تازہ ترین

ہفتہ، 28 اکتوبر، 2017

چراغ سب کےبُجھیں گے ہوا کسی کی نہیں!


گجرات کا سیاسی دنگل قسط ۳
چراغ سب کےبُجھیں گے ہوا کسی کی نہیں!
‍(ملک کی موجودہ سیاسی بساط فیصلہ کن تاریخ رقم کررہی ہے، ان سازشوں سے واقفیت اور اس میں گراؤنڈ پر اپنوں کی جدوجہد لازمی بلکہ فرض ہے، اس کے علاوہ گھر بیٹھ کر عافیت کے سپنے دیکھنا اور دکھانا ہندوستانی سیاست کی موجودہ صورتحال پر سرسری نظر رکھنے پر دلالت کرتاہے، ہاں، اپنا چہرہ ہرگز نہیں سامنے آنا چاہئے لیکن کوشش کرنے والوں کا گراؤنڈ پر بھرپور تعاون کرنا اہل گجرات پر فرض ہے ۔ راقم سطور نے اترپردیش انتخابات کی طرح گجرات انتخابات کے منظرنامے سے اپنوں کو متوجہ رکھنے کے لیے " سیاسی دنگل" کالم شروع کیا ہے، جس کی یہ تيسری قسط ممبئی کے معروف عالم دین ملک و عالمی حالات پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ نگار مفتی انور خان سرگروہ کے بے لاگ قلم سے ہے، جو کہ، درحقیقت دوسری قسط پر تبصرے سے وجود میں آئی، مفتی صاحب سے درخواست کی گئی تھی کہ تبصرے کو مکمل مضمون کے قالب میں ڈھال کر کالم کی تیسری قسط کے بطور پیش فرمائیں، چنانچہ اور وقیع انداز میں مفتی صاحب نے تحریر پیش کی، فجزاہ اللّٰہ احسن الجزا ۔ ) 
ماضی میں ممبئی ایک مستقل صوبہ ہوا کرتا تھا،موجودہ مہاراشٹر اورگجرات صوبہ ممبئی کا حصہ ہوا کرتے تھے، اپنی جسامت کے سبب ممبئی کو"گریٹرممبئی" کہا جاتا تھا، یکم مئی کو صوبہ ممبئی کی تقسم عمل میں آئی، اور مہاراشٹر وگجرات جیسی دو مزید ریاستیں بنائی گئیں،
سنگھ پریوار نے دھیمی آنچ پر گجرات اور مہاراشٹر کی قومی ہم آہنگی والی فضا کو برباد کرنے کی زوردار کوششیں کیں،مگر مہاراشٹر کے ناگپور میں سنگھیوں کے "ہیڈکوارٹر کے باوجود،سنگھ پریوار کو اس ریاست میں بڑی اور خاطرخواہ کامیابی نہیں ملی، فی الحال بھاجپ کی "ای وی ایم سرکار" کے باوجود مہاراشٹرکو ہندوتوا کی لیباریٹری بنانے کا خیال، ابھی صرف ارادہ تک محدود ہے،
ریاست مہاراشٹر کی جڑیں مذہبی منافرت سے کافی حد تک پاک ہیں، پاکی کے اثرات کو ممبئی سٹی میں دیکھا جاسکتا ہے، جس کو شیوسینا نے "آمچی ممبئی" بنانا چاہا، لیکن ریاست کی نسبتاً "غیرمتعصب" آب و ہوا کے سبب یہ ممکن نہیں ہو پایا ہے، اگر شیوسینا پیدا نہ ہوئی ہوتی تو مہاراشٹر کی سیاست کا مطلع اور زیادہ صاف ستھرا ہوسکتا تھا، خیر آج بھی جمہوری ذہنوں کے پاس مہاراشٹرکی موجودہ شناخت کو بچانے کے لاتعداد مواقع حاصل ہیں، اگراب بھی نہ جاگے اورممبئی سے فقط نجی "تجارتی منافع" حاصل کرتے رہے، تو اس ریاست کا بھی "بھگواکرن" کردیا جائےگا،جس کے بعدممبئی کی حیثیت، نہ معاشی راجدھانی کی باقی نہیں رہ جائےگی، اور نہ ہی ہر ریاست کا باشندہ، آئینی حق سے اسے اپنا شہر کہہ پائےگا، نیز بلیٹ ٹرین اور ہوور کرافٹ بحری جہازوں کے ذریعہ ممبئی کو مہاراشٹر کی، قدرے صحتمند سیاسی آب و ہوا سے دور اور بھگوا لیباریٹری سے نزدیک لے جایا جائےگا،ان سطور سے عیاں ہے کہ جس گجرات کو گذشتہ دو دہائیوں سے" ہندوتوا کی لیباریٹری" بنایا گیا ہے، وہ پہلے ایسا نہیں تھا، لیکن ریاست میں سومناتھ کے علاوہ کئی منفی تاریخیں زندہ تھیں، منفی رجحانات پنپ رہے تھے، احمدآباد سے نکلنے والی یاترائیں الگ سے زہر چھڑک رہی تھیں، نتیجہ میں نام کی ہی سہی مگرسکیولر طاقتوں کو شکستِ فاش ہوئی، اس کے بعد گجرات میں سب کچھ بدل کر رہ گیا، اس ہورے عرصہ میں ریاست کی سیاست میں مسلمانوں نے کوئی کردار ادا نہیں کیا، مسلمانوں نے قومی یکجہتی کے لئے کوئی پروگرام نہیں بنایا، بعینہ جس طرح آج کے مہاراشٹر کے مسلمان کچھ بھی سلسلہ وار کام نہیں کررہے ہیں، رہی ممبئی تو یہاں کے چند مسلمان اعظمی جی اور نواب ملک جی کی سرپرستی میں رینگ رہے ہیں، جبکہ وہ اپنی اصل میں سیاستداں کم اور تاجر زیادہ ہیں،

ہم کو ان سے ہے وفا کی امید 
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
ایک لمبے عرصہ کے بعد گجرات میں تبدیلی کے آثار ہیں، اور بھاجپ کیخلاف جو یہ سماجی بیزاری پیدا ہوئی ہے، اس کا سبب یہ ہے کہ ملک کی معاشی حالت خستہ ہے، نوٹ بندی اور جی ایس ٹی نے نظامِ معیشت کو تباہ وبرباد کرکے رکھ دیا ہے، معدہ اور نفس پر چوٹ پڑتی ہے تب کھوکھلے نظریے کام نہیں آتے ہیں، بلکہ عوام وخواص کو زمینی حقائق یاد آتے ہیں،اور گجرات میں ایسا ہی ہوا ہے، پاٹی دار ریزرویشن سے نوٹ بندی تک ہر چیز قومی مفاد کیخلاف گئی ہے، اورمٹھی بھرسرمایہ داروں کے حق میں گئی ہے، اِن سرمایہ داروں کے چوڑے معدہ کا حال یہ ہے کہ یہاں بھارت کی سرکار کے "داماد" بنے ہوئے ہیں، بیرونِ ملک بھی وارے نیارے ہیں، انگریزوں کی ایسٹ انڈیا کمپنی کے بعد "اڈانی کی کمپنی" کو یہ منفی اعزاز حاصل ہوا ہے کہ آسٹریلیا کے سفیدفام باشندوں نے تاریخ میں پہلی مرتبہ "سیاہ فام اڈانی" کے اتیاچار کے خلاف احتجاج کیا ہے، کیونکہ سرکار کی عنایت سے اڈانی نے آسٹریلیا کی کانوں کی کھدائی کا ٹھیکہ لیا ہے، اف جو آسٹریلیا کی تیز پچوں پر فکسنگ کرسکتے ہیں، وہ بھارت میں کس قدر مہارت کے ساتھ "پچ فکسنگ" کرتے ہوں گے، ٹھیکے اور حالات اس کی گواہی دیتے ہیں، ابھی پرسوں کرکٹ بورڈ نے ایک کیوریٹر کو پچ فکسنگ کے معاملہ میں معطل کردیا گیا ہے،الغرض گجرات کا حالیہ الیکشن تاریخ ساز ہوگا، گجرات کے پنجرہ میں وہ طوطا ہے جس کے اندر بھاجپ اور سنگھ پریوار کی جان بسی ہوئی ہے، اس لئے یہاں پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہوگا، اور کسی بھی سیاسی غلطی سے بچنا ہوگا، ماضی میں بھی بھاجپ نے جملہ بازیوں سے الیکشن جیتے ہیں، اب کہ ان کے ڈرے ہوئے خشک ہونٹوں کو جملوں کا سہارا نہ دیا جائے، آج ٹیپوسلطان اور تاج محل پر جو لیڈر بیان بازیاں کررہے ہیں، درحقیقت وہ تاریخ کی معلومات کے لحاظ سے "پپّو" ہیں، ان کی باتوں کو وزن نہ دیا جائے، کیوں کہ یہ ساری ورزشیں، گجرات الیکشن کو"کمیونل" بنانے کے لئے کی جارہی ہیں،نوجوان صحافی سمیع اللہ خان نے اپنے تجزیے میں یشونت سنہا کی "سیٹنگ" والی ٹویٹ نقل کی ہے، اس میں صداقت ہے، اور یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے کہ ملک کا سابق فائنانس منسٹر گجرات الیکشن کے بارے میں یہ تشویش ظاہر کررہا ہے، کہ، مودی "سیٹنگ" سے جیت سکتے ہیں، 
گجرات الیکشن کے تناظر میں یہ سوال بدستور قائم ہے کہ، ریاست میں اس قدر عوامی غصے اور بیزاری کےباوجود، اگر بھاجپ الیکشن جیت لیتی ہے تو گجراتی اورایک عام بھارتی کا ردعمل کیا ہوگا؟وجہ یہ ہے کہ جو ذات اقتدار میں ہے، اس نے فسادات اور متنازعہ بیانات سے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ سیاستاً بےشرم اور بےغیرت ہے، اسے جمہوری قدروں کی کوئی پرواہ نہیں ہے، وہ صرف اورصرف دام، ڈنڈ اور بھے کی چانکیہ نیتی میں یقین رکھتی ہے، وہ انہی تین ہتھکنڈوں سے اقتدار میں جمے رہنا چاہتی ہے، یہ مفاد پرست ذات، بھارت کو ہر قیمت پر چوس لینا چاہتی ہے، اور عالمی آلہ کار بزنس فیملیوں کو بھاری بھرکم منافع پہنچانا چاہتی ہے، تاکہ گھوم کر دولت، پارٹی فنڈ میں واپس آتی رہے، اورفاشزم کوسرمایہ فراہم ہوتا رہے،خیر یشونت سنہا اورسوشل میڈیا کی بات کا اعتبار کریں، اور یوپی الیکشن میں بھاجپ کی جادوئی فتح کا اندازہ کریں تو بہت ممکن ہے کہ گجرات میں بھاجپ کی "ای وی ایم سرکار" بن سکتی ہے، خدانخواستہ ایسا ہوگیا تو عوم و خواص کے پاس "پلان بی" کیا ہے؟ اس دھوکہ سے باہر آنے میں کافی وقت لگا ہے کہ بھاجپ کی جیت مودی لہر کا نتیجہ تھی، جبکہ اب یہ قلعی کھل گئی ہے کہ ساری فتوحات میں "امپائر" بھاجپ کا تھا، اورمشینیں "جہیز" کی تھیں،یوپی میں الیکشن کی دھاندلی کھل کر سامنے آگئی، اب یا تو اس ڈیجیٹل مشین کی مان کر خود کو فاشسٹوں کے حوالے کرو یا اس نظام ِ الیکشن کی مخالفت والا "پلان بی" شروع کرو، تیسرا اختیار رہ بھی نہیں گیا ہے،نیز ایک بات کا لحاظ ضروری ہے کہ مسلمانانِ بھارت اس الیکشن میں چہرہ کے ساتھ حصہ نہ لیں، ورنہ پردھان کی خصلت یہ ہے کہ اسے "میاں" کا عنوان دے دےگا، اور عوامی جنگ کو ہندو-مسلم کا روپ دےگا، جو نقصاندہ ہوسکتا ہے، کانگریس کی نیتی درست ہے کہ احمدپٹیل کی زبردست کامیابی کےباوجود انہیں گجرات دنگل سے دور رکھا ہے، اور راہل گاندھی مقامی لیڈروں کےساتھ حملہ آور ہوئے ہیں، 
ماضی میں مودی نے احمدپٹیل کی شمولیت کو "میاں مشرف" کے نام سے خوب بھنایا ہے، مگر اب کہ شریمان کےہاتھ کوئی "جملہ" نہ لگنے پائے، مسلمان گجرات الیکشن کو گجراتیوں ہر چھوڑ دیں، اور اس الیکشن کو ڈیولپمنٹ اور ویاپار کے مدعے ہر چھوڑے رکھیں، اس چناؤ کا گجرات باقی ریاستوں سے مختلف ہے، کیونکہ کسی کے ہاس کھونے کےلئےکچھ خاص نہیں ہے، لیکن بھاجپ کی تو جان کے لالے پڑے ہیں،
ویسے بھی ان دو دہائیوں میں ریاست کےمسلمانوں نے بجز بھاجپ کے آگے "سرینڈر" ہونے کے اور کچھ بھی نہیں کیا ہے، سیاسی پالیسی کے عنوان سے کوئی زمینی کوشش نہیں کی ہے، بلکہ ظفرسریش والا جیسے پٹھوؤں کی باتوں میں آکر یکطرفہ بھاجپ کو مصلحت کے نام پرخوفزدگی ووٹ ڈالے ہیں،لہذا ہاردک، الپیش اور میوانی جیسوں کی شجیع کوشش کے طفیل، بھاجپ کی جو کڑی پتلی ہوئی ہے، اس تناظر میں اب مسلمان چہرے نہ آئیں تو بہتر ہوگا،تاکہ معاملات وکاس سے ہٹنے نہ پائیں، ہاں اگر ممکن ہو تو گجراتی مسلم برادریاں ان جوانوں کی "عطیات" سے مدد کریں، کیونکہ مالی رول سے مسلمانوں کی عملی شرکت آئندہ تسلیم کی جائےگی،لہذا بھاجپ کو قدرتی ہار کےلئے مقامی جوان لیڈرشپ پر معاملہ چھوڑ دیا جائے،ہاں اگر ای وی ایم کانڈ کے طفیل وہ الیکشن جیت لےجاتی ہے، تب مسلمانوں کےپاس بھارت کی جمہوری الیکشن کی روایت کے لئے "پلان بی" ہونا چاہئے، جس کو مدعا بنا کر وہ اہل وطن کے شانہ بہ شانہ "جمہوریت بچاؤ آندولن" شروع کرسکیں،اس میں بھی معقولات کا خیال رہے، کہ دین کے تحفظ کی ذمہ داری مسلمانوں کی ہے، اس لئے اجتماعی کوشش کا عنوان "جمہوریت بچاؤ" ہو یہ بات اقرب الی الفہم ہے۔

محمد انور خان سرگروہ. ماہم ممبئی 
(نائب صدر: کاروان امن و انصاف) 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad