تازہ ترین

جمعہ، 14 اکتوبر، 2022

خواتین کا مسجد میں نماز ادا کرنا ۔۔ خلط مبحث کی بے جا کوشش ہے

خواتین کا مسجد میں نماز ادا کرنا ۔۔ خلط مبحث کی بے جا کوشش ہے

تحریر: مسعودجاوید


ان دنوں خواتین کے مسجد میں داخلے پر بلا وجہ کی بحث چھیڑ کر غیروں کو بالخصوص نفرت انگیز چینلز کو اسے موضوع بحث بنانے کی دعوت دینا ہے۔ 


اس کے جواز اور عدم جواز کی فقہی بحث سے قطع نظر عام لوگوں کو خواہ مخواہ یہ تاثر لینے کا موقع فراہم کیا جا رہا ہے کہ ہندوؤں کے مندروں بالخصوص جنوبی ہند کے مندروں کی طرح مسلمانوں کے مذہب میں بھی خواتین کا مسجدوں میں داخلہ پر پابندی ہے۔ جبکہ حقیقت سے اس کا دور کا بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔ 


دین اسلام میں خواتین کا مسجد میں داخلے پر قطعاً پابندی نہیں ہے سوائے مخصوص ایام کے۔ 
تاہم اختلاط مرد و زن کا چور دروازہ عہد نبوی علیہ الصلوٰۃ والسلام میں بھی بند کیا گیا تھا اور آج بھی بند ہے۔  جو لوگ عرب ممالک میں مقیم ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ وہاں کی مسجدوں میں مصلی النساء یعنی نماز ادا کرنے کے لئے خواتین کے لئے مخصوص جگہ ہوتی ہے جو عموماً مسجد کے ایک کنارے میں ہوتی ہے اس کا دروازہ بھی عام دروازے سے کافی ہٹ کر ہوتا ہے ، اسی کے مصلی النساء میں استنجا خانے اور وضو خانہ کے علاوہ شیر خوار اور چھوٹے بچوں کے لئے کھیلنے کی جگہ ہوتی ہے جہاں وہ بچےکو چھوڑ کر یکسوئی کے ساتھ نماز ادا کر سکیں۔ 



ان تمام سہولیات کے باوجود خواتین خانہ باجماعت نماز ادا کرنے کے لئے نہیں آتی ہیں ۔ نماز ادا کرنے کے لئے عموماً وہی خواتین آتی ہیں جو مسجد کے جوار میں بازار یا دفتر میں ہوں یا نماز کے اوقات میں مسجد کے پاس سے گزر رہے ہوں۔ جیسا کہ میرا اور مجھ جیسے بہت سے لوگوں کا معمول تھا کہ اگر جماعت کا وقت ہو گیا تو گاڑی پارک کر کے اہلیہ اور بچوں کو مصلی النساء (مسجد کا پارٹیشن کیا ہوا ایک تہائی حصہ) میں بھیجتا اور خود عام دروازے سے مسجد میں داخل ہو کر نماز با جماعت ادا کرتا اس کے بعد پارکنگ میں اہلیہ اور بچوں کا اپنی گاڑی میں انتظار کرتا تھا۔  یمن کے علاوہ کئی خلیجی ممالک میں عربوں کے ساتھ الحمدللہ اچھا وقت گزارا لیکن کہیں بھی عام عرب خواتین کو مردوں کی طرح باجماعت نماز ادا کرنے کے لئے مسجد کی طرف آتے ہوئے نہیں دیکھا ۔ 


مسجد میں مسلم خواتین کے داخلے کو ہندو خواتین کے مندر میں داخلہ پر قیاس کر کے مسلمانوں کو ڈرانے کی کوشش نہایت ہی مذموم ہے کہ اس سے پہلے کہ حکومت پابند کرے ،  ابھی سے آپ لوگ اپنی خواتین کو مسجدوں میں بھیجنا شروع کر دیں۔  یہ کون سی وجہ ہوئی! مسجد بھیجنے یا نہ بھیجنے ، جانے یا نہ جانے کے لئے مسلم خاتون آزاد ہے وہ اللہ کے واسطے جائے گی یا نہیں جائے گی تو اجر کی مستحق ہوگی لیکن حکومت کے ڈر سے ! ۔۔‌ نعوذ باللہ ۔


ایسا لگتا ہے کہ بعض لوگ لبرلز، متعصب میڈیا اور نام نہاد دانشوروں کے اس بیانیہ کو آگے بڑھانے کا کام کرتے ہیں کہ مسلم خواتین جبر کی شکار ہیں ان کے یہاں کے مرد انہیں بالجبر پردہ حجاب کراتے ہیں گھر کی چہار دیواری میں قید رکھتے ہیں ۔ کیا مسلم خواتین بلوغت کی عمر اور سن شعور کے باوجود اتنی بے بس ہوتی ہیں کہ اپنی مرضی کے لباس بھی زیب تن نہیں کر سکتیں ؟ وہ خواتین جو معاشی طور پر خودمختار ہیں ، وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والی طالبہ ، تجارت پیشہ یا ملازمت پیشہ خواتین ہیں اس کے باوجود ہمیشہ حجاب کے پابند ہیں ان پر کس کا جبر ہوتا ہے ؟ ظاہر ہے وہ حجاب استعمال نہیں کرنے کے لئے آزاد ہیں پھر بھی وہ گھر سے باہر ہمیشہ محجبہ ہوتی ہیں اور صوم و صلوٰۃ کی پابندی کے ساتھ محتشم لباس ڈیسنٹ ڈریس کوڈ ان کا شعار ہوتا ہے ۔ 


اسی طرح اگر ہندوستان کی مساجد میں خواتین کے لئے ایسا نظم ہو تو مضائقہ نہیں ہونا چاہیے مگر سارا اسلام خواتین کا مساجد میں نماز با جماعت ادا کرنے میں مضمر نہیں ہے۔ مساجد میں جمعہ کے علاوہ کسی دن تقریر نہیں ہوتی ہے تو خواتین کی دینی تربیت کس طرح ہو جائے گی! جمعہ کے روز بھی خطبے سے پہلے   عموماً زمین کے نیچے اور آسمان کے اوپر کی بات ہوتی ہے ۔ امام صاحب ظاہر ہے خطیب کا فریضہ ادا نہیں کریں گے۔ کم از کم جمعہ کے دن کے لئے ہر بڑی مسجد میں باصلاحیت خطیب کی تقرری ہونی چاہیے جو مسلمانوں کو درپیش مسائل پر دینی نقطہ نظر پیش کر سکیں ان کی تقاریر مسلم نوجوانوں کی تربیت میں معاون ہو ۔‌



 ان کے خطاب میں ایک طرف حقوق العباد، پڑوسیوں کے حقوق، صلہ رحمی اور اچھے اخلاق سے آراستہ ہونے کی ترغیب ہو اور دوسری طرف منشیات کے نقصانات، دھوکہ،  فریب، غصب ، جعلسازی ناپ تول میں کمی اور ناحق قتل و غارتگری کی ترہیب ہو۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad