تازہ ترین

ہفتہ، 14 مارچ، 2020

دہلی فسادزدگان کے ساتھ مرکزی حکومت و دہلی پولیس ظالمانہ سلسلے بند کرے

نئی دہلی(یواین اے نیوز 14مارچ2020)زمینی خبروں کے مطابق، 2600 سے زائد لوگوں کو شمال مشرقی دہلی فسادات میں ملوث ہونے کے الزام میں یا تو حراست میں لیا گیا ہے یا انہیں گرفتار کیا گیا ہے، ان میں سے بیشتر مسلم طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ فسادات کے دوران مارے گئے 53 افراد کی تفصیلات سرکاری طور پر جاری کی گئی ہیں، ان میں بھی اکثریت مسلمانوں ہی کی ہے۔ ایک اندازاے کے مطابق تقریباً  2500 کروڑ کی املاک کو تباہ ہو گئی ہے۔ کم از کم 19 مساجد اور 4 مدارس میں توڑ پھوڑ کی گئی ہے یا ان کی بے حرمتی کی گئی ہے۔ جن گھروں اور دکانوں کو لوٹا گیا اور برباد کیا گیا وہ بھی زیادہ تر مسلمانوں کے ہیں۔ فسادات کے دوران شو وہار جیسے مقامات سے نکالے گئے مسلمانوں کو ابھی بھی اپنے ٹوٹے پھوٹے گھروں میں جانے نہیں دیا جا رہا ہے۔

یہ سب کچھ مرکزی وزارت داخلہ کی براہ راست ماتحتی میں کام کرنے والی دہلی پولیس کے صرف کچھ نہ کرنے کی وجہ سے نہیں ہوا، بلکہ متعدد ویڈیو سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ تمام واقعات دہلی پولیس کی پہل اور شمولیت سے ہوئے ہیں۔ ایسے کئی ویڈیو ہیں جو یہ صاف دکھاتے ہیں کہ پولیس کے لوگ سی سی ٹی وی کیمروں کو توڑ رہے ہیں، تاکہ آگ زنی کرنے والوں اور فسادیوں کے چہرے اور حرکتیں ان میں نہ آنے پائیں۔ یہ بھی دیکھا گیا کہ پولیس کے لوگ شدید طور پر زخمی لوگوں کو گالیاں دے رہے ہیں اور ان سے قومی ترانہ گانے کے لئے کہہ رہے ہیں اور انہیں سی اے اے مخالف مظاہروں کے دوران ’آزادی‘ کے نعرے لگانے کی وجہ سے طعنے کس رہے ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں پتھر اور اینٹیں اٹھانے میں فسادیوں کی مدد کرتے ہوئے اور فسادیوں کے ساتھ پتھربازی کرتے ہوئے بھی دیکھا گیا وغیرہ۔

ایک رپورٹ کے مطابق، 22 سے 29 فروری کے درمیان پولیس کنٹرول روم میں خوف و ہراس کی تقریباً21000 فون کالیں آئیں، جن میں سے فسادات کے متعلق1300 کالیں صرف24   اور 25 تاریخ میں آئیں۔ لیکن ان میں سے بیشتر پر کوئی صحیح جواب نہیں ملا۔ پولیس اپنے فرائض کی انجام دہی میں اتنی لاپرواہ رہی کہ خود سپریم کورٹ کو یہ کہنا پڑا کہ اگر پولیس نے صحیح معنوں میں کام کیا ہوتا جیسا کہ ان سے قانون کہتا ہے اور لوگوں کو اشتعال انگیز تبصروں سے روکا ہوتا، تو تشدد کی چنگاری اس قدر نہ بھڑکتی اور کئی جانیں محفوظ ہو جاتیں۔ لیکن بدقسمتی سے، اپنے سیاسی آقاؤں اور مقامی فرقہ پرست غنڈوں کو خوش کرنے کے لئے، دہلی پولیس نے اس طریقے سے کام نہیں کیا جیسے ان سے قانون کہتا ہے۔ پولیس نے اپنے فرائض انجام نہ دے کر اور سنگھ پریوار کے ذریعہ مشتعل کی گئی بے قابو بھیڑ کے ساتھ مل کر اور بسااوقات بے قصور اور لاچار مسلمانوں پر حملے، قتل، آگ زنی اور تباہی میں خود بھی شامل ہو کر تشدد کو مزید بھڑکنے دیا۔ مظلوموں کی آہ و بکا پر انہوں نے کوئی خاص توجہ نہیں دی۔

حقائق پر پردہ ڈالنے کے لئے جو کہ پورے ملک حتیٰ کہ بین الاقوامی برادری کے سامنے کھلے ہوئے ہیں، وزیر داخلہ امت شاہ اور بی جے پی کے ارکان پارلیمنٹ نے پارلیمنٹ میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ فسادات پر  36 گھنٹے کے اندر قابو کر لیا گیا اور اس دوران حالات سدھر گئے تھے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ قومی راجدھانی میں جہاں 87000  سے زائد پولیس کی بھاری طاقت ہے اور اس کے علاوہ نیم فوجی دستوں کی کئی کمپنیاں رِزرو ہیں، 70 گھنٹوں سے زیادہ وقت تک اخباروں اور نیوز چینلوں کی سرخیوں کے بیچ یہ خوفناک واقعات ہوتے رہے۔ اگر ایسی کوتاہی کسی دوسرے جمہوری ملک میں ہوتی، تو وہاں کا وزیر داخلہ استعفیٰ دیتا اور اس میں ملوث پولیس افسران کو برخاست کیا جاتا۔

لیکن ہندوستان میں، جو کہ ایک اکثریتی فرقہ پرست فسطائی ملک میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے، تشدد کے اصل مجرموں کو عظیم محبّان وطن کا لقب دیا جاتا ہے، آر ایس ایس-بی جے پی کے کھلے مجرموں اور انہیں بڑھاوا دینے والے لیڈران کو آزاد چھوڑ دیا جاتا ہے، جبکہ اقلیتی طبقے کے مظلوموں، ان کے لیڈران اور جماعتوں کو بے رحمی کے ساتھ ایک کے بعد ایک ظلم سے گذارا جاتا ہے۔ بی جے پی کی حکمرانی والی ریاست اتر پردیش کی راہ پر چلتے ہوئے، مرکزی حکومت کی ماتحت دہلی پولیس مسلسل ان سماجی کارکنان اور جماعتوں کو نشانہ بنا رہی ہے، جو سی اے اے- این پی آر - این آر سی کے مظاہروں میں اور فسادات کے دوران اور بعد میں بے قصور متاثرین کی مدد کرنے میں پیش پیش رہے ہیں۔ دہلی پولیس آئے دن مسلم ناموں اور بیک گراؤنڈ والے لوگوں کو اپنی فہرست میں شامل کر رہی ہے اور انہیں فسادات میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کر رہی ہے۔

پاپولر فرنٹ دہلی کے صوبائی صدر پرویز احمد اور صوبائی سکریٹری محمد الیاس کو اس وقت گرفتار کر لیا گیا، جب وہ پولیس کی زیادتیوں کے خلاف مظاہرے کے انعقاد کی اطلاع دینے کے لئے تھانے پہنچے تھے۔ اس سے قبل پاپولر فرنٹ کے ایک اور ممبر دانش خان کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔ پاپولر فرنٹ کے صوبائی آفس سکریٹری عبدالمقیت کو بھی حراست میں لیا گیا ہے۔ مرکزی حکومت دہلی فسادات کے بعد بھی سیاسی فائدے کے لئے این آئی اے اور ای ڈی جیسی ایجنسیوں کا غلط استعمال کر رہی ہے۔ حسین کے خلاف منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ ایسے ہی مقدمات پاپولر فرنٹ کے خلاف بھی درج کئے گئے ہیں،حالانکہ تنظیم پہلے سے ہی ای ڈی کی تفتیش کا سامنا کر رہی ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ یونائیٹڈ اگینسٹ ہیٹ جیسی حقوق انسانی کی جماعتیں بھی حکومت کے ذریعہ تیار کی گئی لسٹ میں سرفہرست ہیں۔ 

درحقیقت نشانہ صرف کسی خاص فرد یا تنظیم پر نہیں ہے، بلکہ آر ایس ایس-بی جے پی کے سی اے اے - این پی آر - این آرسی کے ایجنڈے اور دہلی نسل کشی میں ان کے کردار کی مخالفت کرنے والی ہر آواز اور کوشش ان کے نشانے پر ہے۔ ان کا مقصد مخالفت کی ہر آواز کو خاموش کرنا اور ہر اقلیتی جماعت کو نہ صرف جمہوری حقوق کی ان کی لڑائی میں بلکہ ان کی راحت رسانی اور بازآبادکاری کی کوششوں میں بھی اپنی قوم کی خدمت سے روکنا ہے۔لہٰذا ہم تمام شہریوں اور جماعتوں سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ جمہوری اقدار اور ملک کے قانون کی اس کھلی خلاف ورزی کے خلاف اپنی آواز بلند کریں اور آر ایس ایس - بی جے پی کی فرقہ پرست فسطائی سیاست کے خلاف ہماری مشترکہ مزاحمت کو مضبوطی دیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad