قسیم اظہر
بارش قدرت کا ایک بیش بہا خزانہ ہے، ایک انمول تحفہ ہے،بارش کے گرنے والے قطروں کی آواز اور شور، میرے لیےشور نہیں، ایک نغمہ ہے! ایک ایسا نغمہ جو دل کے تار کوچھوتی جسم کی ہڈیوں میں سرایت کر جاتی ہے۔
میں چاہتاہوں کہ یہ قدرت کا خزانہ یوں ہی پیاسی زمین کی پیاس کو بجھاتارہے،میں چاہتاہوں کہ معصرات سے نازل ہونے والا ماء ثجاج یوں ہی زمین کے ذرات کو بیدار کرتارہے،میں چاہتاہوں کہ یہ بارش یوں ہی اپنی دریادلی کا ثبوت دیتی ہماری جھولی کو بھرتی رہے،یہ بارش یوں ہی پھولوں میں شگفتگی اور شگوفوں کے لئے جاں آفریں بنتی رہے،یوں ہی غنچوں اورکلیوں کی روحوں کی دلآویزی کرتی رہے،یوں ہی درختوں اور باغوں کی سینچائی اور بیل بوٹے کی پرورش و پرداخت کرتی رہے۔
مجھے اچھا لگتا ہے جب وہ اپنی خنک ہواؤں کی جھونکوں سے ماتھے پہ پڑے پسینوں کو رفو چکر کردیتی ہے،مجھے اچھا لگتاہے جب اس کی گھٹاؤں کالشکر سورج کی بہادری کو مات دے دیتاہے،مجھے اچھا لگتا ہے جب وہ آگ اگل رہی زمین اور آتش فشاں پہاڑ کو سردکرنے اور ہم سے گرمی کی شدت کو دور کرنے کا باعث بن جاتی ہے،مجھے اچھا لگتاہے جب وہ مرجھارہی گلشن کی گل افشانی اور صندل وگلاب کی مہک سے گھر کے دریچوں کو معطر کردیتی ہے۔
جب ہم لوگ اسکول میں تشنگان علوم سے وابستہ تھے،کلاس ختم ہونے کے بعد حسب معمول باہر نکلتے تو بارش کی وجہ سے کچی سڑکوں میں پیدا ہونے والی سوندھی سوندھی مٹی کی مہک ہمارے جی کو متیانے لگتی اور خواہش پیدا ہوتی کہ کاش یہ مٹی بھی ہمارے روزمرہ کے دسترخوان کی نعمتوں میں شامل ہوتی! جب ہماری نظر اوپر نیل گوں آسمان کی طرف اٹھتی تو چکراتے سیاہ بادلوں کے مرغولے پہرہ داری کرتے دیکھائی دیتے اور میں سوچتا کہ آسمان کو اس کالے بادل نے دکھ پہنچایا ہے، اسے تکلیف دیا ہے، اسی لیے تو وہ رورہاہے۔
یعنی میں بارش کو ایک آنسو خیال کرتا، پھر میری معصوم زبان اشک بہارہے فلک سے محو گفتگو ہوتی۔
چپ ہو جاؤ آسمان!
چپ ہو جاؤ!
اور میں چیختا!
"ان کالے بادلوں کی میں اللہ سے شکایت کرتا ہوں وہ اسے ضرور سزا دے گا۔
میری بڑی بہن مجھے سمجھاتی_بابو! یہ بارش ہے جسے عوام برکھا کے نام سے یاد کرتی ہے_مثالیں دے دےکرحقیقت سے وہ آشنائی کراتی_لیکن میں سختی سے اپنی آپی کے ہر ایک جملے کاجواب لوٹادیتا__
شاید یہ جذبۂ ربوبیت کا اثرتھا۔
پھر جب آگے بڑھتے تو کاغذ کی کشتیاں سڑکوں پر جمع پانی کی سطح پہ تیرتی نظرآتیں، لیکن اس کی حالت بھی بادبانی کشتیاں جیسی ہوتیں، ہوائیں اگر مخالف سمت ہوتیں تو وہ اس کے رخ کو موڑدیتیں، اور کبھی تو تقاطر امطار کے چھرے ہی اسے لے ڈوبتیں۔
میں اپنی آپی کی ڈر سے کشتی چلانا تو دور، بنانے کی بھی نہیں سوچتا، شیطان کالشکر بے صبری سے میرا انتظار کررہے ہوتے، میں حیلے سازی کے ذریعے نودو دوگیارہ ہوجاتا اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس بھیگے بھیگے موسم برسات میں گل چھرے اڑاتا، باغیچے کے پھلوں سے لطف اندوز ہوتا۔
جب دھوپ نکل آتی تو گھر کی راہ لیتا، امی جان پہلے ہی سے میری گوشمالی کا کردار نبھانے کے لیے دروازے پہ کھڑی رہتیں، مگر آپی کسی بھی طرح مجھے بچالیتیں۔
یہی میری بچپن کی بھیگی بھیگی یادیں ہیں، جو آج تک ذہن پہ نقش کالحجرہیں۔
اور یہ بارش مجھے میرے بے وفا محبوب، میری آپی کے دیےزخم کو ہرا کردیتی ہے، جس کے بنائی گئی چائے کی خوشبو آج بھی محسوس ہوتی ہے، جو اپنے گھر کو خیر آباد کہہ کر سسرال کو آباد کرگئیں، آج ان بارشوں کی ہچکیاں میرے گوشۂ جگر پہ حملہ آور ہیں، وہ یادوں کے خنجر میرے کلیجے میں چبھنے کے لئے بے قرار ہیں۔
برسات میں بھی یاد نہ جب ان کو ہم آئے
پھر کون سے موسم سے کوئی آس لگائے
پروین شاکر

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں