ڈاکٹر علیم خان فلکی صدر سوشیو ریفارمس سوسائٹی،حیدر آباد
سبھی اس گمان میں تھے کہ NRC کی سازش کے خلاف پوری امّت اپنے مسلکی اختلافات کو فراموش کرکے متحد ہوچکی ہے۔ لیکن کچھوچھا شریف کے مولانا سید ہاشم میاں صاحب نے Limra TV کو ایک انتہائی شرانگیز انٹرویو دے کر نہ صرف اتحاد کی اس امید کو پارہ پارہ کردیا بلکہ دشمن میڈیا کو مزید زہر اگلنے کے لئے ایک شرمناک موقع دے دیا۔ موصوف اگر کوئی سچ بات ہی کہہ دیتے تو شائد ہمیں یہ کالم لکھنے کی ضرورت نہ پڑتی، لیکن جس دلیری سے انہوں نے جھوٹ اور تہمتیںباندھی ہیں، انہیں دیکھ کر تو ارنب مکرجی جیسے شرپسند کذّاب بھی مات کھاتے ہیں۔ بقول شاعر ؎ اِس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔ موصوف نے نہ صرف کچھوچھا شریف کی عظمت و وقار کو پامال کیا بلکہ مسلمانوں کی اہم جماعتوں اور مدرسوں کو سعودی عرب، دوبئی اور کویت جیسے دہشت گرد ممالک سے پیسہ لے کر سارے ملک میں دہشت گردی پھیلاناے والے کہا، اور بریلوی وہابی کے درمیان نفرت کی ایک نئی لہر پیدا کی۔ اس ویڈیو کو دیکھ کر اگر ان کے سمجھدار معتقدین بھی ان کو غلطی کا احساس نہ دلاسکیں تو یہ بہت ہی افسوسناک واقعہ ہوگا۔ یہ ویڈیو یوٹیوب پر بھی دستیاب ہے اور ہم سے واٹس اپ پر بھی طلب کی جاسکتی ہے۔
دیوبندی اور بریلوی مسلکوں کی پیدائش کا 1857 ء کی جنگِ آزادی سے بڑا گہرا تعلق ہے۔ جب انگریز نے جان لیا کہ اس ملک میں جب تک مذہبوں اور مسلکوں میں اتحاد باقی رہے گا اس ملک پر حکومت کرنا ممکن نہیں ہے، اس نے پورے ملک میں جنگِ آزادی کے جذبے کو پہلے ہندو مسلم پھر بریلوی دیوبندی میں ایسے بانٹا کہ آج تک اس سازش کے اثرات ہندوستان کے ہر شہر اور ہر ضلع میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ سب سے پہلے اس نے 1872 کے بعد گؤرکشا اور وندے ماترم (آنند مٹھ، بنکھم چٹرجی) کے ذریعے ہندومسلم فسادات کا بازار گرم کردیا۔ اس کے بعد دیوبندیت، بریلویت اور قادیانیت کے بیج بو کر امت کا اتحاد ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تباہ کردیا۔ 1866میں دیوبند قائم ہوا۔ اس کے اثر کو ختم کرنے کے لئے انگریز نے دیوبندی مسلک سے اختلاف رکھنے والے ایک وفد کو مکہ، مدینہ بھیج کر دیوبندیوں کے مشرک اور کافر ہونے پر فتوے منگوائے۔ جوں ہی یہ وفد Delegation فتوے لے کر ہندوستان واپس پہنچا اور فتوؤں کا اجرا ہوا، انگریز بغیر جنگ کے میدان جیت گیا۔ ہندوؤں اورمسلمانوں کی پوری توجہ جنگِ آزادی سے ہٹ کر ایک دوسرے کے خلاف خونریزی پر مرکوز ہوگئی۔
فتوے جیسے ہی عام ہوئے ، جس محلّے میں جس مسجد پر بھی جس کا غلبہ تھا، اس نے قبضہ کرلیا، اس طرح محلہ محلہ مسجدیں بریلوی اور دیوبندی میں تقسیم ہوگئیں۔ مسجدوں کے دروازوں پر لکھ دیا گیا کہ یہاں صرف بریلوی یا دیوبندی ہی آسکتا ہے۔ پھر یہ بھی وقت آیا کہ جیسے کہ مولانا ابوالکلام آزاد اپنے والد کے حوالے سے ''قولِ فیصل'' میں لکھتے ہیں کہ اگر دوسرے مسلک کا کوئی آدمی مسجد میں نماز پڑھ لے تو مسجدیں دھوئی جانے لگیں۔ ایک دوسرے کے خلاف فتوے شائع کرنے والے اخبارات و رسائل خوب بکنے لگے۔ مذہب کی پہچان اسوہئِ رسول ؐ سے نہیں بلکہ سفید، ہرے، پیلے ٹوپیوں اور عماموں سے ، فاتحہ، سلام اور جھنڈوں سے ہونے لگی۔ انگریز تو چلا گیا لیکن اس کی بوئی ہوئی مسلکی نفرتوں کی فصلوں کو آج تک ہمارے علما اور مشائخین پوری پوری محنت اور وفاداری سے سینچ رہے ہیں۔ آج بھی ایک دوسرے کو کافر و مشرک یا بدعتی ثابت کرنے والے واعظین کا شمار اکابر مجاہد علما میں کیا جاتا ہے، ان کے ناموں کے آگے ایسے ایسے القابات لگائے جاتے ہیں جس سے ان لوگوں کے نہ صرف جیّد واعظ یا عالم ہونے کی پبلسٹی ہوتی ہے، بلکہ یہ مستقبل کے ولیوں یا مجتہدین کی صف کے دعوےدار نظرآتے ہیں۔ ان کو بھاری لفافے، اچھی ہوٹلوں میں قیام اور ہوائی جہاز کے ٹکٹ دیئے جاتے ہیں۔
جس طرح سیاسی پارٹیوں کو الیکشن جیتنے کے لئے کچھ نعرے ایجاد کرنے پڑتے ہیں اسی طرح مذہبی میدان جیتنے کے لئے بھی کچھ نعروں کی ضرورت پڑتی ہے۔جب ایک گروہ نے مخالف کیمپ کو ذلیل کرنے کے لئے ''عاشقِ رسول اور گستاخِ رسول'' کے ٹیاگ Tag ایجاد کیئے تودوسرا گروہ کہاں چُپ بیٹھنے والا تھا اس نے بھی مخالفین کے خلاف ''بدعتی ، درگاہ پرست، مُردہ پرست'' جیسے Tags ایجاد کئے۔مسلمانوں کے خلاف جو کام فاشسٹوں نے ''جئے شری رام یا وندے ماترم'' کے نعروں سے لیا وہی کام مسلمانوں نے ایک دوسرے کے خلاف عاشقِ رسول اور بدعتی وغیرہ کے القابات سے لیا۔جس طرح فاشسٹ فرقہ پرست پارٹیاں اپنے آپ کو نیشنلسٹ کہلوانے لگیں حالانکہ نیشن کے اصل دشمن ہمیشہ سے یہی لوگ رہے ہیں، اسی طرح مسلمانوں کی جماعتوں نے بھی اپنے لئے عاشقِ رسول اور دوسرے کے لئے گستاخِ رسول کے نام دے کر خود آر یس یس کی طرح اسلامی نیشنلسٹ بن گئیں، دیوبندیوں کا مخالف گروہ کو بدعتی اور مشرک کہنا خود ان کے خالص مسلمان کا دعویٰ بھی بی جے پی کے اپنے آپ کو نیشنلسٹ کہلوانے والے دعوے سے مختلف نہیں۔ پچھلے دیڑھ سو سال میں ہر دو کی طرف سے ایک دوسرے کی مخالفت میں جتنی کتابیں، مضامین اور رسالے لکھے گئے، یا آج سوشیل میدیا پر پورے زوروں پر یہ جنگ جاری ہے ، یہ مسلمانوں کی تاریخ کا ایک بدترین اور شرمناک باب ہے۔
دور دور تک ایسے کوئی آثار نظر نہیں آتے کہ کوئی تبدیلی آئے۔ تبدیلی اُس وقت آتی ہے جب عوام کا ذہن بیدار ہو۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ تعلیم Educationسے تبدیلی آتی ہے۔ یہ غلط فہمی ہے۔ ہندو آبادی کا 90% حصہ اچھوتوں یا نِچلی ذاتوں پر مبنی ہے، اگرچیکہ ان ذاتوں میں بے شمار اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اعلیٰ عہدوں پر فائز لوگ ہیں ، لیکن یہ لوگ نہ کبھی دھرم کی حقیقت جاننے کی کوشش کرتے ہیں نہ خود اپنے محسنوں جیسے ڈاکٹر امبیڈکر اور مہاتما پھولے وغیرہ کی کتابیں پڑھتے ہیں جنہوں نے ان کے ذہنوں کو غلامی سے آزاد کروانے کے لئے اپنی عمریں لگادیں۔ یہ لوگ ذہنی غلامی سے اس لئے آزاد نہیں ہوسکے کہ صدیوں کی غلامی نے ان کے ذہنوں میں اتنی مضبوط جگہ بنالی ہے کہ غلامی خود ان کے ذہنوں میں ایک طاقتور بت بن چکی ہے۔منوسمرتی اور برہمن واد کی غلامی سے باہر نکلنے کے تصور سے بھی یہ گھبراتے ہیں۔ ان کا یہ عقیدہ بن چکا ہے کہ اسی غلامی میں ان کی مُکتی یعنی نجات ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایک جاہل قیادت جو گؤ گوبر اور گؤ موتر کی سیاست کے ذریعے ملک کو تباہ کررہی ہے، اسی کو ووٹ دیتے ہیں۔ جو لوگ ان فاشسٹوں کو ووٹ نہیں دیتے، ذہنی طور پر یا دِلی طور پر انہی کے ساتھ ہیں۔ ان میں اتنی ہمت نہیں کہ اس دھرم میں خود ان کا کیا مقام ہے، اصلی دھرم کیا ہے، ہندوازم کیا ہے اور ہندوتوا کیا ہے اس کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
مسلمان عوام بھی بالکل اسی ذہنی غلامی کا شکار ہے۔ کچھ صدی پہلے تک مسلمان خود ہندو تھے۔ اس لئے فطرت بھی وہی ہے کیونکہ DNA بھی وہی ہے۔کسی نہ کسی کو ایک آقا کے طور پر ماننا اور اس کی خوشنودی کو اللہ کی خوشنودی سمجھنا ان کے مزاج میں ہے۔ اسی لئے مولوی، ملّا، عاملوں ، مرشدوں اور سجّادوں نے ان کے ذہنوں کو اس قدر غلامی میں جکڑ رکھا ہے کہ ان کی بھی مُکتی یعنی شفاعت اور مغفرت کا راستہ انہیں صرف غلامی میں نظرآتا ہے۔ یہ قرآن یا صحیح سنّت کو پڑھنا ہی نہیں چاہتے۔ ابّاجان اور دادا جان جس راستے پر چلتے تھے، یا جو بھی مولوی صاحب نے یا مرشد یا امیرِجماعت نے فرمادیا بس وہی ان کا دین ہے۔ ذہنوں میں ایسے عقائد بٹھادیئے گئے ہیں کہ بغیر قرآن اور بغیر اصلی سنّت پر عمل کئے بھی انہیں سیدھے جنّت مل سکتی ہے، انہیں اس کا یقینِ کامل ہے۔ چند پوجا پاٹ کے رسوم اور گنپتی یا رام نومی کے جلسے جلوسوں کی طرح کے کچھ اعمال کرکے بغیر حساب کے نجاتِ اخروی کی ان کو ضمانت دے دی گئی ہے۔ دوسرے گروہ نے یہ کیا کہ ایک مدرسے سے نکلنے والے سو طلبا میں سے جو دو چار ہشیار اور ذہین ہوتے ہیں انہوں نے مدرسے سے نکلتے ہی نئے نئے مدرسے قائم کرکے گلی گلی مدرسوں کا جال بچھادیا۔ حالانکہ خود کوئی کاروبار کرکے جو مدرسے پہلے سے موجود ہیں انہی کو مضبوط کرنے کا کام کرتے تو دینی تعلیم کا معیار کئی درجے بلند ہوسکتا تھا۔ لیکن چونکہ مدرسوں سے نکلنے والوں کے پاس کوئی فن نہیں ہوتا اور نہ انہیں دنیا میں ایک Competative life گزارنے کا شعور دیا جاتا ہے، نتیجتاّ وہ مدرسہ قائم کرنے کے علاوہ کچھ اور نہیں کرسکتے۔
سارے مدرسے تو نہیں لیکن ان مدرسوں کی اکثریت دینی تعلیم کا ذریعہ کم ، کمائی کا ذریعہ زیادہ ہے۔ ان مدرسوں سے غریب، یتیم اور مسکین بچوں کی روٹی، کپڑے اور چھت کا مسئلہ تو حل ہوجاتا ہے لیکن اس کام کو ایک بہترین خدمت ِ خلق کہاجاسکتا ہے، دینی تعلیم کی ترقی نہیں کہاجاسکتا۔یہاں سے ایسے حفّاظ اور علما کی ایک فوج نکلتی ہے جو نہ قرآن و حدیث کے معنی یا منشا کو سمجھ سکتی ہے اور نہ اس میںاپنی شکست خوردہ قوم کو کھڑا کرنے کا شعور ہوتا ہے۔ اس کی ایک وجہ خود ان مدرسوں کا نصاب بھی ہے جو اسے بدلنے تیار نہیں ہوتے۔ یہ وجہ ہے کہ آج ٹوپیوں، داڑھیوں اور برقعوں کی تہذیب تو باقی رہی لیکن مثالی مسلمان جسے دیکھ کر دنیا متاثر ہو، وہ دور دور تک نظرنہیں آتے۔'' نماز دین کا ستون ہے'' بس اسی ایک حدیث پر تمام دینداروں کا اسلام آکر ختم ہوجاتا ہے۔ جس جوش، غضب اور ولولے سے چنگھاڑتی ہوئی تقریریں اور وعظ بریلویت یا وہابیت پر ہوتی ہیں، جتنا زور داڑھی اور مسلک پرستی پر دیا جاتا ہے، اگر اس کا 10% زور بھی عدل و انصاف کے قیام، حلال کمائی، سنّتِ نکاح، سچ بولنے، صلہ رحمی، امانت، عہد کی پابندی، اسراف و تبذیر کی حرمت اور علم کے حصول کی اہمیت پر دیا جاتا تو جو لوگ آج مسلمان ترکاری یا میوہ فروشوں کو اپنے علاقے میں داخل ہونے نہیں دیتے، جو لوگ مسلمانوں کو اپنی کالونی میں فلیٹ لینے نہیں دیتے، وہی لوگ مسلمانوں کو آگے بڑھ کر گلے لگاتے۔
فی الحال، اگر لوگوں کے ذہن بدلنے ہیں تو سب سے پہلے ان مولویوں، ملّاؤں ، ذاکروں اور واعظوں کے لفافے بند کیجئے جو اسلام کے بجائے مسلکوں اور اپنے خودساختہ عقیدوں کا پرچار کررہے ہیں۔ عوام کو جلسوں میں لانے کے لئے فلم ایکٹروں کی طرح کی اسٹیج پر حرکتیں کرتے ہیں۔ چیخنا، چلّانا، عجیب عجیب منہ بنانا، عوام سے داد لینے کی ترکیبیں اپنانا، اپنے ناموں کے آگے مقدس القابات لگالینا، مخالف الرائے علما کو مباہلہ Debate کا چیلنج کرنا، بڑی بڑی ٹوپیاں، رنگ برنگے عمامے پہن کر رعب جمانا، نعرے پکارنے والوں کو معاوضہ دے کر لانا، یہ تمام ہتھکنڈے جو جاہل عوام کو متاثر کرنے کے لئے آج کل استعمال کئے جارہے ہیں، جاہل عوام کو ان سے روکا نہیں جاسکتا، لیکن جو لوگ ایسے واعظوں کو لفافے پیش کرتے ہیں اور ایسے جلسوں پر خرچ کرتے ہیں کم سے کم وہ لوگ اپنی آخرت کا خوف کریں، ان کو تو سمجھایا جاسکتا ہے۔ جو بھی عالم یا واعظ دیوبندیت، بریلویت، شیعیت یا سنّیت، حنفیت یا سلفیت پر بولے اور دوسروں پر تنقید کرے ایسے علما، مولویوں اور ملاوں کے جلسوں پر مکمل روک لگانا ضروری ہے۔ اسی سے شائد ماحول بدلے۔ یہ لوگ برہمنوں کی طرح اپنے عالم یا مفتی یا مشائخ یا سجّادے ہونے کا فائدہ اٹھا رہے ہیں اور امت کی حقیقی اسلام سے روز بروز دور کررہے ہیں۔ اپنی کروڑوں کی دولت چھپانے انہیں مجبورا فاشسٹوں کا ساتھ دینا پڑتا ہے۔ اگر وہ فاشسٹوں کا ساتھ نہ دیں، تو کب چدمبرم کے گھر پر ED کے Raid کی طرح ان کے گھر پر دھاوا ہوجائے انہیں یہ خوف ہوتا ہے۔ اس لئے یہ اپنی دولت بچانے امت مسلمہ کی عزت و آبرو کو داؤ پر لگادیتے ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں