تازہ ترین

منگل، 1 ستمبر، 2020

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے دباؤ میں آکر متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان دوطرفہ سیاسی سفارتی تعلقات کو بحال کرنے کا معاہدہ پوری مسلم دنیا کے ساتھ دغا کے مترادف ہے،یونس صدیقی

نئی دہلی ، (یو این اے 1ستمبر 2020) امریکہ کی ثالثی اور مداخلت سے متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے حالیہ معاہدے کی شدید مذمت کرتے ہوئے آل انڈیا تنظیم علماء حق کے قومی صدر اور مشہور عالم دین مولانا محمد اعجاز عرفی قاسمی اور آل انڈیا مسلم اتحاد فرنٹ کے چیرمین یونس صدیقی نے اپنے مشترکہ اخباری بیان میں کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے دباؤ میں آکر متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان دو طرفہ سیاسی اور سفارتی تعلقات کو بحال کرنے کا جو معاہدہ حال ہی میں کیاگیا ہے،

 وہ نہ صرف فلسطین کے ساتھ، بلکہ عرب ممالک اور پوری مسلم دنیا اور فرزندان توحید کے ساتھ دغا اور فریب کے مترادف ہے۔ انھوں نے کہا کہ ٹرمپ اور ان کی پارٹی نے عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان یہ معاہدہ اس مقصد کی برآوری کے لیے کرایا ہے، تاکہ اگلے صدارتی انتخابات میں اس کی فصل کاٹی جاسکے اورعرب و مسلم دنیا کی حمایت حاصل کرکے دوبارہ بر سر اقتدار آنے کی راہ ہموار کی جائے۔ دونوں ملی رہ نماؤوں نے کہا کہ متحدہ عرب امارات یا کسی بھی عربی یا مسلم ملک کو اسرائیل کے ساتھ سیاسی دوست کا آغاز کرنے یا دو طرفہ تعلقات بحال کرنے سے پہلے ناجائز یہودی ریاست اسرائیل پر یہ دباؤ بنانا چاہیے کہ وہ نہ صرف فلسطینیوں پر مظالم و مصائب کا سلسلہ فوری طور پر بند کردے، بلکہ مسجد اقصی کے ساتھ فلسطین کے ان مقبوضہ علاقوں کو بھی غیر مشروط طور پر خالی کردے، جہاں اس کی افوج نے بزور طاقت قبضہ کرلیا ہے اور فلسطینیوں کا جینا دوبھر کردیاہے۔

 اسرائیل کو چاہیے کہ وہ ان فلسطینی پناہ گزینوں، خانہ بدوشوں اور مہاجرین کی وطن واپسی کو بھی یقینی بنائے جو اسرائیلی افواج کے مظالم سے تنگ آکر بے وطن و بے گھر ہیں اور در در کی ٹھوکر کھانے پر مجبور ہیں۔ انھوں نے زور دے کر کہا کہ اسرائیل کو یہ عہد بھی کرنا چاہیے کہ وہ فلسطینی علاقوں میں حقوق انسانی کی بحالی پر توجہ دے گا ااور اپنی افواج کو حکم دے گا کہ وہ مستقبل میں فلسطینیوں پر مشق ستم کرنا بند کردے۔

مولانا قاسمی نے عرب ممالک اور پوری انسانی برادری اور اقوام متحدہ سے بھی یہ اپیل کی کہ اسرائیل کے وسیع پسندانہ عزائم پوری طرح آشکار ہوچکے ہیں، جس کا سد باب کرنا ضروری ہے۔اسرائیلی حکومت فلسطینی عوام کے حقوق، ان کی آزادی،ان کے حق خود ارادیت اور ان کی خود مختاری کے اصول کابھی دل سے احترام کرے۔

 انھوں نے کہا کہ عرب ممالک یا کسی بھی مسلم کو اسرائیل کے ساتھ دو طرفہ سیاسی، ثقافتی یا سفارتی تعلقات بحال کرنے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانکتے ہوئے سوچنا چاہیے کہ وہ عالمی طاقتوں کے دم پر،قلب فلسطین میں ناجائز طوبر پر آباد کی گئی ریاست کے ساتھ کیوں کر کوئی معاہدہ کرنے جارہے ہیں، انھیں نہ صرف اسرائیل کو بلا شرط مقبوصہ علاقوں سے انخلا پر مجبور کرنا چاہیے بلکہ فلسطین اور فلسطینیوں کی بلا شرط و جواز حمایت کا مشترکہ اور متحدہ طور اعلان بھی کرنا چاہیے۔ تاکہ فلسطین میں انسانی حقوق کی بحالی راہ ہموار ہو اور وہاں ۰۷ برسوں سے جاری خوں ریزی پر قدغن لگ سکے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad