تازہ ترین

پیر، 17 مارچ، 2025

سنبھل: انتظامیہ نے سید سالار مسعود غازی کے میلے پر لگائی روک، تاریخی روایت پر اٹھے سوال!

سنبھل: انتظامیہ نے سید سالار مسعود غازی کے میلے پر لگائی روک، تاریخی روایت پر اٹھے سوال!

سنبھل، (یو این اے نیوز 17 مارچ 2025)اتر پردیش کے ضلع سنبھل میں انتظامیہ نے ایک بڑا فیصلہ لیتے ہوئے سید سالار مسعود غازی کے نام پر منعقد ہونے والے سالانہ میلے پر روک لگا دی ہے۔

 اس فیصلے کی اطلاع اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (اے ایس پی) شریش چندر نے دی، جنہوں نے میلے کی اجازت کے لیے دائر درخواست کو مسترد کر دیا۔ اے ایس پی نے کہا کہ "سید سالار مسعود غازی، جو سلطان محمود غزنوی کا بھتیجا تھا، ایک حملہ آور اور لٹیرا تھا۔ اس کے نام پر میلے کا انعقاد ملک کے خلاف روایات کو فروغ دینے کے مترادف ہے، جس کی اجازت نہیں دی جائے گی۔" اس فیصلے سے ضلع میں ایک تاریخی روایت پر بحث چھڑ گئی ہے۔

**میلے کی تاریخ اور دائرہ کار**  
سید سالار مسعود غازی کا میلہ، جسے "نِیزے کا میلہ" بھی کہا جاتا ہے، ہندوستان میں صدیوں سے منایا جاتا رہا ہے۔

 تاریخی روایات کے مطابق، یہ میلہ 11ویں صدی میں مسعود غازی کی شہادت کے بعد سے شروع ہوا، جو بہرائچ (اتر پردیش) میں 1034ء میں ہوئی تھی۔ اس کی ابتدا سے لے کر اب تک تقریباً 1000 سال سے زائد عرصے سے یہ روایت مختلف شکلوں میں جاری ہے۔ اگرچہ اس کا مرکزی اہتمام بہرائچ میں ہوتا ہے، لیکن سنبھل سمیت اتر پردیش کے کئی اضلاع اور دیگر صوبوں جیسے بہار، راجستھان، اور دہلی کے کچھ حصوں میں بھی اس کی بازگشت ملتی ہے۔ خاص طور پر اتر پردیش کے بہرائچ، سنبھل، بدایوں، جونپور اعظم گڑھ اور ایودھیا جیسے شہروں میں اسے مختلف ناموں سے منایا جاتا رہا ہے۔

**شرکت کرنے والے مذاہب**  
یہ میلہ بنیادی طور پر مسلم صوفی روایات سے جڑا ہے، لیکن اس میں شرکت کرنے والوں میں مذہبی تنوع دیکھنے کو ملتا ہے۔ مسلم عقیدت مندوں کے علاوہ، ہندو، سکھ، اور دیگر مذاہب کے لوگ بھی اس میں شریک ہوتے ہیں۔ بہرائچ میں واقع ان کی درگاہ پر ہر سال 14 رجب کو عرس کے موقع پر لاکھوں زائرین جمع ہوتے ہیں، جن میں ہندو برادری کے افراد بھی بڑی تعداد میں شامل ہوتے ہیں۔ 

تاریخی طور پر، اس میلے کو بین المذاہبی ہم آہنگی کی علامت سمجھا جاتا رہا ہے، جہاں نذرانے پیش کرنے اور دعائیں مانگنے کی روایت عام ہے۔ سنبھل میں بھی یہ میلہ "نِیزے کے میلے" کے نام سے مشہور تھا، جہاں مقامی مسلم کمیونٹی کے ساتھ ساتھ دیگر مذاہب کے لوگ بھی حصہ لیتے تھے۔

**تنازعہ اور ردعمل**  
اے ایس پی کے اس فیصلے کے بعد مقامی کمیونٹی میں ملا جلا ردعمل سامنے آیا ہے۔ کچھ لوگوں نے اسے تاریخی روایت پر حملہ قرار دیا، جبکہ کچھ نے انتظامیہ کے موقف کی حمایت کی۔ میلہ کمیٹی کے ارکان کا کہنا ہے کہ یہ صدیوں پرانی روایت ہے جو سماجی ہم آہنگی کو فروغ دیتی ہے، اور اس پر پابندی غیر منصفانہ ہے۔ دوسری طرف، انتظامیہ کا موقف ہے کہ ماضی میں  جارحیت کرنے والوں کے نام پر تقریبات منعقد کرنا مناسب نہیں۔

یہ فیصلہ سنبھل میں حالیہ دنوں میں مذہبی مقامات اور روایات سے متعلق بڑھتی ہوئی حساسیت کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس پابندی کے بعد مقامی سطح پر کیا ردعمل سامنے آتا ہے اور کیا یہ دیگر صوبوں میں اس میلے کے انعقاد کو بھی متاثر کرے گا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad