از قلم: انعام الرحمن اعظمی خادم دارالعلوم تحفیظ القرآن سکھٹی مبارک پور
جیسا کہ ہم سب اس بات کا مشاہدہ کر رہے ہیں کہ آج پوری عالم انسانیت خوف و ہراس کے مابین اپنی شب و روز کی زندگی گزر بسر کررہی ہے اور وہ خوف وہراس کسی ذات یا کسی شخص کا نہیں بلکہ ایک نہ نظر آنے والے جرثومہ کا ہے، جس کو ہم اور آپ "کرونا وائرس" کے نام سے جانتے ہیں، اور اسی کرونا وائرس کے آگے پوری عالم انسانیت لاچار و بے بس نظر آرہی ہے، اس وبائی بیماری نے اپنی آغوش میں چین جیسے طاقت ور ملک کو سب سے پہلے لیا، اس کے بعد دیگر ممالک کو بھی اپنی گرفت میں لینا شروع کیا جن میں سرفہرست ممالک ، امریکہ، اٹلی، ایران ہیں، اس کے بعد اس وبا نے دوسرے ممالک کا سفر کرتے ہوئے ہمارے پیارے ملک انڈیا کو بھی آپنی گرفت میں لے لیا ہے۔آخر اس وبائی بیماری کی ابتداء کہاں سے اور کیسے ہوئی یہ بھی اپنے آپ میں ایک سوال ہے؟
بہر حال اس کی شروعات جیسے بھی ہوئی ہو لیکن اس وبائی بیماری نے پوری عالم انسانیت کے اوپر ایک سکتہ طاری کردیا ہے اور ہر شخص کو اپنے گھروں میں قید ہونے پر مجبور کر دیا۔یہاں پر ایک بات عرض کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ ہمارا ایمان اس بات پر ہے کہ بیماری و شفاء اللہ کے قبضہ قدرت میں ہے لیکن جب کوئی بیماری یا وبا عالمی پیمانہ پر اثرانداز ہوجاتی ہے اور لاکھ کوششوں اور تدبیروں کے بعد بھی اس پر کنٹرول نہیں ہوتا تو ہر شخص یہ کہنے پر مجبور ہوتا ہے یہ قہر الٰہی اور عذاب خداوندی ہی ہے، بالکل وہی صورت حال اس وبائی بیماری (کرونا وائرس) کی بھی ہے، جو دن بدن لوگوں کو اپنا شکار بناتی جارہی ہے اور عالم انسانیت کے حکمران اس کے سامنے بے بس نظر آرہے ہیں۔لیکن اگر ایک طرف کچھ لوگ اس بیماری کے اسباب کچھ اور تلاش رہے ہیں تو دوسری طرف ذہن اس بات کا بھی اعتراف کرنے پر مجبور ہے کہ جب جب حکمرانوں نے اللہ کی مخلوق پر ظلم و ستم کا بازار گرم کیا،اور معاشرے میں برائی و بے حیائی، عروج پر پہنچ گئی تو اس وقت اللہ نے اپنے غیظ وغضب کا اظہار کیا۔
اس سلسلے میں ایک نہیں ماضی میں کئی زندہ وجاوید مثالیں موجود ہیں، جیسے فرعون نے بنی اسرائیل پر ہر طرح کا ظلم و ستم کیا لیکن انھون نے سب کچھ برداشت کیا، آخر کار فرعون کو اللہ نے غرق کر دیا، قوم لوط کے اندر بے حیائی عام تھی، اللہ نے تمام تر طاقت کے باوجود ہلاک و برباد کردیا،اور موجودہ صورتِ حال کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ہر طرف ظلم و ستم، برائی و بے حیائی، فحاشی اور عریانیت کا دور دورہ ہے، اور ہم مختصر سی زندگی میں شہرت اور عزت کمانے کے لئے سب کچھ کرنے کو تیار ہیں، ایک دوسرے پر ظلم و زیاتی، اور نہ جانے کون کون سی حرکتیں کرتے ہیں جس کو دیکھ کر عالم انسانیت شرمسار ہوجاتی ہے،جب کہ اللہ تعالٰی نے قرآن میں فرمایا (قل متاع الدنيا قليل والآخرة خير لمن اتقى)دنیاوی زندگی بہت مختصر ہے، اصل زندگی تو آخرت کی زندگی ہے۔
لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آج تک جتنے بھی انسان آۓ سب کو اللہ نے امتحان میں ڈالا، اور جب جب اللہ نے عالم انسانیت کو ابتلاء و آزمائش میں ڈالا بغیر کسی مرد زن، ذات پات، مسلک ومذہب، قوم برادری اونچ نیچ کے تفریق کئے بغیر ڈالا اور ہر شخص کو اس ابتلاء و آزمائش کا سامنا کرنا پڑا، بالکل یہی صورتِ حال اس کرونا وائرس کی بھی ہے، اس نے بھی کسی قوم، مذہب، برادری اور نہ مرد و زن کو منتخب کیا بلکہ ہر شخص کو بلا تفریق اپنا نشانہ بنایا اور کتنوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا، بڑی سے بڑی طاقتیں آنسو بہانے پر مجبور ہوگئیں اور تقریباً 200/ملکوں کے حکمران اس پھیلی ہوئی وبا کو ختم کرنے کے لئے ایک پلیٹ فارم آگئے اور تمام تر تدابیر استعمال کرنے بعد اللہ رب العزت کے سامنے اپنی عاجزی و بے بسی اظہار کررہی دیا۔
لیکن کسی نے اس کو مذہب و مسلک اور ذات پات اور دھرم کا لبادہ نہیں پہنایا بلکہ اس کو سب نے عالمی وبا قرار دے کر اس کے خلاف عالمی پیمانہ پر اس کے ازالے کی ہر ممکن کوششیں کیں اور کررہے ہیں، لیکن افسوس اس وقت ہوا جب کہ ہمارے پیارے ملک انڈیا میں کچھ شدت پسند میڈیا نے اس کو مذہب کی عینک سے دیکھنا شروع کردیا اور اس مہاماری کا ذمہ دار ایک خاص طبقہ کو ٹہرا کر اپنی روزی روٹی کا سامان تیار کرلیا، ان شدت پسندوں کو اس بات کی فکر نہیں پیدا ہوئی کہ آخر وقفہ وقفہ سے اس طرح کے حالات عالم انسانیت پر کیوں آتے ہیں؟ آخر ان حالات کے اسباب کیا ہیں؟ لیکن جب ہم ان سوالوں کے جواب کی تہ تک جاتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے کلام اور آپﷺ کے فرمودات میں تلاش کیا جاتاہے تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ اللہ نے جو امانتیں ہمارے حوالے کی ہیں اس امانت کو مکمل طور ہم بجا نہیں لارہے ہیں۔
اس سلسلے میں سب سے پہلے آپ ﷺ نے جو علامات قیامت کی عمومی نشانی بتائی ہے اس کو قلم بند کرنے کی کوشش کرتا ہوں اس کے بعد اس حدیث کو واضح کرنے کیلیۓ کلام اللہ کی آیت سے استدلال کرنے کی کوشش کرونگا۔آپﷺنے ایک مرتبہ ارشاد فرمایا( حدیث کے الفاط)"عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ قال: بینما النبی ﷺ یحدث اذ جاء اعرابی فقال: متی الساعۃ؟ قال اذا ضیعت الأمانۃ فانتظر الساعۃ، قال کیف اضاعتہا؟ قال: اذا وسد الامر الی غیر اھلہ فانتظر الساعۃ" (رواہ البخاری)حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ بیٹھے ارشاد فرما رہے تھے، کہ ایک اعرابی (بدوی) آیا اور اس نے آپ ﷺ سے پوچھا کہ قیامت کب آئے گی؟ آپﷺ نے فرمایا کہ جب ( وہ وقت آجائے کہ) امانت ضائع کی جانے لگے تو اس وقت قیامت کا انتظار کرو، اس اعرابی نے عرض کیا کہ امانت کیسے ضائع کی جاۓ گی؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب معاملات نااہلوں کے سپرد کۓ جانے لگیں گے تو انتظار کرو قیامت کا-(صحیح بخاری) اب یہاں ایک بات واضح کرنا ہے کہ امانت کا مفہوم کیا ہے؟ ہم سمجھتے ہیں امانت وہ ہے جو کسی کے وہاں رکھ دی جاۓ اور وقت مقررہ آجائے تو اس امانت کو لے لیا جائے یا جس کی امانت رکھی ہو اس کو واپس کردیا جائے۔
اس سے زیادہ ہم امانت کے مفہوم سے واقف نہیں ہیں، ہم نے امانت کے مفہوم کو یہیں تک محدود کرکے رکھ دیا ہے۔
لیکن جب ہم قرآن و حدیث کی زبانی اس کا مفہوم جاننے کی کوشش کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ امانت کا مفہوم بہت وسیع ہے، اور اپنے اندر عظمت و اہمیت بھی لیۓ ہوۓ ہے، ہر عظیم اور ہم ذمہ داری کو " امانت" سے تعبیر کیا جاسکتا ہے، امانت کے مفہوم کی وسعت و عظمت کو سمجھنے کیلئے آخر سورہ احزاب کی آیت{انا عرضنا الامانۃ علی السموت والارض والجبال}الی آخرالایہ پر غور کر لیا جائے۔
حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث میں امانت کے ضائع کئے جانے کی وضاحت خود آپﷺ نے فرمائی ہے کہ ذمہ داریاں ایسے لوگوں کو سپرد کی جائیں جو ان کے اہل نہ ہوں، اس میں درجہ بدرجہ ہر طرح کی ذمہ داری شامل ہے، حکومت، حکومتی منصب اور عہدے، حکومتی اختیارات، اسی طرح دینی قیادت و امانت، ملی قیادت و امانت، افتاء و قضاء ، اوقاف کی تولیت اور ان کے انتظام و انصرام وغیرہ کی ذمہ داری، اسی طرح کی جو بھی چھوٹی یا بڑی ذمہ داری نااہلوں کے سپرد کی جاۓ گی تو یہ امانت کے ضیاع ہے اور( اجتماعی زندگی کی شدید معصیت ہے)جس کی رسول ﷺ نے قرب قیامت کی نشانی بتلائی ہے، اس حدیث میں آنحضرت ﷺ کا جو ارشاد ہے اگرچہ وہ ایک اعرابی سائل کے جواب میں ہے لیکن عام امتیوں کیلئے اس کا یہ پیغام اور سبق ہے کہ امانت کی حفاظت کی اہمیت کو محسوس کرو، اس کا حق ادا کرو، ہر درجہ کی ہر نوع کی ذمہ داری ان افراد کے سپرد کرو جو ان کے اہل ہوں۔
اس کے خلاف کروگے تو امانت کے ضیاع کے مجرم ہوگے، اور خدا کے سامنے اس کی جواب دہی ہوگی_اب ہم آیت و حدیث دونوں کی روشنی میں دنیا بھر کے حکمرانوں کا جائزہ لے لیں کہ کون سا حکمراں اپنے عہدے اور منصب کے اہل ہیں اور کون نااہل ہیں؟اسلئے اب ان حالات میں سواۓ ایک در کے علاوہ کوئی در ہمیں اس وبائی بیماری سے بچا نہیں سکتا، اور وہ در صرف اور صرف اللہ ربّ العالمین کا دربار عالی ہے، اسلئے ہمیں چاہیے کہ ہم سب اب سے اپنی گزری ہوئی زندگی کا احتساب کرت ھوۓ اللہ کی طرف رجوع ہوں اور اب سے ایک نئی زندگی کی شروعات کریں، اللہ کی دی ہوئی امانت کو بخوبی انجام دینے کی کوشش کریں چاہیے وہ کسی بھی قبیل سے ہو،اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ عالم انسانیت کی اس مہاماری سے حفاظت فرمائے اور ظالموں کے ظلم سے پورے عالم کی حفاظت فرمائے آمین۔
اس سے زیادہ ہم امانت کے مفہوم سے واقف نہیں ہیں، ہم نے امانت کے مفہوم کو یہیں تک محدود کرکے رکھ دیا ہے۔
لیکن جب ہم قرآن و حدیث کی زبانی اس کا مفہوم جاننے کی کوشش کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ امانت کا مفہوم بہت وسیع ہے، اور اپنے اندر عظمت و اہمیت بھی لیۓ ہوۓ ہے، ہر عظیم اور ہم ذمہ داری کو " امانت" سے تعبیر کیا جاسکتا ہے، امانت کے مفہوم کی وسعت و عظمت کو سمجھنے کیلئے آخر سورہ احزاب کی آیت{انا عرضنا الامانۃ علی السموت والارض والجبال}الی آخرالایہ پر غور کر لیا جائے۔
حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث میں امانت کے ضائع کئے جانے کی وضاحت خود آپﷺ نے فرمائی ہے کہ ذمہ داریاں ایسے لوگوں کو سپرد کی جائیں جو ان کے اہل نہ ہوں، اس میں درجہ بدرجہ ہر طرح کی ذمہ داری شامل ہے، حکومت، حکومتی منصب اور عہدے، حکومتی اختیارات، اسی طرح دینی قیادت و امانت، ملی قیادت و امانت، افتاء و قضاء ، اوقاف کی تولیت اور ان کے انتظام و انصرام وغیرہ کی ذمہ داری، اسی طرح کی جو بھی چھوٹی یا بڑی ذمہ داری نااہلوں کے سپرد کی جاۓ گی تو یہ امانت کے ضیاع ہے اور( اجتماعی زندگی کی شدید معصیت ہے)جس کی رسول ﷺ نے قرب قیامت کی نشانی بتلائی ہے، اس حدیث میں آنحضرت ﷺ کا جو ارشاد ہے اگرچہ وہ ایک اعرابی سائل کے جواب میں ہے لیکن عام امتیوں کیلئے اس کا یہ پیغام اور سبق ہے کہ امانت کی حفاظت کی اہمیت کو محسوس کرو، اس کا حق ادا کرو، ہر درجہ کی ہر نوع کی ذمہ داری ان افراد کے سپرد کرو جو ان کے اہل ہوں۔
اس کے خلاف کروگے تو امانت کے ضیاع کے مجرم ہوگے، اور خدا کے سامنے اس کی جواب دہی ہوگی_اب ہم آیت و حدیث دونوں کی روشنی میں دنیا بھر کے حکمرانوں کا جائزہ لے لیں کہ کون سا حکمراں اپنے عہدے اور منصب کے اہل ہیں اور کون نااہل ہیں؟اسلئے اب ان حالات میں سواۓ ایک در کے علاوہ کوئی در ہمیں اس وبائی بیماری سے بچا نہیں سکتا، اور وہ در صرف اور صرف اللہ ربّ العالمین کا دربار عالی ہے، اسلئے ہمیں چاہیے کہ ہم سب اب سے اپنی گزری ہوئی زندگی کا احتساب کرت ھوۓ اللہ کی طرف رجوع ہوں اور اب سے ایک نئی زندگی کی شروعات کریں، اللہ کی دی ہوئی امانت کو بخوبی انجام دینے کی کوشش کریں چاہیے وہ کسی بھی قبیل سے ہو،اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ عالم انسانیت کی اس مہاماری سے حفاظت فرمائے اور ظالموں کے ظلم سے پورے عالم کی حفاظت فرمائے آمین۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں