- محمود غازی (فاضل جامعہ ازہر)ڈائریکٹر جامعہ حضرت نظام الدین اولیا
ریاستی اور ملکی حکومت کے ذریعہ بروقت نہ کئے گئے اقدامات سے عوام بے حال
پوری دنیا میں اب تک 12 لاکھ سے زیادہ افراد کورونا وائرس سے متاثر ہوچکے ہیں۔ اور تقریباً 65 ہزار سے زیادہ لوگوں کی موت ہوچکی ہے۔ پوری دنیا میں موت اور ماتم برپا کرچکا یہ وائرس اب ہندوستان کے لئے بہت بڑا خطرہ بنتا جارہا ہے۔
اس قہر سے نپٹنے کے لئے حکومت کتنی تیار تھی اس کا اندازہ آگے بیان کرونگا۔ اب تک لئے گے فیصلوں سے تو یہی اندازہ لگایا جارہا ہے کہ تمام حقائق پیش نظر ہونے کے باوجود ایسا پیش کیا گیا جیسے ہندوستان اس وائرس سے مکمل طور پر محفوظ ہے۔بڑے بڑے سیاستدان، فلم ایکٹر اور سماجی کارکنوں سے یہ کہلوایا گیا کہ سب اچھا چل رہا ہے کسی کو گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ آئیے کچھ حقائق کے آئینے سے پوری دنیا کی حالت کو دیکھتے ہیں۔اور جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ دنیا کے چند ترقی یافتہ ممالک اور ہندوستان اس وائرس کے لئے کتنا تیار تھے۔
(1)- اس وقت پوری دنیا میں سب سے زیادہ کیسیز امریکہ میں ہیں۔ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے سب سے زیادہ بے توجہی اور لاپرواہی دیکھنے کو ملی۔ 19 مارچ تک ٹرمپ نے 6 بار اپنے بیانات تبدیل کئے۔ کبھی انھوں نے کہا ( We have it totally under control. It's one person coming in from China, and we have it under control. It's going to be just fine. ) سبھی چیزیں مکمل طور پر قابو میں ہے۔صرف ایک شخص جو چین سے آیا تھا اب ہمارے کنٹرول میں ہے۔ باقی سب ٹھیک ہے۔ اس کے بعد بھی کئ بار ان کے ذریعہ اسی قسم کے بیانات لگاتار آتے رہے کہ سب کچھ اطمینان بخش ہے۔ اس میں اگے انھوں نے کہا کہ یہ وائرس اتنا خطرناک نہیں، اور ہم مکمل طور سے تیار ہیں۔ ہمارے پاس اس کے ٹسٹ کے ذرائع موجود ہیں اور کچھ دنوں میں یہ وائرس خدبخد مرجائے گا۔ 22 جنوری کو امریکہ میں پہلا مریض ملا اور 30 جنوری کو انھوں نے کہا ہمارے ملک کے لئے یہ بہت چھوٹی پریشانی ہے۔ اور 30 جنوری کو ہی WHO نے ورلڈ ہیلتھ ایمرجنسی کا اعلان کیا۔ اس کے بعد بھی کئ قسم کے غیر ذمہ دارانہ بیانات دیتے رہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس سے بچاؤ کے اقدامات کئے جاتے اور اسے حقیقت کی نظر سے دیکھتے ہوئے عوام کی حفاظت کے لئے اسباب تیار کئے جاتے۔اج کسی عالم یا مفتی کے ذریعہ اس طرح کی باتیں اگر کی جائیں تو دینا اسے اندبھکتی اور مذہب پرستی کہے گی اور جو باتیں سب سے طاقتور ملک کے صدر کے ذریعہ کی گئ وہ کیا تھی ؟ اورامریکہ میں جس تیزی کے ساتھ یہ وائرس پھیلا تو وہاں کونسا تبلیغی جماعت تھا ؟ وہاں کیوں یہ وباء اتنی تیزی سے پھیلی؟
(2) انگلینڈ کے وزیراعظم بورس جانسن جو خد اس وائرس کے زد میں اچکے ہیں جنہوں نے اپنے جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے حکومتی سرگرمیوں کو بدستور جاری رکھا اور اس کے زد میں آگئے ۔ یورپ کے طاقتور ملک میں شمار انگلینڈ اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد کم کرنے میں ناکام ہو رہا ہے تو اس میں کونسی مذہبی اجتماعات ذمہ درا ہے ؟
(3)- چین کے ڈاکٹر لی جس نے اپنے دوستوں کو چیٹ کے ذریعہ یہ بتا دیا تھا کہ یہ ایک نئے قسم کا وائرس ہے اور ہمیں اس سے نپٹنے کے لئے تیار رہنا ہوگا۔ کسے نے اس پر توجہ نہیں دیا اور اس ڈاکٹر کی اس وائرس سےموت ہوگئی ۔ اس کی موت کے بعد چین کو ہوش آیا ۔ 23 جنوری کو وہان کو بند کیا گیا۔ (The guardian) اپنی طاقت و قوت کی بنیاد پر چین دنیا کے ہر شعبے میں دوسرے ممالک سے آگے ہے، اس کے باوجود وائرس نے صرف وہان شہر کے 80 ہزار افراد کو متاثر کیا اور ہزاروں جانیں گئ، جہاں کسی بھی مذہبی رسومات و شعائر کی ترویج و اشاعت حکومت کی اجازت کے بغیر ممکن نہیں اس ملک میں کیوں یہ وباء کو نہ روکا جاسکا؟
(4)- اب ہندوستان کے ذریعہ کئے گئے اقدامات پر نظر ڈالتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ہماری حکومت اس وباء سے لڑنے کے لئے کیتنی اور کب سے تیار تھی۔ اپوزیشن نے 12 فروری کو ہی کہ دیا تھا کہ "یہ بہت بڑا خطرہ ہمارے ملک کے لئے ہو سکتا ہے جس کا اثر ملک کے غرباء پر اور معیشت پر ہوگا ہمیں اس کے لئے وقت رہتے تیاری کر لینی چاہیے" مگر حکومت نے اس طرف کچھ بھی توجہ نہیں دیا اور 31 جنوری سے 23 مارچ تک پارلیمانی اجلاس جاری رہا اس سے ہی بے توجہی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے اور تمام عملاء اور سیاستداں شرکت کرتے رہے، اس وقت تک کرونا خطرہ نہی تھا اور اس درمیان پارلیمنٹ میں کورونا سے متعلق 50 سوالات بھی کئے گئے مگر حکومت کے ذریعہ کسی کا بھی اطمینان بخش جواب نہی دیا گیا، جواب کہاں سے آتا جب تیاری ہی شروع نہی ہوئ تھی۔ یہ بات بھی یاد رہے کہ ہندوستان میں پہلا معاملہ 30 جنوری کو ہوچکا تھا۔اور پارلیمنٹ مین کہا جارہا ہے کہ 15منٹ سورج میں بیٹھنے سے کورونا کے اثرات ختم ہو جایں گے تو کچھ لوگوں نے گائے کے پیشاب کو اس کا علاج بتایا جسے پینے کی بعد سیکڑوں لوگ بیمار ہوگے۔ 18 مارچ کو مختار عباس نقوی پارلیمنٹ میں کہ رہے تھے کہ اس وائرس کا خوف پھیلانا ملکی مفاد کے خلاف ہو سکتا ہے، اور حکومت کچھ نہ کرے تب بھی ملک کے لئے فائدہ ہے اور حکومت کے بڑے نیتا اس سے بےخبر رہیں اور پارٹیوں میں شرکت کریں ۔ 13 مارچ کو حکومت دہلی کے بیان کردہ احکامات میں مذہبی اجتماعات پر پابندی نہیں تھی۔ 20 مارچ کو حکومت کو ہوش تب آیا جب ایک گلوکارہ کی محفل میں کچھ سیاستداں شریک ہوئے اور وہ گلوکارہ کورونا متاثر نکلی اور ان سیاستدانوں نے پارلیمنٹ میں شرکت بھی کرلی۔ یہ وہ وقت تھا جب حکومت کو احساس ہوا اور یہ احساس اتنی تاخیر سے ہوا کہ اب صرف خود کے دامن کو بچانے کے علاؤہ کوئی اور صورت ہی نہی بچی تھی۔ 130 کروڑ کی ابادی والے میں اگر آج کے دور کی حکومت اس قدر بے خیالی میں ہے تو بتانے کی ضرورت نہیں اس ملک کا مستقبل کیا ہوگا۔ اور یہ حالت صرف ہندوستان کی حکومت کا نہیں بلکہ پوری دنیا کی حکومتوں نے اس وائرس کو اتنا خطرناک اور اتنی تیزی سے پھیلنے والا نہیں مانا تھا پر فرق صرف اتنا ہے کہ ان ممالک کی ابادی اتنی زیادہ نہیں اور انکے پاس اسباب تیار کرنے کے لئے افراد ہیں پر ہمارے ملک میں افراد زیادہ اور اسباب بہت کم۔ دنیا کی حکومتوں کے ساتھ ساتھ WHO نے بھی اسے مہاماری ماننے اور اعلان کرنے میں ایک ماہ کا وقت لگایا تب تک یہ وباء دنیا کے مختلف ممالک تک پہنچ چکا تھا۔
دہلی مرکز کا معاملہ بہت بعد کا ہے اور میں یہاں یہ بات واضح کردوں کہ اس میں مرکز کی لاپرواہی ہے جب دنیا کے مختلف ممالک اس وائرس سے متاثر ہو چکے تھے تب انھیں اپنے تمام اجتماعات ملتوی کر دینے تھے۔ مگر جب ہماری حکومت ہی اسے خطرہ نہیں تصور کر رہی تھی تو عوام اسے کہاں سے خطرہ مانتی۔ اب اپنی ناکامی کا سارا ذمہ مرکز پر ڈال کر بری ہونا ہی سب سے آسان راستہ تھا۔ دہلی پولس جو کہ مرکز کے سب سے قریب ہے یہ کیسے ممکن کہ وہاں اتنے افراد موجود ہوں اور پولس کو کوئ خبر نا ہو۔ حکومتں عوام کے لئے ہوتی ہیں، ایسے ہی مشکل وقتوں میں اپکی قابلیت اور دوراندیشی کا پتہ لگتا ہے اور بغیر سوجھ بوجھ کے جلد بازی میں کئے گئے فیصلوں سے ملک کے غریب اور عام لوگوں پر اس کا اثر سب سے زیادہ ہوتا ہے اور اس مرتبہ بھی یہی ہوا۔ ملک میں کورونا صرف تبلیغی مرکز سے نہیں پھیلا بلکہ حکومت کی لاپرواہی اور وقت پر صحیح اقدامات نا کیا جانا بھی ایک اہم وجہ ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں