سری نگر(یواین اے نیوز3مارچ2020)جموں کشمیر کی گورنر انتظامیہ نے پیر کو سپریم کورٹ میں ایک حلفیہ بیان داخل کیا ہے ، جس میں سابق وزیر اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے لیڈر عمر عبداللہ، جو گزشتہ سات ماہ سے قید ہیں، کی مسلسل نظربندی کو جائز ٹھہرایا گیا ہے۔ جسٹس ارون مشرا اور اندرا بنرجی پر مشتمل عدالت کے۲؍ رکنی بنچ میں پیر کو عمر کی حراست کے خلاف دائر کیس کی شنوائی ہوئی۔ یہ کیس عمر عبداللہ کی بہن سارا عبداللہ نے دائر کیا ہے۔ سارا عبداللہ راجستھان کے نائب وزیر اعلیٰ اور کانگریس لیڈر سچن پائلٹ کی اہلیہ ہیں۔ عدالت نے اس کیس میں جموںکشمیر حکومت سے جواب طلب کیا تھا۔ گورنر انتظامیہ کی جانب سے سالیسیٹر جنرل تُشار مہتا نے عدالت میں ایک حلفیہ بیان پیش کیا، جس میں کہا گیا ہے کہ عمر عبداللہ کو مسلسل حراست میں رکھنے کا جواز ہے کیونکہ وہ ’امن عامہ کیلئے مسلسل ایک خطرہ ‘ ہیں۔ اس بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ماضی کے واقعات سے متعلق اس لیڈر کا ’موجودہ اور قریبی تعلق ‘ بھی انہیں حراست میں رکھنے کا جواز فراہم کرتا ہے۔ حلف نامے کے مطابق عمر عبداللہ گزشتہ سال۵؍ اگست یعنی ،فعہ۳۷۰ ؍کے خاتمے سے پہلے ہی اس مجوزہ امکان پر بھرپور تنقید کرتے تھے۔ اس کے علاوہ سالیسیٹر جنرل نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ ’’جغرافیائی لحاظ سے پاکستان اور جموں کشمیر کی قربت بھی (عمر کی مسلسل نظر بندی کا)ایک فیکٹر ہے۔‘‘ عدالت عظمیٰ نے اس کیس کی اگلی شنوائی کیلئے ۵؍ مارچ کی تاریخ طے کی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ گزشتہ سال ۵؍ اگست کو پارلیمنٹ میں جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت اور اس کا ریاست کا درجہ ختم کرنے سے متعلق بل پاس ہوجانے کے ایک دن پہلے ہی وادی میں سیاسی ، سماجی اور تجارتی شعبوں کے لیڈروںکو حراست میں لینے کے ساتھ ساتھ وسیع پیمانے پر گرفتاریاں عمل میں لائی گئی تھیں۔ اِس وقت دیگر سیکڑوں افراد کے ساتھ ساتھ ریاست کے تین سابق وزرائے اعلیٰ فاروق عبداللہ ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی بھی پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت بند ہیں۔ابتدا میں۴۹؍ سالہ عمر عبداللہ ، جو اٹل بہاری واجپائی کی سربراہی والی این ڈی اے سرکار میں وزیر مملکت برائے خارجہ امور بھی رہے ہیں،کو امن و قانون کیلئے ایک خطرہ قرار دے کر حفظ ماتقدم کے طورآئین ہند کی فوجداری دفعات ۱۰۷؍ اور۱۵۱؍کے تحت نظر رکھا گیا تھا لیکن ۴؍ فروری کو ان پر پبلک سیفٹی ایکٹ نافذ کیا گیا۔
اس قانون کے تحت انہیں عدالت میں پیش کئے بغیر دو سال تک کیلئے حراست میںرکھا جاسکتا ہے۔اُنہیں پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت بند رکھنے سےمتعلق فرد جرم میں اُن پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ’ ’سیاست کی آڑ میں حکومت ہند کے خلاف سرگرمیوں کی منصوبہ بندی کرتے رہے ہیںاور اپنی عوامی مقبولیت کی بنا پر انہوں نے کامیابی کے ساتھ اس طرح کی سرگرمیاں انجام دی ہیں۔ وہ اپنی شدت پسندانہ نظریات کو چھپانے اور مرکزی سرکار کے خلاف سرگرمیوں کی منصوبہ بندی کرنے کیلئے سیاست کا استعمال کرتے تھے۔‘‘دریں اثنا عدالت عظمیٰ نے پیر کوآئین ہند کی دفعہ ۳۷۰؍کو ختم کرنے سے متعلق کیس کو۷؍ رکنی بنچ کو منتقل کرنے سے انکار کردیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ اس کیس کی شنوائی جسٹس این وی رامنا کی سربراہی میں ترتیب دیئے گئے ۵؍ رکنی بنچ کے پاس ہی ہوگی ۔در اصل رضاکار تنظیم پیپلز یونین آف سول لبرٹیز ، جموں کشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور کئی دیگر گروپوں اور افراد نے دفعہ ۳۷۰ ؍کو ختم کرنے کے مرکز کے یکطرفہ فیصلے کو چیلنج کیا ہے۔ اس ضمن میں سپریم کورٹ میں درجن بھررٹ پٹیشن دائر کئے گئے ہیں۔
زوزنامہ انقلاب

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں