تحریر سمیع اللہ خان
" ہاردک پٹیل کی سی ڈی، سنسنی خیز انکشاف اور گجراتی بیٹے کی پیدائش: "
گجرات میں اب " کرو یا مرو " جیسی صورتحال ہے، سیاسی پارٹیاں، گجرات فتح کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں، چونکہ، گجراتکے نتائج ہی کم و بیش ۲۰۱۹ کی تصویر مرتب کرینگے، اسی لیے گجراتی کرسی کی دوڑ میں مسلسل دلچسپیاں پیش آرہی ہیں ۔
ایکطرف کانگریس پوری شدومدسے بھاجپا اور آر ایس ایس کو گھیر رہی ہے تو دوسری جانب سیکولر انقلابی تری مورتیاں بھاجپا کو دھول چٹانےکے لیے پُر عزم ہیں، کانگریس نے ہمیشہ کی طرح ملکی ایشوز کا، کارڈ پیش کیا ہے، جو کہ، بظاہر مظلومیت اور طبقاتی بندر بانٹ کے خلاف نظر آرہاہے، کانگریس جیت کر اپنے وعدے پورے کرتی ہے یا نہیں؟ اس کی پالیسیاں کیا ہوں گی؟ یہ بحث اس وقت موزوں نہیں ہے، البتّہ یہ حقیقت ضرور ہیکہ فاشسٹ طاقتوں کے خلاف گجرات میں کانگریس کے سوا کوئی متبادل نہیں ہے، اور ان نظریات سے گجراتمیں برابر کی ٹکر لینے والی کوئی اور جماعت نہیں ہے، ہمارے یہاں ایک زاویہء نظر یہ بھی ہیکہ بھاجپا اور کانگریس ایک ہی سکّے کے دو رخ ہیں اور یہ بھی کہ بھاجپا سے زیادہ زہریلی کانگریس ہے، لیکن گجرات الیکشن میں جس طرح کانگریسی ٹیم سنگھی نظریات اور بھاجپائی عزائم کا توڑ کررہی ہے وہ، اِس زاویہء نظر کی اگر مکمل نفی نہیں کرسکتا تو اس کا بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کانگریسی ٹییم کو کُرسی کی چاہ شدید ہے، اور کرسی کی چاہ کیسی ہوتی ہے اس سے سبھی واقف ہیں، یہ بھی ممکن ہے، اور جیسا کہ مشاہدات بھی ہیں کہ اب، ملکی سیاست کے قدآور گلیاروں کی اگلی نسل مکمل طور پر اپنی تمام پالیسیوں اور مطمح نظر پر باقی رہنے کے باوجود، سختی سے تشدد مکت اور ترقی پسند ہے، سیاست کی یہ پود اپنے خمیر کی سخت گیری سے منحرف ہے، اس میں بہت ممکن ہے ماحول کا اثر ہو یا یہ کہ دیگر نظریاتی اور، رجحانی عوامل کارفرما ہوں، لیکن یہ صورتحال نظر آرہی ہے جس سے انکار نہیں ہوناچاہئے، اکھلیش یادو، تیجسوی پرساد اور راہل گاندھی اس قسم کے بڑے چہرے ہیں،
یہ دونوں پہلو کانگریس کے متحرک ہونے کے پس منظر کے طور پر ملحوظ ہونی چاہییں، اور یہی وجہ ہیکہ تعلیمیافتہ، ترقی پسند نوجوان بڑی تیزی سے ملکی پسماندگی سے عاجز آ آ کر ان سے جڑتا جارہاہے، اور گجرات میں کانگریس کے لیے زمین سازی میں اسی انقلابی فکر کے حامل نوجوانوں کا مرکزي رول ہے، اب یہ کانگریسی اعلٰی قیادت کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ نوجوانوں کا، اعتماد بحال رکھے، لیکن کانگریس کا مسئلہ یہ ہیکہ وہ بھی کہیں نا کہیں منحصر ہے اور اس صورت میں کانگریس کے ڈھانچے پر اثراندازی کے لیے ضروری ہیکہ کانگریس کی نوجوان قیادت سرگرم رول ادا کرے،
گجرات میں کانگریس کے حق میں فضاء بننا اس بات کی علامت ہیکہ ملک موجودہ پالیسیوں سے عاجز آچکاہے، اور یہ کہ ملکی عوام سخت گیر پالیسیوں اور متشددانہ عزائم کو مسترد کرتی ہے، یہی وجہ ہیکہ گجرات کے سیاسی منظرنامے سے بھاجپا کے ہوش اڑے ہوئے ہیں،
بھاجپا نے پھر سے دہشتگردانہ پالیسی کو عمل میں لاتے ہوئے گجرات میں ایجنسیوں کو متحرک کیا، پھر گندی سیاست کا، کارڈ کھیلا اور نوجوان طاقت کو منتشر کرنے کے لیے، ہاردک پٹیل کی فحش سی ڈی پھیلائی، لیکن یہاں بھی اسے منہ کی کھانی پڑی اور سوشل ميڈيا پر موجود انصاف پسند سوشل ورکرز اور صحافیوں نے اس کے مقابلے، ایک ٹرینڈ چلایا کہ: "وکاس کی سی ڈی کہاں ہے"اور ہاردک کی جھوٹی سی ڈی کے مقابلے گجرات کے وِکاس کی حقیقی سی ڈی کا مطالبہ کرکے اس سازش کی بھی ہوا نکال دی، بھاجپا کی یہ گندی سیاست جاری ہی تھی کہ: غیر متوقع طور پر بھاجپائی خیمے پر ایک زبردست ضرب تب پڑی جبکہ، کارواں ڈیلی میگزین کے جرنلسٹ نرنجن ٹاکلے نے ۳ سالہ پرانے ایک معاملے کی تحقیقاتی رپورٹ پیش کی، معاملہ سہراب الدین فرضی انکاؤنٹر کا تھا جس میں کلیدی ملزم امیت شاہ تھے اس مقدمے کی سماعت کررہے جج برج گوپال کی مشتبہ حالت میں موت ہوگئی تھی، اب اس رپورٹ سے ثابت ہورہاہے کہ نرنجن ٹاکلے کی موت منظم، منصوبہ بند سازش تھی، اس انکشاف نے بھاجپا کو اٹھا کر بیک فُٹ پر ڈال دیا، ہر ہر قدم پر بی جے پی عالمی سطح پر ہزیمت اٹھا رہی ہے، اس وقت کسی بھی طرح کا کوئی کارڈ بی جے پی کے پاس بچا نہیں، گجرات کے اس سیاسی سیشن میں مختلف صوبوں کے وزراء اعلٰی کی ہی نہیں آج تو ملک کے وزیراعظم کی ریلی میں بھی کرسیاں خالی پڑی تھیں ، پورا صوبہ مودی اور بھاجپا سے کراہ رہا ہے، عام آدمی سے لیکر عام تاجر و مزدور ان کی پالیسیوں سے جوجھ رہا ہے، اور اس سرکار نے عوام پر ایسی پالیسیاں لاد دی ہیں کہ عام آدمی ان سے متنفر ہوچکا ہے اور ان لوگوں سے عوامی نفرت کا عالم یہ ہیکہ آج ہی یہ خبریں چند معتبر افراد سے موصول ہوئی ہیں کہ گجرات کے کئی علاقوں میں ان بھاجپائی ریلیوں پر عوامی غصہ بھی پھوٹا ہے، ایسی بدتر صورتحال میں، مودی نے جذباتی کارڈ کھیلتے ہوئے خود کو " گجرات کا بیٹا " گھوشت کرلیا ہے اور اب وہ گاندھی، و امبیڈکر کے نام کا استحصال کرتے ہوئے، اسٹیج پر مگرمچھ بن رہے ہیں، اور کوشش یہ ہیکہ علاقائی اور ریاستی تعصب کا کارڈ کھیلنے میں کامیاب ہوجائیں، لیکن سنگھی تھنک ٹینک کے یہ مکروہ عزائم کسی بھی طور کارگر نہیں ہورہےہیں، کیونکہ اس دفعہ گجرات میں صرف ایک جماعت محض، کرسی کے لیے بھاجپا کی مخالفت نہیں کررہی ہے، بلکہ کئی طبقات، و کمیونٹیز کے نوجوان تابناک و ترقی پذیر مستقبل کے لیے منظم جدوجہد کررہےہیں، بھاجپا دو ہی راستے سے آسکتی ہے، بڑے پیمانے پر مذہبی جنگیں یا تو ای وی ایم کی کرامت، کوششیں کرنے والوں کو ان دونوں کے لیے بھی تیار رہناچاہئے ، اور ہم پھر کہیں گے کہ مسلمانوں کا اس میں خاموش لیکن غیر جامد، کردار ہونا چاہئے ایسا کردار جو کہ قبل از وقت دفن رہے لیکن بروقت مؤثر انداز میں پھوٹ پڑے کیونکہ یہی موڑ ۲۰۱۹ کا ماحول ساز ہے ۔؞ سمیع اللّٰہ خان ؞جنرل سکریٹری: کاروانِ امن و انصاف

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں