تازہ ترین

منگل، 21 جولائی، 2020

جالنہ شہر کے مشہور شاعر شمس جالنوی کا انتقال اردو ادب کا بے لوث خادم رخصت ہوا

بذریعہ۔ذوالقرنین احمد

*مستقل تعارفی سیریز
       
                   *بعنوان*
        *٭روـن چراغ٭*
      *﴿میرا شہر،میرے لوگ﴾*

✍🏻تحریروپیشکش۔۔۔
*عامرفہیم راہیؔ*
*8329953822*

آج کے خصوصی مہمان 
 فخرِمہاراشٹر کہنہ مشق استاد شاعر حضرتِ
*شمس جالنوی صاحب*
 معززقارئین۔۔!
شہرجالنہ میں عوام کی صبح نو کو گردشِ شب و روز سے مربوط کرنے کے بارے میں جب بھی ذکر چھڑتا ہے تو یکلخت عوام کے ذہنوں میں ایک تصویر نمایاں ہوتی ہے ایک متلاشی چہرہ جسکی آنکھیں نہ جانے کس چیز کی تلاش میں سرگرداں رہتی ہیں،گردش ایام کے لیل و نہار میں قدم اندر قدم گزرتے وقت کیساتھ بھرپور اعتماد،عمر کے کئی ادوار کو سہہ لینے کے بعد بھی پراعتماد لہجہ،شعری تخلیق کے روپ میں کبھی نہ تھکنے والا قلم کا سپاہی،زندہ و روشن ضمیری کیساتھ شاعری کا رسیا،تخلیقی کلام میں ندرت، ہمہ رنگ سونچ کا کینواس،اور جب کلام سنائے تو نوجوانوں کی صدا پر بھاری،  قاری و سامعین کی سماعتوں میں حرف و لفظ کی موسیقی سے فضا کو معطر کردینا اور ادب کے لئے زرخیز قلم کے دھنی ساتھ ہی دنیا کو صبح سویرے کوائف زمانہ سے متعارف کرانے والی واحد شخصیت جسے لوگ شمس جالنوی کے نام سے جانتے ہیں وہ شاعر جس نے ہر مرحلہ کو مقدر کا حصہ جانا تلخ حقائق سے سمجھوتہ کیا جو خوشی کے نام سے مانوس تو ہوا پر محظوظ نہ ہوسکا۔۔۔(ماخوذ)؂
مقدرات ہیں یاروں،گلہ کسی سے نہیں!
خوشی کے نام سے واقف ہوں میں،خوشی سے نہیں!
جناب شمس جالنوی کا مکمل نام محمد شمس الدین ابن محمد فاضل انصاری(پہلوان) ہے۔آپ کی پیدائش قدیم جالنہ کے علاقہ بروار گلی میں انصاری جولاہا خاندان میں سن ۱۹۲۶ء کو ہوئی۔والد مرحوم پیشہ سے وقف املاک نظام شاہی میں دفعدار کی حیثیت سے ملازم تھے۔تاہم پہلوانی آپ کا خاندانی مشغلہ رہا پہلوانی میں مہارت کی وجہ سے فاضل پہلوان کے نام سے مشہور و معروف تھے۔

موصوف نے بنیادی تعلیم مدرسہ تحتانیہ و فوقانیہ قدیم جالنہ سے مکمل کی منشی(میٹرک) کا امتحان پاس کیا۔والد مرحوم کثیرالعیال تھے محدود زریعۂ آمدنی میں جملہ اخراجات کی تکمیل کیساتھ اولاد کی اعلی تعلیم کا انتظام ایک مستقل مسئلہ تھا معاشی تنگدستی کے باوجود والد مرحوم نے اولاد کی بہتر تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا۔چنانچہ آپ نے سن۱۹۴۶ء میں لاہور کے ایک کالج سے فارسی میں فاضل(ایم اے) کا امتحان پاس کیا۔اس کے ایک ہی سال بعد تاریخ ہند کا سب سے بدترین دور یعنی تقسیم ہند کا مرحلہ پیش آیا۔سن شعور کی عمر میں موصوف نے سقوط حیدرآباد کے اندوہناک،دلخراش مناظر کو اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھا۔۔۔سقوط حیدرآباد کے دلدوز سانحہ نے خوف و دہشت مایوسی اور ناامیدی کی نفسیاتی کیفیات کو جنم دیا۔۔۔معاشی بدحالی،تنگدستی،غربت اور فاقہ کشی نے ہر طرف سے مضبوط حصار کھڑا کردیا۔بدترین اقتصادی بحران نے معیشت کی کمر توڑ کر رکھدی حالات سازگار ہونے پر معاشی مسائل کی یکسوئی کے لئے بیڑی کے کارخانے میں ملازمت اختیار کرلی۔ملازمت میں نمایاں کارکردگی کو دیکھتے ہوئے ضلع بیڑ میں کارخانے کی نئی شاخ کا منیجر بناکر تبادلہ کردیا گیا۔جہاں موصوف نے تقریبا ۲۵ سال ملازمت کیں۔
 پولس ایکشن کے واقعات اور غیر یقینی معاشی صورتحال نے نوعمری میں اپنے مافی الضمیر کو شعر کے قالب میں ڈھال کر پیش کرنے کا ہنر سکھلادیا۔۔پولس ایکشن سے پہلے پہلوانی موصوف کا محبوب مشغلہ تھا کئی کئی گھنٹے اکھاڑے میں مشق کرتے گزرجاتے،حالات نے رخ بدلا پہلوان کے اندر کا شاعر متعارف ہوا کُشتی کے اکھاڑوں میں زور آزمانے والا پہلوان شعر و ادب کے ریگزاروں میں مشق ستم کرنے لگا۔وہ دور ادب شناسی و ادب نوازی کا دور تھا لوگ اہل سخن بھی تھے سخن فہمی کا شعور بھی رکھتے تھے۔(اللہ تعالی نے موصوف کو بلا کی ذہانت اور قوی حافظہ عطا فرمایا ہے۔اُس وقت کا تذکرہ کرتے ہوئے ان حالات میں لکھے ہوئے اشعار سنادیئے۔)
سن ۴۸ء میں لکھے ہوئے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں؂
*ضبط کا دامن بوقت امتحاں چھوڑے نہیں!*
*گلستاں جلتا رہا پر آشیاں چھوڑے نہیں!*
*گو روش ہم نے بدل دی اس جہاں کے ساتھ ساتھ!*
*پر کبھی بھولے سے یاد رفتگاں چھوڑے نہیں!*
*شمسؔ ہم بھی وقت کے سانچے میں ڈھلتے،ڈھل گئے!*
*زندگی کے رات دن کاٹے جہاں چھوڑے نہیں!*

موصوف نے شاعری میں ابتدا" اپنے بڑے بھائی اور کہنہ مشق شاعر استاد عبدالکریم آصفؔ اور بشیرالدین شاکرؔ جالنوی کے روبرؤ زانوے تلمذ تہ کیا۔بعدازاں استادالشعراء حضرت ناطقؔ گلاؤٹھی(ناگپور) سے اصلاح لیتے رہے۔
حضرتِ شمس کی شاعری میں قدیم روایات،حقیقت پسندی، زندگی کی تلخیاں،حوادث زمانہ سے مباحث،اظہار یکجہتی، سماجی بگاڑ پر نقد،معاشرتی اقدار کی تعمیر و تشکیل کی کامیاب کوششیں نمایاں نظر آتی ہیں۔اپنے درد و کرب،حالات سے برانگیختگی،جرات و خودداری کے جذبات و احساسات کو بےباک و بےلاگ انداز میں منتقل کرنے کے لئے شاعری کا زبردست استعمال کیا ہے۔چنانچہ حالیہ بابری مسجد فیصلہ پر آپ یوں رقمطراز ہوئے کہ ؂
*منصفِ وقت نے انصاف کا نیلام کیا!*
*اپنے آئین کو دستور کو بدنام کیا!*
*قتل سچائی کا دانستہ کیا ہے تونے!*
*جھوٹ کی تونے ہی بنیاد رکھی عام کیا!*
*باشعور ہوکے بھی ظالم سے وفاداری کی!*
*جو یزیدوں سے نہیں ہوسکا وہ کام کیا!*
*تو نے قدرت کے اصولوں سے بغاوت کی ہے!*
*تونے بھی مردہ ضمیروں کی طرح کام کیا!*
        موصوف نے اپنی شاعری میں فقط حالات اور مسائل پر سینہ کوبی نہیں کی بلکہ بہترین متبادل حل کے طرف رہنمائی کا حق بھی بخیر و خوبی انجام دیا ہے۔شمس صاحب حالات پر گہری نظر رکھتے ہیں اور ذاتی محسوسات میں کہی شدت ہے تو کہی حدت۔سنجیدگی بھی ہے اور بردباری بھی،اظہار کی چبھن بھی ہے تو کسک بھی،جو سننے میں محسوس ہوتی ہیں اور پڑھنے میں بھی، یہ عزم حوصلہ آگہی اور ولولہ انگیزی امید اور دلاسہ ان اشعار میں ملاحظہ فرمائیں؂
*ہم نشیں وقت کے سانچے میں اب ڈھلنا ہوگا!*
*شمع بننا ہے تو ہر رنگ میں جلنا ہوگا!*
*وقت کہتا ہے نکل آئیے ایوانوں سے!*
*عزم زندہ ہے تو ٹکرائیے طوفانوں سے!*

 ؂ *نفرتوں کا کرم ڈھانا اب ضروری ہوگیا!*
*زہر کو امرت بنانا اب ضروری ہوگیا!*
*شمس جو دار و رسن کو چومنے بیتاب ہیں!*
*حوصلے ان کے بڑھانا اب ضروری ہوگیا!*

؂ *وقت نے پھر تیور بدلے ہیں،صبر کے پیکر ہوش میں آ*
*پھول تھے کل تک جن ہاتھوں میں،آج ہے پتھر ہوش میں آ!*

؂ *اس شبِ غم کی سحر ہوگی یقینا ہوگی*
*شب کے ماتھے پہ بھی خندہ ہے اجالے کتنے!*
 موصوف نے اپنے تخلص کو ذومعنی مفہوم دے کر تعلی و تصنع کی شاعرانہ روایتوں کو خوب نبھایا ہے جو سننے اور پڑھنے میں بڑا مزہ دیتے ہیں۔

؂ *نشۂ تیرگی ہوا کافور!*
*شمس نے شکل جب دکھائی ہے!*

؂ *شمسؔ کا نام لب پہ آتے ہی*
*شب کی رنگت اڑی اڑی سی ہے!*
؂ *نظر میں شمؔس کے سب برابر ہیں*
*ضیاء اپنی وہ ہر دم بانٹتا ہے!*

۔موصوف کی شاعری پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہیں یہاں ہمارا مقصد شاعری پر تبصرہ یا فنی مفاہیم و محاسن پر نقب یا نقد جرح و تعدیل کرنا ہرگز نہیں ہے بلکہ نوجوان نسل کو ان روشن چراغوں کی شخصیت کے مختلف پہلؤو سے متعارف کروانا ہے۔موصوف گذشتہ پون صدی سے اردو ادب کی الجھی ہوئی گیسؤوں کو خاموشی کیساتھ سلجھانے اور سنوارنے میں مصروف ہیں۔بقول حفیظ جالندھریؔ ؂
تشکیل و تکمیلِ فن میں جو بھی حفیظ کا حصہ ہے!
نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں!
محترم قارئین! حضرت شمس جالنوی بلامبالغہ جالنہ شہر کی وہ شخصیت ہے جس نے اپنے کلام کی ندرت،خیال و فکر کی ہمہ جہتی،شخصیت کی سادگی، منفرد انداز و اسلوب،مخصوص خوبصورت لب و لہجہ کی حلاوت،حرارت اور سحرانگیزی سے نا صرف ملک ہندوستان میں اپنا نام روشن کیا بلکہ ملک کے باہر بھی اپنی منفرد شناخت کیساتھ خود کو اور اپنے شہر کو متعارف کروایا۔آپ کو دو مرتبہ جدہ اور دبئی میں منعقد ہونے والے عالمی مشاعروں میں مدعو کیا گیا ناگفتہ بہ حالات کے پیش نظر شرکت کا موقع نہ مل سکا۔سرکار کی طرف سے قومی سطح پر لال قلعہ میں منعقد ہونے والے مشاعروں میں ملک کے سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کی موجودگی میں ملک کے نامور شعراء کے درمیان دو مرتبہ کلام سنانے کا اعزاز حاصل ہوا۔ملک کی بیشتر ریاستوں میں منعقد ہونے والے سینکڑوں آل انڈیا مشاعروں میں وقت کے نامور شعراء کے درمیان اپنا کلام سنانے اور اپنے شہر کی نمائندگی کرنے کا بھرپور حق موصوف نے ادا کیا۔آپ نے جن مایہ ناز شعراء سے داد و تحسین حاصل کی ان میں حفیظ میرٹھی،عزیزبگھروی،شکیل بدایونی،ساحرلدھیانوی،مجروح سلطان پوری،میر الہ آبادی،منشاءالرحمن منشاء،بشیربدر،ندا فاضلی سمیت ملک کے بیشتر حاضر و غائب نامور شعراء کے نام شامل ہیں۔موصوف کا پہلا مجموعہ کلام "تمازت" سن ۹۱ء میں شائع ہوا تھا (ابھی بے شمار غزلیں اور نظمیں بکھری پڑی ہیں جن کو یکجا کرنے سے ایک ضخیم کتاب کا بیش قیمت اضافہ اردو ادب میں ہوسکتا ہے تاہم وسائل کی کمی دامن گیر ہے) تمازت جس کا ہندی ایڈیشن برادران وطن کے شدید اصرار پر بزمِ انوار شمس جالنہ کی جانب سے شائع کیا گیا۔جس سے آپ کی برادران وطن میں غیرمعمولی مقبولیت اور پسندیدگی کا اندازہ ہوتا ہے۔موصوف کی بیشتر نظمیں اور غزلیں سامعین کو ازبر ہوتی ہیں جس کا اندازہ کلام سناتے وقت سامعین کی جانب سے مصرعہ پڑھ کر فرمائش کرنے پر ہوتا ہے۔طوالت کے پیش نظر اشعار کو شامل تحریر کرنا ممکن نہیں ہے تاہم اخبارات رسائل و جرائد میں کثرت سے موصوف کی نظمیں،غزلیں شائع ہوتی ہیں ذوق طبع کی تسکین کے لئے قارئین  تلاش کر پڑھ سکتے ہیں۔
موصوف کو ادبی خدمات کے پیش نظر ریاستی و مرکزی حکومتوں کی جانب سے مختلف اعزاز و ایوارڈ سے بھی نوازا جاچکا ہے۔متعدد علمی ادبی تحریکی و سماجی تنظمیوں اور اداروں کی جانب سے بےشمار اعزاز ایوارڈ توصیفی اسناد اور تیشۂ زر سے بھی نوازا جاچکا ہے۔مزاج میں سختی لاابالی پن احساسِ برتری بےاعتنائی اور بےنیازی نے موصوف کو منفرد شخصیت کا حامل بنادیا ہے۔آج بھی ۹۶برس کی عمر میں شدید نقاہت و کمزوری پیرانہ سالی و ضعیفی کے عالم میں موصوف شہرعزیز کی سڑکوں گلی محلوں سے لیکر گھر گھر تک اخبار پہنچا کر گویا سوئی ہوئی قوم کو کوائف زمانہ سے متعارف کروانے اور جھنجھوڑنے کا حق ادا کررہے ہیں۔
بقول موصوف "اپنی صحت مندی اور توانائی کا راز بھی یہی ہے کہ آج گذشتہ ۴۵ برسوں سے موسم کی پرواہ کئے بغیر میں سائیکل پر پورے شہر میں اخبارات تقسیم کررہا ہوں اگر میں بیٹھ گیا تو ہمیشہ کے لئے بیٹھ جاؤں گا۔یہی میری حرارت و حیات آفرینی کا ذریعہ ہے اسی مشغلہ میں مجھے شعر وارد ہوتے ہیں مجھے چلنا ہے مجھے چلنے دو جب تک میں چل سکوں۔۔۔"
شمس جالنوی کا وجودِمسعود اہل جالنہ کے لئے تہذیب و ادب کے حوالے سے عظمتِ رفتہ کے عظیم ورثہ کے مماثل ہیں۔! *مجھے راستے کے پیچ و خم، نہ ڈرا سکے نہ رکا سکے!*
*یہ نظامِ دہر بدل گیا،میں جہاں جہاں سے گزر گیا!*
*مجھے پوچھتے ہیں وہ اس طرح،میرا نام لیکے وہ غیر سے!*
*سرِ شام کیا وہی شمسؔ تھا،جو ابھی یہاں سے گزر گیا!*

اللہ رب العزت محترم شمس جالنوی صاحب کا سایہ ہمارے سروں پر تا دیر قائم و دائم رکھے صحت عافیت عطا فرمائے۔انکی مخلصانہ کاوشوں کو شرف قبولیت عطا فرمائے اور آخرت میں نجات کا ذریعہ بنائے۔غلطیوں،کوتاہیوں کو معاف فرمائے،سئیات کو حسنات سے مبدل فرمائے۔آمین یا رب العالمین

(نوٹ-----محترم قارئین ظاہر ہے کہ چند سطور میں تمام ہی کار ہائے زندگی کو مقید نہیں کیا جاسکتاہے،مضمون کی طوالت کے پیش نظر اختصار سے کام لیاگیاہے)

تحریروپیشکش۔۔۔عامرفہیم راہیؔ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad