مولانا سید جعفر مسعود حسنی ندوی کی علمی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی: نعمان خان
جونپور یوپی (اجود قاسمی) عالمی شہرت یافتہ دینی درسگاہ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے ناظر عام مولانا سید جعفر مسعود حسنی ندوی کا بدھ کی دیر شام رائے بریلی ضلع میں ایک سڑک حادثہ میں زخمی ہونے کیوجہ سے انتقال ہوگیا جس کی وجہ سے عالم اسلام کو شدید صدمہ پہنچا ہے،
اس موقعہ پر جونپور میں ندوۃ العلماء کے سابق مہتمم مولانا ابوالعرفان خان ندوی کے صاحبزادے ڈاکٹر نعمان خان نے کہا کہ مولانا جعفر مسعود حسنی ندوی ایک نمایاں اسلامی اسکالر، محقق، اور مصنف تھے جنہوں نے اسلامی علوم اور ادب کے میدان میں نمایاں خدمات انجام دیں مولانا جعفر مسعود سے ہماری ذاتی و گھریلو مراسم تھے،وہ دوران تعلیم ہمارے والد سے علمی استفادہ کی غرض سے ہمارے گھر بھی تشریف لایا کرتے تھے، مولانا ندوی کی شخصیت ایک مربی کی تھی،
اور ان کی تقریریں اور تحریریں مسلمانوں کے اخلاقی و روحانی تربیت پر گہرا اثر ڈالتی تھیں،مولانا ندوی نے مختلف مکاتبِ فکر کے درمیان اتحاد اور ہم آہنگی پر زور دیا۔ وہ امت کے مختلف فرقوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے اور اختلافات کو کم کرنے کی بھرپور کوشش کرتے تھے مولانا ندوی کی علمی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی اور ان کا کام آئندہ نسلوں کے لیے مشعل راہ ثابت ہوگا۔
اس حادثہ نے مجھے سخت صدمہ اور ایک ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے اور میں نے آج اپنا ایک مشفق دوست اور ساتھی کھو دیا ہے اللہ سے دعا ہیکہ وہ مولانا کے درجات بلند فرمائے اور لواحقین کوصبر دے۔
وہیں اس موضوع پر قبا انٹرنیشنل اسکول کے مینیجر مولانا ابرار ندوی نے کہا کہ مولانا جعفر مسعود حسنی ندوی نے سیرتِ طیبہ پر گراں قدر خدمات انجام دیں۔ ان کی تحریروں میں نبی کریم ﷺ کی حیاتِ مبارکہ کے مختلف پہلوؤں کا جامع اور عمیق جائزہ پیش کیا گیا ہے،انہوں نے اسلامی تاریخ پر کئی پہلوؤں سے کام کیا، جس میں خلافتِ راشدہ، عباسی اور اموی دور کے سیاسی و سماجی حالات کا تجزیہ شامل ہے۔
ان کی تحقیق کا انداز مستند حوالہ جات اور معروضی انداز میں ہوتا تھا، جو ان کی علمی گہرائی کو ظاہر کرتا ہےامتِ مسلمہ کو درپیش چیلنجز اور ان کے حل پر روشنی ڈالتے تھے۔ خاص طور پر نوجوان نسل کی دینی تربیت اور اخلاقی استحکام پر ان کی خصوصی توجہ تھی۔مولانا کے انتقال سے ندوہ اور ابناء ندوہ کو ایک ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے۔
وہیں مولانا کی وفات کی خبر عام ہونے کے بعد جونپور میں ابناء ندوہ کی تنظیم دارالقرآن کے مکاتب و مدارس میں قرآن خوانی کا اہتمام کیا گیا،ابو العرفان پبلک لائبریری صبرحد میں تنظیم کے سکریٹری مفتی امتیاز ندوی قاسمی نے تعزیتی نشست کے دوران کہا کہ مولانا ندوی نے ایک نسل تیار کی جو ان کے علمی ورثے کو آگے بڑھا رہی ہے۔
ان کے شاگرد دنیا بھر میں مختلف علمی و تحقیقی میدانوں میں مصروف عمل ہیں،وہ اپنے شاگردوں کی فکری اور اخلاقی تربیت کو اپنی اولین ترجیح سمجھتے تھے،مولانا ندوی نے دارالعلوم ندوۃ العلماء میں کئی اہم پالیسی سے متعلق بڑے فیصلے کیے، جن سے ادارے کو علمی اور تنظیمی سطح پر استحکام ملا، وہ ندوہ کے نصاب میں جدید تقاضوں کے مطابق تبدیلیوں کے حامی تھے،
تاکہ علماء کی تربیت عصر حاضر کے چیلنجز کا سامنا کر سکے،ابھی کچھ روز پہلے ہی مولانا سے ایک پروگرام کے دوران ملاقات ہوئی تھی،اور مولانا کو جونپور آنے کی دعوت دی گئی تھی لیکن اللہ کو شاید کچھ اور ہی منظور تھا، مولانا کی وفات سے تحریک ندوہ کو ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے، مولانا جعفر مسعود حسنی ندوی کی علمی، اصلاحی، اور تحقیقی خدمات کا دائرہ بہت وسیع تھا ان کی زندگی اور کام امت مسلمہ کے لیے مشعلِ راہ ہے، اور ان کے کاموں کا مطالعہ ہمیں اپنے موجودہ چیلنجز کا سامنا کرنے کی قوت عطا کرتا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں