ازقلم------------انعام الرحمن استاذ دارالعلوم تحفیظ القرآن سکھٹی مبارک پور
یہ ایک معلوم و معروف حقیقت ہے کہ شہادت توحید و رسالت اور اقامت صلوٰۃ کے بعد زکوٰۃ اسلام کا تیسرا سب اہم رکن ہے، قرآن مجید میں ایک دو جگہ نہیں بلکہ تقریباً 70/سے زیادہ مقامات پر اقامت صلوٰۃ اور أداء زکوٰۃ کا ذکر اس طرح ساتھ ساتھ کیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دین میں دونوں کا مقام اور درجہ قریب قریب ایک ہی ہے،
نیز زکوٰۃ کی اہمیت و افادیت اس واقعہ سے بھی اظہر من الشمس ہوجاتی ہے جب آپﷺ کے وصال کے بعد بعض علاقوں کے ایسے لوگوں نے جو بظاہر اسلام قبول کر چکے تھے اور توحید و رسالت کا اقرار کرتے اور نمازیں پڑھتے تھے زکوٰۃ دینے سے انکار کیا تو سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف جہاد کا اسی بنیاد پر فیصلہ کیا تھا کہ یہ لوگ نماز اور زکوٰۃ کے حکم میں تفریق کرتے تھے جو اللہ اور رسول ﷺ کے دین سے انحراف و ارتداد ہے، صحیح بخاری اور مسلم کی مشہور حدیث ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو جواب دیتے ہوئے انہوں نے فرمایا
(والله لاقاتلن من فرق بين الصلوة والزكوة)
خدا کی قسم نماز اور زکوٰۃ کے درمیان جو لوگ تفریق کریں گے میں ضرور بالضرور ان کے خلاف جہاد کروں گا، پھر تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ان کے اس نقطہ نظر کو قبول کرلیا اور اس پر سب کا اجماع ہوگیا، اسی طرح بہت سی احادیث میں زکوٰۃ کا تذکرہ عموماً اس طرح ساتھ ساتھ کیا گیا ہے کہ جس سے مفہوم ہوتا ہے ان دونوں کا درجہ قریب قریب ایک ہی ہے اور ان دونوں کے درمیان کوئی خاص ربط ہے،
اب آۓ زکوٰۃ میں نیکی اور افادیت کے تین پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہوئے زکوٰۃ کی ادائیگی کے سلسلے میں معاشرے کا کیا المیہ ہے اس پر بھی طائرانہ نظر ڈالی جائے،
( زکوٰۃ کے تین پہلو)
زکوٰۃ کے تین پہلوؤں میں سے پہلا یہ ہے کہ مومن بندہ جس طرح نماز کے قیام و رکوع اور سجود کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی بندگی اور تذلل و نیاز مندی کا مظاہرہ جسم و جان اور زبان سے کرتا تاکہ اللہ کی رضا و رحمت اور اس کا قرب حاصل ہو اسی طرح زکوٰۃ ادا کرکے بندہ اس کی بارگاہ میں اپنی مالی نذرانہ اسی غرض سے پیش کرتا ہے اور اس کا عملی ثبوت دیتا ہے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ اسے اپنا نہیں بلکہ خدا کا سمجھتا اور یقین کرتا ہے، اور اس رضا اور قرب حاصل کرنے کے لئے قربان کرتا ہے،
دوسرا پہلو زکوٰۃ میں یہ ہے کہ اس کے ذریعے اللہ کے ضرورت مند اور پریشان حال بندوں کی خدمت و اعانت ہوتی ہے اس پہلو سے زکوٰۃ اخلاقیات کا نہایت ہی اہم باب ہے،
تیسرا پہلو اس میں افادیت کا ہے کیونکہ جب "حب" مال اور دولت پرستی جو ایک ایمان کش اور نہایت مہلک روحانی بیماری ہے، زکوٰۃ اس کا علاج اور اس کے گندے اور زہریلے اثرات سے نفس کی تطہیر اور تزکیہ کا ذریعہ ہے،
اسی بناء پر قرآن مجید میں ایک جگہ ارشاد فرمایا گیا ہے،
{خذ من أموالهم صدقة تطهرهم و تزكيهم بها}
اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ مسلمانوں کے اموال میں سے صدقہ (زکوٰۃ) وصول کیجیۓ جس کے ذریعہ ان کے قلوب کی تطہیر اور ان کے نفوس کا تزکیہ ہو_
دوسری جگہ فرمایا گیا ہے،
{وسيجنبهاالاتقى الذي يؤتى ماله يتزكى}
اور اس آتشی دوزخ سے نہایت متقی بندہ دور رکھا جائے گا جو اپنا مال راہ خدا میں اس لئے دیتا ہوکہ اس کی روح اور اس کے دل کو پاکیزگی حاصل ہو،
بلکہ زکوٰۃ کا نام ہی غالباً اسی پہلو سے زکوٰۃ رکھا گیا ہے کہ زکوٰۃ کے اصل معنی ہی پاکیزگی کے ہیں،
اب ان تینوں پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے معاشرے کا موازنہ کیا جاۓ کہ ہم تو نماز و روزہ کے ذریعے اللہ کے حکم کی بجاآوری کرلیتے ہیں ، لیکن زکوٰۃ جو مالی عبادت ہے اس تعلق سے ہمارے اندر کمیاں پائی جاتی ہے، جب کہ ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ زکوٰۃ ایک ایسی عبادت ہے جس میں اخلاقیات کے ساتھ ساتھ تطہیر نفس کا بھی پہلو ہے، لیکن مال کی محبت ہمیں تطہیر قلب سے دور رکھ دیتی ہے اور بہت سے لوگ زکوٰۃ جیسے اہم رکن کی ادائیگی میں لاپرواہی کے شکار ہوجاتے ہیں، لیکن جو حضرات ادا بھی کرتے ہیں ان کا المیہ یہ ہے کہ صرف ماہ رمضان ہی کو زکوٰۃ کی ادائیگی کے لئے مختص سمجھتے ہیں، اور یہ سمجھتے ہیں کہ ہم بہت بڑا کارنامہ انجام دے دیا، جبکہ ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ دینا تو ان پر بنتا ہے کیوں کہ اس کے مستحق اب وہ ہو نہیں سکتے، لیکن پھر کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں ہم محتاجوں یا مدارس پر خرچ کرکے ان کے اوپر احسان کیا ہے، اگر وہ ایسا سمجھتے تو ان کی بہت بڑی بھول ہے ، بلکہ مدارس کے ان سفراء کا ان کے اوپر احسان ہے وہ ان کے پاس جاکر ان کے مال و دولت کے تطہیر کا سبب بنتے ہیں، اگر یہ حضرات درد درد نا جائیں تو بہت سے اس زکوٰۃ کے مال کو اپنا مال سمجھ کر استعمال کر بیٹھیں گے،
اب ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ کیا زکوٰۃ رمضان کا ایک حصہ ہے یا پھر سال کے کسی بھی حصے میں ادا کی جاسکتی ہے،
تو اس سلسلے میں زکوٰۃ کے جہاں بہت سے مسائل اور شرائط ہیں ان میں سے ایک شرط حولان حول ہے یعنی رقم پر پورا سال گزرا ہو،
لیکن یہ ضروری بھی نہیں ہے کہ سبھی اہل خیر حضرات کے مال و دولت پر حولان حول رمضان میں مکمل ہوتا ہو، اگر ایسا ہے بھی تو اب اس کے اندر ترمیم کرنے کی ضرورت ہے،
کیوں کہ زکوٰۃ کے جو آٹھ مستحقین ہیں وہ کہیں نا کہیں پورے سال اس کے مستحق ہوتے ہیں نہ کہ صرف ماہ رمضان میں، اس لیے ہمیں چاہیے کہ تسلسل کے ساتھ زکوٰۃ کو ادا کرنا چاہیے آخر سال میں اپنی دولت کا تخمینہ لگا کر اس کی مکمل زکوٰۃ نکالنا چاہیے اور جو درمیانی سال میں زکوٰۃ ادا کی گئی ہے اس کو اسی میں جوڑ کر کم لینا چاہیے اس طرح کرنے سے اس کے مال کے بہت بڑے حصے کی زکوٰۃ بھی نکل جائے گی اور آخر سال میں اس کو اس کا احساس بھی نہیں ہوگا، لیکن عموماً ہوتا کیا ہے ہم آخر سال میں جب اپنی مالیت کا اندازہ لگاتے ہیں اس کے حساب سے ایک بھاری رقم زکوٰۃ کی نکلتی دیکھ کر ہمیں اپنے مال کی کمی کا احساس ستانے لگتا ہے اور مال کی محبت ہمیں مکمل زکوٰۃ نکالنے سے روک دیتی ہے، اس کے علاوہ زکوٰۃ کی ادائیگی سے بچنے کے لئے جو حیلہ اور بہانا اختیار کیا جاتا ہے وہ مکمل زکوٰۃ نہ دینے سے کہیں زیادہ بڑا جرم ہے، عموماً لوگ یہ حیلہ اختیار کرتے ہیں کہ مال پر سال گزرنے سے پہلے اس مال کا مالک کسی اور کو بنادیتے ہیں اور اسی طرح زیورات کے تعلق سے بھی کیا جاتا ہے، کبھی اس کا مالک شوہر تو کبھی اس کی مالک بیوی ہوجاتی ہے، یہ بات ویسے ہی نہیں بلکہ مشاہدہ کی روشنی میں کہی جارہی ہے،
اب یہاں ایک حدیث کا مفہوم ذکر کرتا چلوں جو زکوٰۃ نہ ادا کرکے مال جمع کرتے ہیں اس کے متعلق آپ ﷺ نے فرمایا جس آدمی کو اللہ تعالیٰ نے دولت عطاء فرمائ پھر اس کی زکوٰۃ نہیں ادا کی تو وہ مال قیامت کے دن اس آدمی کے سامنے ایسے زہریلے ناگ کی شکل میں آۓ گا جس کے سر کے بال جھڑ گئے ہوں گے اور اس کی آنکھوں کے اوپر دو سفید نقطے ہوں گے، (یہ اس کے انتہائی زہریلے پن کی علامت ہوگیے)
پھر وہ سانپ اس کے گلے کا طوق بنادیا جائے گا، پھر اس کی دونوں باچھیں پکڑے گا اور کہے گا میں تیری دولت ہوں میں تیرا خزانہ ہوں، پھر قرآن کریم کی آیت کریمہ تلاوت فرمائی ( ولايحسبن الذين يبخلون) الی آخیرالایہ
اب ایک اور حدیث تحریر کرتا چلوں جس میں میں زکوٰۃ سے ملا مخلوط مال باقی ماندہ مال کی تباہی کا سبب بن جاتا ہے، اسی مناسبت سے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ایک روایت ہے،
حدیث کے الفاظ یہ ہیں
{عن عائشة رضي الله عنها قالت سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ما خالطت الصدقة مالا قط إلا اهلكته، }
رواہ الشافعی والبخاری فی تاریخہ والحمیدی فی مسندہ
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے تھے کہ مال زکوٰۃ جب دوسرے مال میں مخلوط ہوگا تو ضرور اس کو تباہ کردے گا،
امام حمیدی جو امام بخاری رحمہ اللہ کے استاذ ہیں انہوں نے اپنی مسند میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی یہ روایت نقل کرکے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ اگر کسی آدمی پر زکوٰۃ واجب ہو اور وہ اس کو ادا نہ کرے تو بے برکتی سے اس کا باقی مال بھی تباہ ہوجاۓ گا،
اور امام بیہقی نے شعب الایمان میں احمد بن حنبل کی سند سے حضرتِ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی یہی روایت نقل کرکے لکھا ہے کہ امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ اس حدیث کا مطلب اور مصداق یہ ہے کہ اگر کوئی غنی آدمی (جو زکوٰۃ کا مستحق نہیں ہے)غلط طریقے پر زکوٰۃ وصول کرلے یہ زکوٰۃ اس کے باقی مال میں شامل ہوکر اس کو تباہ کردے گی،
اس حدیث کی پہلی جو وجہ بتائی گئی وہ بالکل واضح ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے رقم کی مکمل زکوٰۃ نہ ادا کرے تو اس کا وہ مال اس کے اصل مال میں مل کر اس مال کو بھی برباد کردے گا،
برباد کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ اس کا مال نذرآتش ہوجائے بلکہ یہ ہوسکتا ہے کہ اللہ کی طرف کسی نہ کسی آزمائش میں مبتلا کردیا جائے چاہے وہ بیماری کی شکل میں ہو یا پھر اور بھی دیگر شکلیں ہوسکتی ہیں،
اس حدیث کی دوسری وجہ بتائی گئی کہ ایک غنی آدمی جو زکوٰۃ کا مستحق نہیں وہ غلط طریقے سے اصول کرلے تو یہ بھی اس کی بربادی کا سبب بن سکتا ہے،
اب یہاں زکوٰۃ سے مستحق نہ ہونے کا مطلب یہی ہوسکتا ہے کہ جس کے پاس نصاب کے بقدر مال ہو وہ زکوٰۃ کا مستحق نہیں ہوگا، چاہیے وہ روپیہ پیسہ کی شکل میں ہو یا پھر زیورات کی شکل میں ہو،
اب یہاں ایک بات اور ذہن میں آرہی ہے کہ عموماً لوگ اپنے مالوں کی زکوٰۃ تو نکالیتے ہیں لیکن جو زیورات ہمارے گھروں میں خواتین کے پاس ایک اچھی مقدار میں ہوتے ہیں اس کی طرف کم لوگوں کی توجہ ہوتی ہے، جب کہ زیورات نصاب کے بقدر پہونچ رہے ہوتے ہیں یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی اور ساڑھے سات تولہ سونا کی قیمت کے برابر ہورہے ہیں تو ان خواتین پر بھی زیورات کی زکوٰۃ واجب ہے جب کہ وہ مالک ہوں،
اب زکوٰۃ دیتے وقت ان باتوں کا بالکل خیال نہیں کرتے کہ جس کو دے رہے اگر مالی اعتبار سے کم زور ہے لیکن زیورات اس کے پاس اتنے ہیں کہ وہ زکوٰۃ کی مقدار کو پہونچ رہے ہیں تو ایسا شخص زکوٰۃ لینے کا مستحق نہیں ہے،
کیوں کہ موجودہ لاک ڈاؤن کے دوران کئی ایسے واقعات سنے اور دیکھنے کو ملے ہیں کہ وہ نہ تو زکوٰۃ لینے اور نہ ہی امداد لینے کے قابل ہیں لیکن پھر بھی اس موقع کا بھر پور فائدہ اٹھا رہے ہیں، اس لیے زکوٰۃ دینے کے وقت اپنے اعتبار سے اس کا تجزیہ کر لیا جائے کہ واقعی اس کو دینے سے ہماری زکوٰۃ ادا ہوجائے گی، اگر شبہ ہوتو مدارس اسلامیہ پر اپنی زکوٰۃ کی رقم دیکر بھر پور اجر کے مستحق ہوسکتے ہیں،
ویسے بھی موجودہ حالات میں الحمدللہ لوگوں نے اتنا تعاون کیا ہے کہ بآسانی لوگ آسودگی کے ساتھ رہ سکتے ہیں،
اس لئے اس نازک وقت میں محتاجوں کا خیال کرنے کے ساتھ ساتھ مدارس اسلامیہ کو بھی اپنے صدقات و زکوٰۃ سے مکمل طور پر تعاون کرنے کی کوشش کریں، کیوں کہ اسی مدارس سے وطن عزیز میں ہمارا تشخص باقی ہے، اگر یہ کمزور پڑگئے تو ہمارا وجود بھی خطرہ میں پڑجائے گا اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا وجود باقی رہے تو اس مشکل کن حالات میں مدارس اسلامیہ کا وجود باقی رکھنا ہمارا اولیں فرض بنتا ہے، اس لیے صاحب ثروت حضرات سے گزارش ہے کہ علاقائی مدارس کی طرف خصوصی توجہ دیں،
اللہ تعالیٰ توفیق سے نوازے،
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں مکمل طور اپنے مال کی زکوٰۃ نکالنے کی توفیق عطا فرمائے اور موجودہ حالات میں مدراس اسلامیہ کی حفاظت فرمائے آمین

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں