تازہ ترین

بدھ، 4 مارچ، 2020

جدید ہندوستان کے لئے مولانا آزاد کی بصیرت

 ڈاکٹر معراج احمد معراج، اسسٹنٹ پروفیسر،شعبہئ عربی،عالیہ یونیورسٹی، کولکتہ
مولانا ابو الکلام آزاد ایک ہمہ رخی شخصیت کے مالک تھے۔ وہ ایک بہادر مجاہد آزادی،ہندو- مسلم اتحادکے علمبرداراور جدید ہندوستان کے معماروں میں سے ایک عظیم رہنماتھے۔انہیں تاریخِ ہند میں صرف اس لئے یاد نہیں رکھا جائے گا کہ انہوں نے جدوجہد آزادی میں اہم رول ادا کیا بلکہ اس لئے بھی کہ وہ آزاد ہندوستان کے اولین وزیر تعلیم تھے۔ اس حیثیت سے انہوں نے تعلیم کے شعبہ میں بیش بہا خدمات کے ذریعہ انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ ان کاماننا تھا کہ ہندوستان کو ایک ترقی یافتہ ملک بنانے کا خواب اتحاد، یکجہتی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے ذریعہ ہی پورا ہو سکتا ہے۔مولانا آزاد بلاشبہ جدید سکیولر ہندوستان کے ایک عظیم معمار ہیں اور تاریخِ ہند میں ان کا ایک خاص مقام ہے۔روایتی اور جدید تعلیم دونوں کے بارے میں تخلیقی سوچ کے مالک مولانا آزاد نے جدید ہندوستان کے لئے ایسے تعلیمی پہلوؤں کی بنیاد رکھی جنہیں لافانی قرار دیا جاسکتا ہے۔یہ مقالہ اس سلسلہ کی ایک کوشش ہے کہ مولانا آزاد کی اس بصیرت اور نظریات کو کھوجا جائے جو جدید ہندوستان کی بنیاد رکھنے کے لئے ناگزیر تھے۔

اس مقالہ میں ان کی ان پالیسیوں اور اصولوں پر بھی روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے جو ان کی تحریروں اور تقریروں میں پائے جاتے ہیں۔ان کا مقصد ہندوستان کو پوری ذہانت اورسائنسی ترقیات میں دنیا کا مرکز بنانا تھا۔مولانا آزاد، جدیدہندوستان، سکیولرزم،حب الوطنی، ہندو- مسلم اتحاد یہ سب ایک معنی رکھتے ہیں۔مولانا آزاد ان محدود شخصیتوں میں سے ایک ہیں جو بیک وقت ایک قابل عالم،فلسفی اور سیاستدان تھے جو ہمارے ملک کو ایک تحفہ کے طور پر ملے ہیں۔ہماری تحریکِ آزادی میں ان کا رول بے حد خاص رہا۔ وہ بلاشبہ ایک بہترین عالم، عظیم صحافی، لاثانی مقررکے ساتھ ساتھ ایک ایسے عظیم سیاست دان بھی تھے جنہوں نے ملک کو آزاد بنانے کی راہ میں آئے ہر بحران میں ایک ذمہ دارانہ رول نبھایا۔جدوجہد آزادی کے دوران اور اس کے فوری بعد کے برسوں میں وہ ملک کی بے حد اہم فیصلہ سازیوں کے عمل میں شریک رہے۔مولانا آزاد ایک مہم جو تھے۔

ان کی زندگی کی سب سے بڑی مہم یقینا ہندو- مسلم اتحاد اور ملک کی یکجہتی سے متعلق تھی۔انہوں نے ملک کی تقسیم کی شدید مخالفت کی۔ ان کی مہم قومی یکجہتی اور ملک کے اتحاد کے لئے تھی۔وہ ایک سچے محبِ وطن تھے اوراپنے لڑکپن کے زمانے ہی سے استعماری سیاست کے سخت مخالف تھے۔خلافت تحریک اور تحریکِ عدم تعاون کے پیش نظروہ انڈین نیشنل کانگریس(آئی این سی) میں شامل ہوئے اور 1923 ء میں اس کے خصوصی اجلاس کی صدارت بھی کی۔گذرتے برسوں کے ساتھ مسلمانوں کے اندر حمایت میں کمی آنے کے باوجود وہ گاندھی اور نہرو کے ساتھ ہی رہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad