وقف ترمیمی بل: کیا امریکی ٹیرف کے معاشی زلزلے سے عوامی توجہ ہٹانے کی ایک ماہرانہ حکمت عملی ہے؟
نازش احتشام اعظمی
5 اپریل 2025 کو بھارت ایک غیرمعمولی دوراہے پر ایستادہ تھا، جہاں دو بظاہر غیر متعلق مگر اندرونی طور پر مربوط واقعات نے قومی منظرنامے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا: اولاً، صدر دروپدی مرمو کی جانب سے وقف (ترمیمی) بل پر دستخط، اور ثانیاً، 10 اپریل سے نافذ ہونے والے امریکی تجارتی پابندیوں کا اعلان، جس کے تحت بھارتی برآمدات پر 34 فیصد ٹیرف عائد کیا جانا طے پایا۔
گویا ایک جانب آئینی و مذہبی حقوق کی بازگشت بلند ہوئی، تو دوسری جانب معیشت کی جڑوں کو لرزا دینے والا فیصلہ خاموشی سے عمل پذیر ہو رہا تھا۔
اس متوازی ترتیب نے ایک گہرا سوال جنم دیا: کیا نریندر مودی حکومت دانستہ طور پر وقف تنازعے کو ہوا دے کر عوام کی توجہ اس آنے والے اقتصادی طوفان سے ہٹانے کی ایک مہارت سے آراستہ چال چل رہی ہے؟
اگرچہ اس مفروضے کے حق میں کوئی ٹھوس اور براہِ راست شہادت موجود نہیں، مگر واقعات کی ترتیب، سیاسی ترجیحات کی ساخت، اور میڈیا بیانیے کی ہم آہنگی، اس نظریے کو ایک وزنی امکان کی صورت میں ہمارے سامنے رکھتی ہے۔
*وقف بل: اصلاح کا نقاب یا سیاسی تلوار؟*
وقف (ترمیمی) بل، جسے حکومتی اصطلاح میں "یونائیٹڈ وقف مینجمنٹ ایمپاورمنٹ، ایفیشنسی اینڈ ڈیولپمنٹ (امید) ایکٹ" کہا گیا، 1995 کے اصل وقف ایکٹ میں کئی بنیادی تبدیلیاں متعارف کراتا ہے۔ یہ ایکٹ ملک بھر کی ان 8.8 لاکھ سے زائد جائیدادوں پر محیط ہے جو مسلمانوں نے صدیوں سے دینی، فلاحی، اور سماجی مقاصد کے لیے وقف کر رکھی ہیں، اور جو لگ بھگ 38 لاکھ ایکڑ اراضی پر مشتمل ہیں۔ ان املاک کی صورتِ حال بدانتظامی، کرپشن، اور قانونی پیچیدگیوں سے لبریز ہے۔
اس ترمیم کے تحت چند کلیدی تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں، جن میں وقف جائیدادوں کی لازمی ڈیجیٹل رجسٹری، وقف بورڈز میں غیر مسلم ارکان کی شمولیت، اور سب سے اہم، دفعہ 40 کا خاتمہ شامل ہے—جو وقف بورڈ کو عدالتی منظوری کے بغیر کسی جائیداد کو "وقف" قرار دینے کا اختیار دیتا تھا۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ یہ ترامیم شفافیت، جوابدہی، اور خاص طور پر مسلم خواتین کو بااختیار بنانے کی سمت ایک اصلاحی پیش رفت ہے۔
تاہم، حزبِ اختلاف، آئینی ماہرین، اور مسلم مذہبی ادارے اس بیانیے کو محض پردہ پوشی کا ایک حربہ گردانتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ قانون آئین ہند کی دفعات 14 (قانونی مساوات)، 25 (مذہبی آزادی)، اور 26 (مذہبی اداروں کے نظم کی خودمختاری) کے صریح خلاف ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ، کانگریس، AIMIM، اور دیگر جماعتوں نے اسے "مذہبی خودمختاری پر حملہ" قرار دیا ہے۔ اسدالدین اویسی اور امانت اللہ خان جیسے رہنماؤں نے سپریم کورٹ میں چیلنج دائر کر دی ہے، جب کہ عوامی سطح پر بنگلورو، کولکتہ، لکھنؤ اور دیگر شہروں میں زبردست احتجاج نے بل کی متنازع حیثیت کو اجاگر کر دیا ہے۔
*امریکی ٹیرف: خاموشی میں چھپا ایک مہلک اقتصادی بحران*اسی وقف بل کے شور سے دو دن قبل، 2 اپریل کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے بھارت کی برآمدات پر 34 فیصد ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کیا، جو ان کے "لیبریشن ڈے" نظریے کے تحت عالمی تجارتی بیلنس کو از سرِ نو مرتب کرنے کی کوشش کا مظہر ہے۔ یہ فیصلہ بھارت کی 83 ارب ڈالر سالانہ امریکی برآمدات کو براہِ راست متاثر کرتا ہے، جس میں دواسازی، آئی ٹی خدمات، آٹو پرزے، اور ٹیکسٹائل جیسے اہم شعبے شامل ہیں۔
اقتصادی ماہرین کے مطابق یہ ٹیرف بھارت کی جی ڈی پی میں 0.5 سے 1 فیصد کمی، مہنگائی میں اضافے، اور سپلائی چین کی پیچیدگیوں جیسے خطرات کو جنم دے سکتا ہے۔
سب سے زیادہ زد میں وہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے برآمد کنندگان ہوں گے، جو پہلے ہی عالمی کساد بازاری اور کووِڈ کے اثرات سے نڈھال ہیں۔ اگرچہ وزیر تجارت پیوش گوئل نے اس اقدام کو "من مانا اور ناقابلِ قبول" کہا ہے، تاہم حکومت کا ردعمل تاحال مدھم، محتاط اور بےجان محسوس ہوتا ہے—جو وقف بل پر اختیار کردہ پرجوش بیانیے سے یکسر متضاد ہے۔
*ہم وقت واقعات: اتفاق کی تصویر یا سازش کی تحریر؟*اس سوال کا مرکز وہ مخصوص زمانی ترتیب ہے جو وقف بل اور امریکی ٹیرف کے درمیان دیکھی گئی۔ 2 اپریل کو جب امریکی ٹیرف کا اعلان ہوا، عین اسی لمحے بھارتی پارلیمان میں وقف بل پر بحث عروج پر تھی۔ 4 اپریل کو بل کی منظوری کے ساتھ ہی ملک گیر میڈیا اور سوشل پلیٹ فارمز اس موضوع سے لبریز ہو گئے،
جب کہ ٹیرف کی خبر صرف اقتصادی کالموں اور نیوز ٹکرز تک محدود رہی۔
سوشل میڈیا پر اس وقت بےشمار صارفین، بالخصوص X (سابقہ ٹوئٹر) کے حلقے، اس مطابقت کو ایک سوچی سمجھی اسکرپٹ سے تعبیر کر رہے ہیں۔ صارف @ichkipichki کی 3 اپریل کو کی گئی وائرل پوسٹ نے بل کے وقت اور ٹیرف کے اعلان کو "اتفاق نہیں، منصوبہ" قرار دیا۔ اپوزیشن رہنما جیسے ادھو ٹھاکرے اور عمران پرتاپ گڑھی بھی اسی مفروضے کی تائید کرتے نظر آئے۔
اگرچہ حکومت یہ دعویٰ کر سکتی ہے کہ وقف بل کی پارلیمانی ٹائم لائن اگست 2024 سے طے شدہ تھی اور امریکی پالیسی بھی خودمختار خارجہ پالیسی کا تسلسل ہے، تاہم سیاسیات میں اکثر تاثر، حقیقت سے زیادہ گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جہاں سے حکمتِ عملی کے خد و خال نمایاں ہوتے ہیں۔
*حکومتی چالاکی: آزمودہ پالیسی، نئی صورت گری*
توجہ کی منتقلی کا یہ نظریہ بی جے پی کے گزشتہ طرزِ سیاست سے پوری طرح ہم آہنگ دکھائی دیتا ہے۔ 2019 میں جب ملک اقتصادی بحران سے گزر رہا تھا، اسی وقت شہریت ترمیمی قانون (CAA) اور دفعہ 370 کی منسوخی جیسے متنازع اقدامات کیے گئے۔ آج بھی، وقف بل کو "شفافیت" اور "اصلاح" کا لباس پہنا کر، حکومت قوم پرستی، مسلم خواتین کے حقوق، اور بدعنوانی کے خلاف بیانیے کو یکجا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے 4 اپریل کو X پر اپنے پیغام میں اس بل کو "سماجی و اقتصادی انصاف کے قیام کا سنگِ میل" قرار دیا، جس سے یہ اندازہ لگانا دشوار نہیں کہ حکومت اس بل کو ایک قومی جذبے کی علامت بنا کر پیش کرنا چاہتی ہے، تاکہ عوامی گفتگو ٹیرف جیسے تجریدی اور دیرپا موضوعات سے ہٹ کر ایک واضح، جذباتی اور فوری بحث میں مصروف رہے۔
*میڈیا کا کردار: بیانیے کی سمت متعین کرنے والا عنصر*عوامی ذہن سازی میں میڈیا کا کردار کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ ٹیرف جیسے موضوعات اپنی ساخت میں پیچیدہ، غیر جذباتی اور دیرپا اثرات کے حامل ہوتے ہیں، جب کہ وقف بل کی نوعیت مذہبی، تہذیبی، اور آئینی ہے—جو کہ فوری، جذباتی، اور پُر اثر ردعمل کو ابھارتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میڈیا نے وقف بل کی تفصیلات، مظاہروں، قانونی بحثوں اور سیاسی تجزیات کو بھرپور جگہ دی، جب کہ امریکی ٹیرف کو محض پس منظر میں رکھا۔
اس رجحان سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے: کیا میڈیا دانستہ طور پر حکومت کے سیاسی بیانیے کو تقویت دے رہا ہے؟ یا یہ مارکیٹ ڈریون پالیسیوں کا نتیجہ ہے جہاں مذہب اور شناخت جیسے موضوعات زیادہ ریٹنگ اور ناظرین کو اپنی جانب کھینچتے ہیں؟
*معاشی نتائج: پس منظر میں چھپے تباہ کن اثرات*
امریکی ٹیرف محض ایک سفارتی تناؤ نہیں بلکہ ایک ایسا معاشی زلزلہ ہے جس کے جھٹکے ابھی محسوس نہیں کیے جا رہے، مگر ان کی شدت شدید ہو سکتی ہے۔ بھارت جیسے ترقی پذیر ملک کے لیے جس کی معیشت برآمدات پر انحصار کرتی ہے، 34 فیصد ٹیرف برآمدی شعبے میں بیکاری، مہنگائی میں اضافے، اور مالیاتی عدم استحکام کو جنم دے سکتا ہے۔
اگر حکومت نے اس خطرے کو عوامی سطح پر اجاگر نہ کیا، یا کوئی جامع منصوبہ بندی نہ کی، تو نہ صرف سفارتی محاذ پر نقصان ہوگا، بلکہ اندرونِ ملک بھی اقتصادی بےچینی پھیل سکتی ہے۔ وزیر خارجہ ایس جے شنکر کی سفارتی کوششیں اپنی جگہ، مگر زمینی حقائق پر کسی قومی آگاہی مہم کا فقدان کسی گہری حکمت عملی یا سنگین غفلت کی نشاندہی کرتا ہے۔
*نتیجہ: حکمتِ عملی، چالاکی یا محض اتفاق؟*
آخرکار یہ دعویٰ کرنا مشکل ہے کہ وقف ترمیمی بل کا مقصد براہِ راست امریکی ٹیرف سے توجہ ہٹانا تھا، مگر یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ اس نے حکومت کے لیے ایک موزوں سیاسی موقع فراہم کر دیا۔ ایک طرف بل کی آئینی و مذہبی نوعیت نے قومی بیانیے پر قبضہ کر لیا، تو دوسری جانب، معاشی خطرے کو سفارتی پس پردہ دھکیل دیا گیا۔
اگر یہ محض اتفاق تھا، تو بھی حکومت نے اسے بہ خوبی استعمال کیا۔ اگر یہ چال تھی، تو اس کی مہارت قابلِ توجہ ہے۔ بہر کیف، جمہوری شعور کا تقاضا یہ ہے کہ وقف اصلاحات کے ثقافتی مضمرات اور امریکی پابندیوں کے معاشی اثرات—دونوں کو یکساں سنجیدگی سے دیکھا جائے۔ کسی ایک مسئلے پر قومی توجہ مرکوز کرنا اور دوسرے کو پس منظر میں دھکیل دینا، شاید اسی سیاسی چالاکی کا حصہ ہے، جس کی پرتیں ہم نے یہاں بےنقاب کرنے کی کوشش کی ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں