تحریر ۔ایم ودود ساجد
آندھرا بھون ( دہلی ) میں منعقد "دہلی یونین آف جرنلسٹس" DUJ کے ایک پروگرام سے ابھی آکر بیٹھا ہوں۔۔اس پروگرام میں11 ریاستوں کے صحافی شریک ہوئے جہاں " نیشنل الائنس آف جرنلسٹس " کی تشکیل کی گئی۔۔۔۔۔اس پروگرام میں دہلی کے وزیر محنت گوپال رائے بھی آئے اور وزیر اعلیٰ اروند کجریوال نے بھی اپنا پیغام بھیجا۔۔۔
میں نے DUJ کی ایگزیکٹو کمیٹی کا رکن ہونے کے ناطے کئی صحافی دوستوں کو مدعو کیا تھا۔۔۔ان میں سے اکثر نہیں آئے۔۔سینئر صحافی سراج نقوی کا شکریہ کہ وہ میرے کہنے سے بہت دور سے آئے۔۔۔
اس موقع پر DUJ کے صدر ایس کے پانڈے نے دوگھنٹے کے پروگرام میں اردو اخبارات پر آنے والے سرکاری عتاب کا 8 مرتبہ ذکر کیا۔۔۔انہوں نے جدوجہد آزادی میں اردو صحافت کے کردار کی ستائش کرتے ہوئے اردو اخبارات کی موجودہ صورتِ حال پر افسوس ظاہر کیا۔۔۔DUJ چاہتی تھی کہ کچھ متاثرہ اردو اخبار والے خود اپنے احوال زار بیان کریں لیکن جب کوئی آیا ہی نہیں تو کون بیان کرتا۔۔۔
لہذا اس موقع پر میں نے تمام اردو میڈیا کی نمائندگی کرتے ہوئے کچھ مسائل پر تفصیل سے روشنی ڈالی ۔۔۔میں نے کہا کہ اردو اور اردو کے اشعار سب کو اچھے لگتے ہیں ۔۔۔عدالتوں میں جج تک اپنے فیصلوں میں ان کا حوالہ دیتے ہیں ۔۔۔یہاں تک کہ پارلیمنٹ میں ممبران اور وزیر اور حزب اقتدار اور حزب اختلاف تک اپنی لڑائی میں اردو شاعری کا سہارا لیتے ہیں لیکن اردو صحافت اور اردو میڈیا کا گلا گھونٹنے میں سب پیش پیش رہتے ہیں ۔۔۔میری مختصر سی انگریزی اور اردو کی تقریر کو بڑی پزیرائی ملی۔۔۔۔۔پانڈے جی آپ کا بہت شکریہ۔۔۔۔
(اس پروگرام کے بہت سے نکات تشنه تحریر ہیں ۔۔۔ان پر گفتگو پھر کبھی۔۔۔)

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں