ، انداز گفتگو نہایت دلنشین ، سہل تراکیب ، جملوں سے زیادہ انداز سے پلانے والے .
اعلی اخلاق کا نمونہ
حضرت سے باقاعدہ ربط و تعلق یا آمد و رفت نہ رہی تاہم چند محبت بھری ملاقاتیں ہوئیں ، پہلی تفصیلی ملاقات مدرسہ بیت العلوم سرائے میں ہوئی ، پہلی آمد ،نو فارغ ،طالب علم نہیں تو طالب نما ضرور تھا ، لیکن عنایات سے پانی پانی ہوا جاتا تھا ، یوں محسوس ہی نہ ہوا کہ کوئی نو عمر جوان حاضر ہوا ہے ، دیکھ کر ہیبت شخصی کا اثر ہوئے لیکن گفتگو اتنا قریب کردے کہ آپ سے زیادہ کوئی قریب نہ ہو .
حضرت محی السنة کی یادگار160
تزکیہ و اصلاح ، نہی عن المنکر ، عوامی سہل انداز خطاب آپ میں کافی حد تک حضرت ہردوئی کا سا تھا ، حتی کہ پسند و ناپسند بھی گویا ایک ہی میں گم ہوگئی تھی ، مدرسہ میں جب حضرت مفتی صاحب کی آرام گاہ میں داخل ہوا تو کچھ پل کو بھول گیا کہ یہ سرائے میر ہے یا آستانہ ابرار ؟ ہر چیز میں سفیدی ، بستر ، در و دیوار ، فرش و عرش ، الحاصل کہ ہر ذرہ میں شیخ کا عکس ، چند لمحے تو حضرتِ ابرار کی یادوں میں کھو گیا .
میرے ایک محسن کہتے ہیں کہ میرا تو جی چاہتا ہے کہ مفتی صاحب کو "آئینہ محی السنة" کہا کروں ، جو وہاں نظر آتا تھا اب مفتی صاحب کے یہاں بعینہ دکھائی دیتا ہے .
ایک شب پھولپور کی
حاضری پر رات قیام کی بات تھی تو فرمایا اگر مدرسہ میں قیام چاہیں تو یہاں ٹھہر جائیں اور چاہیں تو پھولپور چلیں ، کم وقت لیکر گیا تھا ، دوسرے موقع کا انتظار طویل جھٹ سے پھولپور کی حامی بھردی ، صبح کو خانقاہ دکھائی ، حضرت شاہ عبدالغنی صاحب کی کچھ یادگاریں دکھائیں ، خانقاہ میں مقیمین کے بارے ملاقات سے قبل فرمایا یہ یومیہ 24 ہزار کا ذکر کرنے والے حضرات ہیں ، بعد فجر ایک اپنی نوع کی مجلس تھی ، کبھی کچھ فرمادیتے ، کوئی سوال کرلیتا ، کبھی دوسرے موجود حضرات کی بات سن لیتے .
دلیل ولایت
ہردوئی میں اکابر مدرسہ سے سنا کہ " نبی کو پہچاننا آسان ہے ( اس سے معجزہ کا سوال ہوسکتا ہے ) لیکن ولی کو پہچاننا مشکل ، تاہم علامتیں ضرور ہیں جن سے اندازہ مشکل نہیں ، ذہن میں آرہا ہوگا کہ میں کسی کرامت کا ذکر کروں گا تو بتادوں ایسا ہرگز نہیں ، بلکہ ایک بڑی علامت جو اکابر اولیاء سے منقول ہے اس کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں ، اور وہ یہ کہ حضرت اقدس مفتی عبد الله صاحب کی ولایت کا ڈنکا جہاں دنیا کے دور گوشوں تک صدا لگا رہا تھا ، وہیں کچھ محروم العقل و القسمت لوگ تھے جو مفتی صاحب کو ناکردہ باتوں پر معتوب کرنے پر آمادہ تھے ، بعض باتوں کو توڑ مروڑ سوال بناکر دارالافتاء بھیجا گیا ، جب کہ اسے پڑھ معلوم ہوجاتا ہے کہ اس میں اعتراض کرنے لائق ایک بھی معقول وجہ و سبب نہیں ، سوائے ایک الله والے سے بغض و کینہ کے ، سوشل میڈیا پر بھی بعض ایسے ہی بد فکرے ان آدھی ادھوری باتوں کو پھیلا کر دل کے مرض کو تقویت دیتے دکھائی دیئے .
جی ہاں ! یہ دلیل ولایت ہے ، نظام الاولیاء حضرت نظام الدین رحمة الله علیه سے ان کے خادم نے کہا میں تو چلا ، جسے دیکھو آپ کی تعریف ہی کرتا ہے ، کوئی بھی برائی کرنے والا نہیں ، فرمایا اچھا چلے جانا لیکن ذرا پڑوسن تک جاکر یہ کام کردو ، وہ گیا اور جاکر حضرت حضرت کرنے لگا ، اس پڑوسن نے جب حضرت کا لفظ سنا تو سنانا شروع کیا اور جو ممکن ہوا سنا ڈالا کہ کہاں ہجرت ؟ وہ تو ایسا تیسا ہے .....خادم لوٹا بندھا بستر کھول دیا کہ اب جانے کی حاجت نہیں ، دیکھ لیا کہ آپ کے بھی دشمن موجود ہیں .
ان بدعقلوں کو کون سمجھائے کہ عصمت نبوت کا خاصہ ہے ، ولایت کا نہیں ، گناہ کا استثناء صرف انبیاء سے ہے ، دوسرے کسی نبی ولی سے نہیں ، حتی کہ انفرادا صحابہ سے بھی نہیں ، لیکن اولیاء الله کی ایسی باتوں کو جو ان سے بتقاضہ بشری صادر ہوئیں نیز وہ اس پر مصر بھی نہیں پکڑ کر بیٹھ جانا انھیں تو رسوا نہ کرے گا خود کو البتہ مردود بارگاہ الہی ضرور اور بالیقین کرے گا.
وفات العلماء کا سال
الله جانے کس نے یہ بات کہی ہے ، مجھے استناد میں تثبت نہیں لیکن ہوا کچھ ہی ہے کہ امسال علماء و اکابر کی رحلات کی ایک کڑی سی بن گئی ، سب کے اپنے جدا جدا خصوصیات ہیں ، مگر مفتی صاحب کا رنگ کچھ اور تھا ، کہیں کوئی منارہ علم پر قابض ہے لیکن عمل میں رشک جاہلاں ہیں ،اور دوسرا خانقاہ کی گدی پر براجمان ہے تو علم میں بوجہل ، علم و عمل کے جامع اور ایسے جامع کہ اکابر سے لے کر عوام تک یکساں محبوبیت کے مالک ہوں کم ملیں گے ، غم غلط کرنے کو چند جملے ترتیب دے دیئے ورنہ دل بار بار غم فراق پر نوحہ کناں ہے ، کوئی ایک طبقہ کا گھر نہیں ، پوری ملت تعزیت کے حقدار ہے .
آخری آرام گاہ
حضرت مع اہل و عیال عمرہ پر تھے کہ طبیعت میں گرانی ہوئی جو آخری سانسوں کا بہانہ بن گئیں ، لیکن دیکھیئے تو ایک سفر ، پھر غربت وطن ، خدمت علم ، زمانہ فساد میں احیاء سنت کی ترویج کرنا ، مکہ المشرفہ کی موت اتنے جلی اسباب تھے تو آپ کی وفات کو شہادت بنانے کے لئے قدرت نے پیدا کئے ، اور یا الله! عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے ، حرم مکہ کی نماز ،پھر عاشقوں کے مدفن میں ام المومنین عاشقۂ رسول ماں خدیجہ رضی الله عنھا کے قرب میں ، 160"الشفاء"جیسی عشق نبوی میں ڈوبی کتاب کے مولف قاضی عیاض مالکی یحصبی کے پہلو ، اور سید الطائفہ اہل دیوبند کا سرخیل حاجی امداد الله مہاجر مکی کا جوار نصیب ہوا ، یہ تھی آخری قیام گاہ جو بڑے بڑوں کے بھی صرف خوابوں میں ہے ، مگر اس عاشق زار کے لئے تیار تھی .
الله تعالی حضرت کو اپنے شایان شان امت کی طرف سے جزائے خیر عطا فرمائے ، نم دلوں کو صبر جمیل دے ، ان کے محاذوں پر نیابت کے لئے اپنے یہاں سے کسی لائق شخصیت کا انتخاب فرمادے.
#وفاتحضرتپھولپوری

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں