محمد سالم سَرَیَّانوی
سال رواں عید الفطر کے تہوار لاک ڈاؤن کی نذر ہوگیا، کہیں آنے جانے کی نوبت نہیں آئی، جب ’’لاک ڈاؤن، اَن لاک‘‘ شروع ہوا تو ارادہ بنا کہ کسی تاریخی وعلمی مقام کی زیارت کی جائے، تاکہ ایام تعطیل کا کچھ فائدہ مل جائے، اسی ضمن میں احباب کے درمیان مشورہ ہوا اور مصلح الامت مولانا شاہ وصی اللہ صاحب فتح پوری ثم الٰہ آبادی رحمۃ اللہ علیہ کے آبائی وطن ’’فتح پور تال نرجا‘‘ جانے کا پروگرام طے ہوگیا، جہاں مولانا کی جائے پیدائش ہے، اور آپ کی پہلی خانقاہ اور مسجد ہے، ہمارا یہ سفر فتح پور کے ساتھ حمید پور، گھوسی، کوپاگنج اور مئو جیسے مختلف مقامات کا بھی رہا، جہاں مختلف بزرگوں،احباب اور عزیزوں سے بیش قیمت ملاقاتیں رہیں، اسی سفر میں محدث جلیل مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمی ؒ کے یہاں بھی ان کی باقیات سے شرف یاب ہونے کا پروگرام بنا تھا، لیکن وہاں پہنچنے میں تاخیر ہوگئی، اس لیے اس پروگرام کو آگے کے لیے مؤخر کردیا گیا، اگر توفیق خداوندی شامل حال رہی تو ان شاء اللہ ضرور شرف یاب ہوں گے۔
ہمارا قافلہ حسب پروگرام 16/ شوال 1441ھ مطابق 9 / جون 2020ء منگل کی صبح کو چھ بجے کے بعد بائک کے ذریعہ روانہ ہوا، قافلے میں بندہ کے ساتھ مولانا ابو الجیش صاحب قاسمی، استاذ جامعہ فیض عام دیوگاؤں اعظم گڑھ، مولانا محمد یوسف صاحب قاسمی ندوی، استاذ دار العلوم تحفیظ القرآن سکٹھی مبارک پور اعظم گڑھ اور مولانا ومفتی مرغوب الرحمن صاحب قاسمی، استاذ مدرسہ عربیہ انوار العلوم جہاناگنج اعظم گڑھ شریک تھے، فتح پور جانے سے قبل وہاں سے متصل مشہور گاؤں ’’حمید پور‘‘ جانا طے تھا، پروگرام کے مطابق ایک گھنٹے میں وہاں پہنچ گئے، وہاں مولانا محمد عاصم صاحب حلیمی کے یہاں مہمان ہوئے، قدرے طویل ملاقات رہی، وہیں پر مولانا مفتی محمد ثاقب صاحب مظاہری اور دوسرے احباب سے ملاقات رہی، ’’حمید پور‘‘ سے ان دونوں حضرات کے ساتھ ’’فتح پور تال نرجا‘‘ کے لیے روانہ ہوئے، جو کہ وہاں سے قریب تین کلو میٹر کے فاصلے سے واقع ہے، حمید پور سے نکلتے وقت وہاں کے ادارے مدرسہ اشرف العلوم میں بھی چند منٹ حاضری ہوئی، اس سے پہلے بھی وہاں حاضری ہوچکی ہے۔
چند منٹ میں ہمارا قافلہ عجیب وغریب امنگوں اور احساسات کے ساتھ ایک ایسے گاؤں میں وارد ہوا جس نے ملت اسلامیہ کی اصلاح وفلاح، زہد وتقوی کی آبیاری، دین کی نشر واشاعت اور بدعات وخرافات کے مٹانے کے لیے ایک عظیم المثال وعدیم النظیر شخصیت کو جنم دیا، جس کو دنیا ’’مصلح الامت‘‘ کے نام سے جانتی ہے، آپ کی ذات بابرکت پر ہمیں جتنا بھی ناز اور فخر ہو کم ہے۔اب ہمارا قافلہ حضرت کے آبائی وطن میں داخل ہورہا تھا، مختلف خیالات واحساسات دل میں ہچکولے لے رہے تھے، حضرت کی زندگی کے مختلف پہلو ذہن ودماغ میں گردش کررہے تھے، حمید پور سے ہوتے ہوئے جنوبی راستے سے ہم لوگ ’’فتح پور‘‘ میں داخل ہوئے، جہاں لب سڑک ایک وسیع مدرسہ بنام ’’انوار العلوم‘‘ قائم ہے، اسی سے متصل مدرسہ کی مسجد ’’مسجد النور‘‘ کے نام سے موجود ہے، ہمارا ارادہ چند منٹ مدرسہ ومسجد میں حاضری کا تھا، لیکن لاک ڈاؤن کے چلتے دونوں بند تھے، ہمارے کرم فرما ورفیق مولانا لطیف الرحمن صاحب قاسمی سے بات ہوئی تھی، جو کہ اسی مدرسہ میں مدرس ہیں، لیکن وہ اس وقت گھر تھے، اور مدرسہ میں چوں کہ اس وقت کوئی نہیں تھا اس لیے ہم لوگ آگے بڑھ گئے، اور سیدھے اپنے میزبان جناب ماسٹر برجیس قدر صاحب کے یہاں وارد ہوئے، جن سے پہلے ہی بات ہوچکی تھی، ماسٹر صاحب حمید پور کے مدرسہ اشرف العلوم میں مدرس ہیں، بڑے خوش مزاج اوربا اخلاق آدمی ہیں، سلام مصافحہ ہوا، اس کے بعد ضیافت سے فارغ ہوئے، وہیں پر ایک کرم فرما محترم مولانا خبیب صاحب ندوی سے بھی ملاقات ہوئی، جو اس وقت جامعہ ہمدرد سے بی یو ایم ایس کررہے ہیں، غالبا تکمیل کا وقت ہے، ان سے میری پہلی ملاقات تھی، وہ آخر تک فتح پور میں ہمارے ساتھ رہے، اور انھوں نے حضرت مصلح الامت کی خانقاہ، مسجد، مدرسہ اور گھر کی زیارت کرائی ، چناں چہ ہم لوگ جلد ہی حضرت کی باقیات دیکھنے کے لیے نکل پڑے، باقیات کے تذکرے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ’’فتح پور‘‘ کے جائے وقوع کا کچھ تذکرہ کردیا جائے، اس سلسلہ کی کچھ معلومات زبانی ہیں اور کچھ مولانا اعجاز احمد صاحب اعظمیؒ کی تصنیف ’’حیات مصلح الامت‘‘ سے ماخوذ ہیں۔
فتح پور ’’فتح پور تال نرجا‘‘ کے نام سے مشہور ہے، یہ ایک گاؤں ہے، جو کہ دنیاوی سہولتوں سے ایک طرح محروم ہے، اس لیے کہ یہ کسی کشادہ اور بڑی سڑک پر واقع نہیں ہے؛ بل کہ اندر ہے، البتہ اس کے چوحدی میں ضرور کچھ ایسے علاقے ہیں جو کافی بڑے ہیں اور مختلف ترقیات لیے ہوئے ہیں، فتح پور کے جنوب میں بالکل متصل ایک وسیع وعریض تالاب واقع ہے، جس کو ’’نرجا تال‘‘ کہا جاتا ہے، ’’تال‘‘ ’’تالاب‘‘ کا مخفف ہے، ہمارے یہاں بالعموم تالاب کو ’’تال‘‘ ہی کہا جاتا ہے، یہ نرجا تال کافی لمبا چوڑا ہے، سیلاب کے زمانے میں وہ کسی بڑی ندی سے کم معلوم نہیں ہوتا، غالباً اس پورے علاقے میں اس سے بڑا اور کشادہ کوئی تالاب نہیں ہے، اسی تالاب کے نام کے ساتھ گاؤں کو ’’فتح پور تال نرجا‘‘ کہا جاتا ہے، اسی تالاب سے متصل حضرت کی خانقاہ اور مسجد وغیرہ ہے۔ اس تالاب کے دوسرے سرے پر مشہور بستی پورہ معروف ہے، جو کہ علم وفضل میں مشہور ہے اور اپنے اندر مختلف وعلماء وفضلاء کو دفن کیے ہوئے ہے۔
’’فتح پور‘‘ سے مغرب کی جانب ’’حمید پور‘‘ ہے، جہاں ہم اولاً ٹھہرے تھے، یہ لگ بھگ تین کلو میٹر پر واقع ہے، اس سے آگے قریب ڈیڑھ کلو میٹر پر کوئریا پار ہے، شمال اور مغرب کی طرف تقریبا پانچ کلو میٹر کی مسافت پر ندوہ سرائے واقع ہے، جہاں سے ہوکر ہم فتح پور پہنچے تھے، فتح پور سے شمال میں چار کلو میٹر کے فاصلے پر ’’کاری ساتھ‘‘ نامی گاؤں ہے، جہاں کے حضرت کے خویش اور جانشین مولانا قاری محمد مبین صاحب تھے، نیز یہی حضرت کے دوسرے دامادوں کا بھی وطن ہے، کاری ساتھ سے آگے شمال مشرق کی طرف قصبہ گھوسی ہے، جو کہ مئو ضلع کی ایک بڑی تحصیل ہے اور نہایت قدیم ومرکزی علاقہ ہے، اس کی قدامت کے کئی واقعات مشہور بھی ہیں۔ فتح پور کے مشرق میں چند چھوٹی بستیاں ہیں، اور تقریبا سات آٹھ کلو میٹر کے فاصلے پر قصبہ کوپا گنج واقع ہے، جو کہ علماء وفضلاء کا مسکن ہے، دینی علوم کی خوب چہل پہل ہے، مختلف مدارس قائم ہیں، تعلیم نسواں کے بھی کئی ادارے ہیں۔
فتح پور میں اِس وقت دو دینی تعلیم کے ادارے ہیں، ایک تو مدرسہ وصیۃ العلوم ہے، جو پرانا مدرسہ ہے اور گاؤں کے اندر حضرت کی خانقاہ سے متصل ہے، کافی کشادہ ہے، پہلے عربی وفارسی کی تعلیم ہوتی تھی، اب غالباً صرف پرائمری درجات تک تعلیم ہوتی ہے، دوسرا ادارہ مدرسہ انوار العلوم ہے، جو لب سڑک واقع ہے، جس کا ذکر گزر چکا ، اس مدرسے میں حفظ وفارسی کے ساتھ عربی کی ابتدائی تعلیم بھی جاری ہے، فتح پور میں اس وقت لگ بھگ آٹھ ہزار سے زیادہ آبادی ہے، جو ہندو مسلمان سے مخلوط ہے، پورے گاؤں کو ملاکر غیر مسلموں کا تناسب زیادہ ہے، لیکن رسہ کشی نہیں ہے، مسلمانوں میں زیادہ تر دیوبندی مکتب فکر کے لوگ ہیں، اور کچھ بریلوی مکتب فکر سے وابستہ ہیں، گاؤں میں کل گیارہ مساجد ہیں، دیوبندی وبریلوی مکاتب فکر میں وقتاً فوقتاً نوک جھونک ہوتی رہتی ہے، حضرت مصلح الامتؒ کے وطن چھوڑنے کے سبب میں اس کا بھی دخل ہے، گاؤں کی ایک بڑی تعداد کسب معاش کے لیے وطن سے باہر رہتی ہے۔
ہم لوگ باقیات دیکھنے کے لیے تو نکلے تو سب سے پہلے مسجد اور خانقاہ سے گزرتے ہوئے حضرت کے گھر پہنچے، چوں کہ خانقاہ پر تالا لگا ہوا تھا، جب تک ہمارے کرم فرماؤں نے کنجی کا انتظام کیا، ہم گھر دیکھنے پہنچے، آپ کا گھر خانقاہ والی مسجد کے مشرقی جانب واقع ہے، باہر سے مکان کا کچھ حصہ دو منزلہ ہے، جو نہایت بوسیدگی کے عالم میں ہے،حضرت مصلح الامتؒ باہری حصے کی بالائی منزل پر رہتے تھے، وہاں تک پہنچنا ہمارے لیے ممکن نہیں تھا، اس لیے کہ سیڑھی گِر کر ڈھیر ہوچکی تھی، باہری حصے کے بعد کشادہ سا صحن ہے اس کے بعد آخر کے حصے میں چند کمرے ہیں، جو اپنی بوسیدگی کو بیان کررہے تھے، صحن میں ہر طرف گھاس اُگی ہوئی تھی، پورا مکان کھلا ہوا تھا، اس لیے کہ اس میں نہ کوئی رہتا ہے اور نہ کوئی آتا جاتا ہے، مکان کے سامنے کی طرف ایک کشادہ سا میدان ہے، ہم گھر سے باہر نکلے تو خانقاہ والی مسجد میں داخل ہوئے، پہلے یہ مسجد کچی تھی، حضرت ہی کے زمانے میں اس کی تعمیر نو ہوئی، تعمیر کا تفصیلی واقعہ حیات مصلح الامت میں مذکور ہے، یہ ایک کشادہ سی مسجد ہے، بیرونی دروازے پرحضرت کی اجازت سے ایک کتبہ بھی لگا ہوا ہے،جس پر چند اشعار درج ہیں، جن سے مسجد کی تعمیر کا سنہ بھی معلوم ہوتا ہے، مسجد کی تعمیر 1375ھ میں مکمل ہوئی، اس اعتبار سے یہ تعمیر نو آپ کے فتح پور قیام کے دوران بالکل آخر میں ہوئی، اس سے پہلے خانقاہ وغیرہ کی تعمیر مکمل ہوچکی تھی۔
مسجد کی زیارت سے فارغ ہوکر ہم لوگ خانقاہ پہنچے، جو کہ دو منزلہ ہے اور اس وقت اس پر بوسیدگی کے آثار بالکل نمایاں ہیں، خانقاہ کا دروازہ کھولا گیا، اندر داخل ہوئے، کچی انیٹوں اور گارے سے بنی یہ خانقاہ اپنے اندر عجیب کیفیت اور وجدان رکھتی ہے، وہ کیا مناظر رہتے رہے ہوں گے جب حضرت کا قیام یہاں تھا، اصلاح باطن کا جوش و ولولہ جانے والوں میں ہوتا تھا، وہ اپنے آپ کو فنا کرنے کے لیے جاتے تھے اور بہت کچھ لے کر واپس آتے تھے، اس پوری خانقاہ میں کل 25/ چھوٹے چھوٹے کمرے ہیں، ایک کمرے میں دو آدمی سے زیادہ قیام نہیں کرسکتے، یہ حضرت کا ایک خاص ذوق تھا، جس کی وجہ سے آپ نے کمروں کو چھوٹا تعمیر کرایا تھا، جس کی وجہ حیات مصلح الامت میں حضرت کی زبانی نقل کی گئی ہے کہ جب کمرے چھوٹے رہیں گے تو بات نہیں ہوگی اور ہر آدمی ذکر وفکر میں مشغول ہوگا، جس کے لیے وہ یہاں آیا ہے، اس کے لیے علاوہ اور بھی وہاں قیام کی ہدایات تھیں جن کی پوری تفصیل حیات مصلح الامت میں موجود ہے، اس خانقاہ میں جنوب کی طرف اوپر چڑھنے کے لیے دو طرفہ سیڑھیاں ہیں، حضرت بالائی منزل پر بیرونی کونے والے کمرے میں قیام پذیر رہتے تھے، ہم اوپر چڑھ کر اس کمرے میں بھی گئے، کمرے میں دونوں طرف کھڑکیاں ہیں اور دیواروں پر مٹی کے پلاسٹر لگے ہوئے ہیں، کمرے میں داخل ہوکر قلب ودماغ کی عجیب سی کیفیت ہوگئی، ایسا محسوس ہورہا تھا کہ ہم حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں، زبان پر ایک طرح سے خاموشی چھا رہی تھی اور لگ رہا تھا کہ آپ موجود ہیں، آپ کی فکر ولگن، امت کے لیے اصلاح وفلاح کی تڑپ، نفاق وریا سے پاکی کی دُھن کی مہک آرہی تھی، کچھ دیر وہاں رکے پھر واپس نیچے آگئے، یہ خانقاہ کی تعمیر بھی عجیب وغریب ہے، اس میں کل 25/ کمرے ہیں، پوری خانقاہ کو محض ایک مہینے میں تعمیر کر دیا گیا تھا، جو کہ آج سات آٹھ دہائی گزرنے کے بعد بھی قائم ہے، اس کا تفصیلی تذکرہ حیات مصلح الامت میں موجود ہے۔
ہم نے خانقاہ کو حسرت ویاس کے ساتھ الوداع کیا، دل میں حیرت انگیز خیالات آرہے تھے اور حضرت کی زندگی کے اوراق تیزی سے پلٹ رہے تھے، وہاں سے ہم جنوب کی طرف بڑھے اور ’’تال نرجا‘‘ پہنچے جو چند قدم کے فاصلے پر ہے، اس کے بعد وہاں سے مدرسہ وصیۃ العلوم کی باہر سے زیارت کرتے ہوئے اس مسجد میں پہنچے جہاں حضرت ابتدائی زمانے میں نماز پڑھتے تھے، جو اَب ایک کشادہ اور شاندار مسجد ہے، ہمارے میزبان اس مسجد کے مؤذن تھے، اسی مسجد کے مغربی حصے میں متصلاً مولانا علیم اللہ کا مزار ہے، جو اَب پختہ ہے، مختلف قسم کے قمقمے بھی سجے ہوئے تھے، یہ وہی مولانا علیم اللہ ہیں جو حضرت مصلح الامتؒ کے معاصر تھے اور بریلوی مکتب فکر سے وابستہ تھے، اس زمانے کے ناواقف لوگوں نے شروع میں انھیں کو بیچ میں داخل کرکے ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کی تھی، لیکن حضرت کی حسن تدبیر سے وہ معاملہ ختم ہوگیا، مولانا علیم اللہ کا انتقال غالباً 1955ء کے سیلاب میں ہوا تھا، جو کہ اس زمانے کا سب سے بڑا اور مشہور سیلاب تھا، اسی وجہ سے ان کو مجبورا قبرستان میں دفن نہ کرکے مسجد سے متصل دفن کیا گیا۔ اس مسجد کی زیارت سے فارغ ہوکر ہم لوگ جلد ہی فتح پور سے گھوسی کے لیے روانہ ہوگئے، حضرت مصلح الامت ؒ کی باقیات کی زیارت سے دل ودماغ میں بہت کچھ خیالات آرہے تھے، چند باتیں ذیل میں درج کررہے ہیں، شاید کہ ہم کو بھی کچھ سبق حاصل ہو اور اس دنیائے فانی میں رہ کر ہم بھی ان بزرگوں کے نقش قدم پر چل کر دار باقی کے لیے کچھ کرسکیں۔واللہ الموفق
یہ بات مبنی پر حق ہے کہ حضرت مصلح الامت کی ذات سراپا علم وعمل کا نمونہ تھی، زہد وقناعت کا پیکر تھی، ظاہر وباطن کا حسین امتزاج تھی، سادگی وعدم تکلف سے عبارت تھی، عشق حقیقی میں ضرب المثل تھی، خدائے واحد نے آپ کو بے پناہ خوبیوں اور کمالات سے مالا مال کیا تھا، اسی لیے آپ جہاں رہے خلق خدا کو مستفید کرتے رہے اور اپنے ارد گرد کو روشن کرتے رہے، آپ حضرت مجدد الملت تھانوی ؒ کے اجل خلفاء میں سے تھے، آپ پر حضرت تھانوی ؒ کو بہت زیادہ اعتبار واعتماد تھا، جس کی شہادت کے بہتیرے واقعات موجود ہیں، آپ نے متوسطات واعلی تعلیم جامعہ اسلامیہ دار العلوم دیوبند سے حاصل کی تھی، آپ کی کمالیت، بزرگیت، فنائیت اور تقوی وللہیت کی شہادت خود آپ کے رفقاء وبزرگوں نے دی ہے، جس کی تفصیل ’’حیات مصلح الامت‘‘ میں موجود ہے۔
حضرت مصلح الامتؒ کی ولادت 1312ھ کے آس پاس ہوئی، صحیح تاریخ ولادت ضبط نہیں ہے، آپ نے ابتدائی تعلیم اور حفظ کی تعلیم اپنے وطن ’’فتح پور‘‘ میں حاصل کی، فارسی اور عربی کی ابتدائی تعلیم مدرسہ اشرف العلوم کان پور میں حاصل کی، پھر وہاں سے دار العلوم دیوبند حصول علم کے لیے فروکش ہوئے اور عربی کے ابتدائی کسی درجہ میں داخلہ لیا اور ترقی کرتے ہوئے 1336ھ میں دار العلوم دیوبند سے رسمی فراغت حاصل کی، آپ نے دار العلوم میں بہتیرے اکابر اساتذہ سے کسب علم کیا، جن میں علامہ انور شاہ کشمیریؒ، علامہ شبیر احمد عثمانیؒ، علامہ ابراہیم بلیاویؒ اور مفتی عزیز الرحمن صاحب دیوبندیؒ وغیرہ حضرات بطور خاص قابل ذکر ہیں، آپ کے درسی رفقاء میں مفتی محمد شفیع صاحب عثمانیؒ بطور خاص ہیں، ہمارے مبارک پوری اکابر علماء میں مولانا شکر اللہ صاحب مبارک پوریؒ آپ کے ہم عصر ہیں، البتہ آپ سے ایک سال پہلے دار العلوم دیوبند سے فارغ ہیں۔
حضرت مصلح الامت ؒ نے فراغت کے فوراً بعد تھانہ بھون کا رخ کیا اور وہاں کچھ وقت کے لیے پڑے رہے، بلکہ فراغت کے وقت سے آپ تھانہ بھون کے قلبی طور پر ہوکر رہ گئے، چہ جائے کہ آپ جسمانی طور پر مختلف مقامات پر قیام پذیر رہے، لیکن آپ کا تعلق تھانہ بھون سے آخری حد تک تھا، چوں کہ حضرت تھانوی ؒ نے آپ کو زمانۂ طالب علمی ہی میں بیعت کرلیا تھا، اس لیے اس کی تکمیل کے لیے فراغت کے بعد وہاں حاضر ہوئے، اس کے بعد تدریسی مشاغل کا سلسلہ قائم فرمایا، لیکن اس میں تسلسل باقی نہیں رہا، آخر زمانہ میں آپ تدریس وغیرہ سے بالکل علاحدہ ہوگئے تھے۔ آپ نے تدریسی زندگی کا آغاز دیار مشرق کی عظیم علمی ومرکزی درس گاہ جامعہ عربیہ احیاء العلوم مبارک پور اعظم گڑھ سے شروع کیا، غالبا تھانہ بھون سے جلد ہی آپ مبارک پور تشریف لائے، یہ زمانہ 1336ھ کا ہے، یہ وہی زمانہ ہے جس میں مولانا شکر اللہ صاحب مبارک پوریؒ بھی فراغت کے بعد وطن میں تشریف فرما تھے، اسی وقت دونوں حضرات جامعہ سے وابستہ ہوئے ہیں، لیکن ترتیب کا علم صیغۂ راز میں ہے، احیاء العلوم میں آپ نے قریب پانچ سال درس وتدریس کا سلسلہ قائم رکھا، اور یہاں علم وعمل کے دریا بہائے ہیں، جس کی کچھ تفصیل مولانا اعجاز احمد صاحب اعظمیؒ کی کتاب ’’حیات مصلح الامت‘‘ میں دیکھی جاسکتی ہے، احیاء العلوم سے علاحدہ ہونے کے بعد تھانہ بھون تشریف لے گئے، غالباً وہاں دو سال قیام رہا، اس کے بعد پھر دوبارہ احیاء العلوم میں بلائے گئے، البتہ چند ماہ ہی آپ کا یہاں قیام رہا، پھر یہاں سے مستعفی ہوگئے اور تجرد وتفرد کی زندگی کا غلبہ ہوا، کہیں ایک جگہ جم کر نہیں رہے، بالآخر اپنے مرشد حضرت تھانویؒ کے مشورے سے اپنے وطن ’’فتح پور‘‘ میں قیام فرمایا اور وہاں سے ایک نئی زندگی کا آغاز فرمایا، اب یہاں سے آپ کی اس زندگی کی شروعات ہوئی جس میں آپ نے اپنے کھپا دیا اور انسانوں کے ہجوم کو ایمان وعمل کی زندگی کے ساتھ اخلاص وللہیت کی راہ پر لگایا اور ان کو نفاق وریا سے پاک کرنے کی جد وجہد کی ، آپ کا یہ قیامِ فتح پور طویل ہے، غالباً ربع صدی پر مشتمل ہے، اسی قیام کے دوران آپ نے اپنی خانقاہ کی تعمیر کرائی، پہلے جو کچی مسجد تھی اس کی تعمیر پختہ ہوئی، اسی خانقاہ سے متصل فتح پور کا مدرسہ نے بھی ترقی کی منازل طے کیا ہے، جس کا نام وصیۃ العلوم ہے۔
پھر کچھ ایسے حالات بنے کہ آپ کو اپنا آبائی وطن چھوڑنا پڑا، ایک ایسا وطن جہاں آپ پیدا ہوئے، پلے بڑھے، بالخصوص ایک زمانہ تک لوگوں کی اصلاح کا کام کیا، اور جس کی خوشبو دور دراز تک پھیلی، بڑے بڑے اہل اللہ اور علماء واتقیاء بھی اس بے آب وگیا زمین تک پہنچے، اس وقت کے مشہور اکابر علماء نے آپ کی خانقاہ کی زیارت کی، ایک چھوٹی سی جگہ میں اپنے کو جانچا اور پرکھا، اور وہاں سے بہت کچھ حاصل کرنے کی کوشش کی، بہر حال ترک وطن آپ کا مقدر تھا، آپ نے وطن ترک کرکے پاکستان جانے کا ارادہ کیا، لیکن جب اس کی اطلاع آپ کے مرید مولوی حاجی نثار اللہ صاحب گورکھپوری کو ہوئی تو انھوں نے اپنے یہاں گورکھپور آنے کی دعوت دی اور اصرار کیا، ان کے اصرار پر آپ نے گورکھپور سکونت اختیار کی، یہ 1375ھ کی بات ہے، لیکن وہاں بھی محض دو سال رہ سکے اور حالات کچھ ایسے بنے کہ وہاں سے آپ نے سکونت ترک کردی، اور الٰہ آباد کو اپنا وطن ومسکن بنایا اور آخر تک وہیں کے ہورہے، فتح پور کی طرح وہاں بھی آپ کا بہت بڑا حلقہ ہوا، مریدین متوسلین کا جم غفیر رہتا تھا، علماء ومشائخ بھی آپ کی خدمت میں حاضری دیتے اور اپنی تربیت واصلاح کراتے تھے، الہ آباد میں آپ نے دس سال قیام کیا، پھر طبیعت میں خرابی کے باعث ممبئی میں کچھ وقت قیام کیا، 1387ھ میں دوسری بار حج بیت اللہ کا سفر شروع کیا، اور اسی سفر میں آپ اپنے ہمراہیوں اور اہل خانہ ومتوسلین کو چھوڑ کر مسافرانِ آخرت میں شامل ہوگئے، کئی دن گزرنے کے بعد آپ کی نعش کی تکفین کی گئی اور جہاز ہی پر نماز جنازہ پڑھ کر دریا کے حوالے کردیا گیا اور آپ ہمیشہ کے لیے اس دنیائے فانی سے علاحدہ ہوگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون، اللہم اغفر لہ وارحمہ وادخلہ فسیح جناتک۔ آمین
یہ حضرت مصلح الامت ؒ کی زندگی کی ایک جھلک تھی، اگر تفصیل پڑھنا چاہیں تو حیات مصلح الامت کی جانب رجوع کریں۔
ہمارا قافلہ فتح پور سے نکل کر گھوسی پہنچا، جہاں ہمارے کرم فرما مولانا مفتی نسیم اللہ صاحب قاسمی، استاذ دار العلوم تحفیظ القرآن سکٹھی دیر سے انتظار کررہے تھے، چوں کہ ہمارا کافی وقت نکل چکا تھا، لیکن مفتی صاحب کے یہاں جانے سے پہلے ایک دوسری جگہ بھی مختصرا ً رکنا پڑا، جو کہ ہمارے ساتھ فتح پور سے آئے تھے اور انھوں نے گھوسی کے لیے ہماری رہبری بھی کی تھی، وہاں سے مفتی نسیم اللہ صاحب کے یہاں پہنچے، وہیں پر نہ چاہتے ہوئے بھی ظہرانہ سے لطف اندوز ہوئے، اللہ مفتی صاحب کو جزائے خیر دے۔ گھوسی سے نکل کر سیدھے کوپاگنج مولانا صہیب اختر صاحب قاسمی، استاذ مدرسہ اشرف العلوم حمید پور کے یہاں پہنچے، وہاں جاکر اولاً ظہر کی نماز پڑھی، پھر کچھ ملاقاتیں ہوئیں، بعض دوستوں اور خردوں سے بھی پر لطف مگر مختصر ملاقاتیں رہیں، جی تو چاہ رہا تھا کہ کچھ وقت اور کوپاگنج کی پر رونق فضا میں گزارا جائے اور دیگر احباب سے ملاقاتیں کی جائیں، لیکن وقت کی تنگ دامانی سے مجبورا وہاں سے نکلنا پڑا، چوں کہ پروگرام میں مدرسہ مرقاۃ العلوم مئو بھی جانا تھا، اس لیے جلد نکلنے کی کوشش کی، لیکن پھر بھی نکلتے نکلتے چار بج چکے تھے، بہر حال آگے کے ارادے سے مئو ضلع کے لیے نکلے، ہمارے کرم فرما اور رفیق درس مولانا مفتی محمد عاصم صاحب قاسمی، استاذ مدرسہ منبع العلوم خیرآباد دیر سے انتظار فرما رہے تھے، بالآخر قبیل عصر وہاں پہنچے، جاتے ہی نماز عصر سے فراغت ہوئی، اور ان کے یہاں ٹھہرے، وقت کی کمی کے باعث مرقاۃ العلوم جانے کا ارادہ ملتوی کردیا گیا، مفتی صاحب کے یہاں سے واپس گھر کے لیے روانہ ہوئے، راستے میں ایک عزیز کے یہاں بھی کچھ دیر رکے، جو پہلے سے منتظر تھے، ان کے یہاں تھوڑا سا قیام رہا، پھر وہاں سے مغرب سے پہلے گھر کے لیے روانہ ہوگئے اور بحمد اللہ بخیر وعافیت گھر پہنچ گئے۔
ہمارا یہ مختصر سا سفر بہت عمدہ اور دل چسپ رہا، بطور خاص مصلح الامت ؒ کے آبائی وطن کی زیارت اور ان کے باقیات سے نظر نوازی، جو ہم سب کے لیے بہت کچھ اپنے اندر پیغام رکھتی ہے، اس سفر میں بہت کچھ دیکھنے اور سیکھنے کو ملا، مختلف افراد سے ملاقاتیں رہیں، اللہ سے دعا ہے کہ ان سب کو جزاء خیر دے اور حضرت مصلح الامتؒ کی بال بال مغفرت فرمائے، ان کو اپنی شایان شان بدلہ عطا فرمائے اور ہم سب کو ان کے نقوش قدم کے مطابق چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں