یوسف حیدر میواتی متعلم دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ
5 مارچ بروز جمعرات مجھے آخری گھنٹہ میں سلیمانیہ بورڈنگ نگران اعلی کے آفس میں طلب کیا گیا جہاں پر حضرت مولانا سلیم اللہ خان ندوی حضرت مولانا سلمان نسیم ندوی حضرت مولانا ساجد علی ندوی یہ تمام حضرات پہلے ہی سے وہاں پر تشریف فرما تھے اس کے بعد سلیم اللہ خان ندوی مجھ سے یہ کہتے ہوئے مخاطب ہوئے کہ"آپ کو نہ حضرت ناظم صاحب سے انشراح ہے نہ حضرت مہتمم ص سے انشراح ہے اور نا ہی ندوہ انتظامیہ سے بلکہ آپ ندوہ انتظامیہ کی کھلے بندوں مخالفت کرتے ہیں یہاں آپ کے کسی استاد سے تعلقات نہیں ہیں اور ناہی آپ کسی سے مشورہ طلب کرتے ہیں اس لئے ان تمام وجوہات کے باعث آپ کو بورڈنگ کی تمام ترسہولیات سے دست بردار کیا جاتا ہے اور آپ کی تمام درسی کتابوں کو ضبط کیا جارہا ہے مزید برآں یہ تو آپ کو معلوم ہی ہوگا کہ درجہ میں بھی آپ کے لئے حاضر ہونے کا کوئی جواز باقی نہیں رہ جاتا ہے کیونکہ آپ کا نام موقوف کردیا گیا ہے اور یہ بات آپ اپنے ذہن و دماغ سے نکال دیں کہ آپ کا نام موقوف کثرت غیر حاضری کی وجہ سے ہوا ہے بلکہ دفتر اہتمام سے ہمیں ایسا کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور ہمیں جتنا مکلف بنایا گیا ہے اسی اعتبار سے کاروائی کررہے ہیں باقی آپ دفتر سے رجوع کریں۔
سلمان نسیم صاحب نے کہا کہ "اگر ہم کاروائی کرتے تو بہت پہلے کرچکے ہوتے کیونکہ آپ اپنے قصائد میں اشارۃ یا کنایۃ ندوہ انتظامیہ کو ٹارگیٹ کرتے ہیں مگر ہم نے آپ کو کبھی اف تک نہیں کہا اب جبکہ دفتر سے ہی ہمیں کہا گیا ہے تو ہم مجبور ہیں "آپ کو یہ بات بھی بتاتا چلوں کہ 25 فروری 2020 کو تقریباً شام 8:15 کے قریب SHO تھانہ حسن گنج لکھنؤ کا فون آیا تھا اور میرے بارے میں جانکاری حاصل کرنا چاہا میں نے وجہ معلوم کرنا چاہی تو کہا کہ ہم آپ کے پاس ندوہ کالج میں ہی آتے ہیں میں نے اس کی اطلاع فیضان نگرامی صاحب کو دی اور انہوں اس معاملہ سے مہتمم ص کو باخبر کیا اور مجھے ندوہ کے کیمپس سے باہر جانے سے سختی سے منع کیا اس کے بعد یہ کاروائی کی گئی اور قیام شہر پر مجبور کیا گیا 6مارچ کو جمعہ ہونے کی وجہ سے دارالعلوم بند رہتا ہے اس لئے اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرنے کے لئے ادنی سی چارہ جوئی بھی نہیں کرسکا 7مارچ بروز ہفتہ میں نے ایک درخواست تحریر کی اور دفتر اہتمام حاضر ہوا اور حضرت مہتمم ص سے صورت مسئلہ درفیات کی مہتمم صاحب فرمانے لگے "لوگ ہم سے کہہ رہے ہیں کہ آپ ندوہ کے دشمن ہیں ندوہ کو ٹکڑوں میں بانٹنا چاہتے ہیں ندوہ انتظامیہ کی مخالفت کرتے ہیں اور سلمان حسینی کے بہت خاص ہیں ان کے خادم اور ان کے غلام ہیں جیسا وہ آپ کو بھڑکاتے ہیں اور ابھارتے ہیں آپ فورا تعمیل حکم بجالاتے ہیں"میں نے مہتمم صاحب سے عرض کیا کہ حضرت جہاں تک ندوۃ العلماء کے دشمن ہونے اور اس کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کی بات ہے تو میرے بارے میں یہ باکل غلط فہمی ہے اور میرے اوپر صریح الزامات ہیں جو بے بنیاد ہیں الحمد للہ نہ میں مارد علمی کا کل مخالف تھا اور نہ آج ہوں ندوہ کی جتنی عظمت میرے دل میں کل تھی اس سے کہیں زیادہ آج ہے اور ان شاء اللہ تاعمر رہے گی یہ سن کرمہتمم صاحب نے کہا کہ" پھر لوگ ہمیں کیوں بہکارہے ہیں؟ اور ہم سے ایسا کیوں کہہ رہے ہیں؟"اس کے بعد ہماری بورڈنگ کے نگراں حضرت مولانا ساجد علی ندوی کو لکھا"جناب مولانا ساجد ندوی صاحب نگراں دارالاقامہ سلیمانیہ ان کے بارے میں آپ اپنی معلومات کے مطابق جو کچھ جانتے ہیں ان سے مطلع کریں (سعید الاعظمی 7/3/2020ء)"8 مارچ کو میں دارالقضا مفتی ساجد صاحب کے آفس میں حاضر ہوا اور کہا کہ استاد محترم آپ تو فرمارہے تھے کہ جو کاروائی کی گئی ہے وہ دفتر اہتمام کے حکم کے مطابق کی گئی ہے مگر جب میں کل دفتر اہتمام میں حاضر ہوا اور مہتمم صاحب سے معلوم کیا تو ان کی باتوں کو سن کر ایسا محسوس ہوا جیسا کہ انہیں اس مسئلہ کے تعلق سے کوئی واقفیت ہی نہ ہو میری یہ باتیں سن کر مفتی ساجد صاحب نے سرد آہ بھری اور تعجب کرتے ہوئے فرمایا "اب کیا بتائیں حضرت مہتمم ص ہم سے آپ کے بارے میں تفصیلی رپورٹ پیش کرنے کا مطالبہ کیوں کر رہے ہیں؟ جبکہ انہوں نے بذات خود ندوۃ العلماء لکھنؤ کے لیٹر پیڈ پر تفصیلی رپورٹ تحریر کرکے حضرت ناظم ص کی خدمت میں پیش کی اور بذات خود آپ کے خلاف سختی کے ساتھ کاروائی کرنے کا مطالبہ کیا اور حضرت ناظم ص نے اس کے بعد کاروائی کرنے کا فی الفور حکم دیا"مفتی صاحب نے میرے دلی اطمنان کے لئے وہ رپورٹ دکھائ اور پڑھ کر بھی سنائ جب میں نے یہ دیکھا تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ جب حضرت مہتمم ص بذات خود میرے بارے میں مکمل معلومات حاصل کرچکے اور کاروائی کرنے کا حکم بھی صادر فرما چکے تو مفتی ساجد علی ندوی سے مزید کیسی معلومات کا مطالبہ کرتے ہیں خیر مفتی صاحب نے حضرت مہتمم کی تحریر کے جواب میں لکھا کہ" جناب عالی : السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ آنجناب کے حکم کے مطابق دفتر سے جو تحریر موصول ہوئی اسی کے مطابق کاروائی کی گئی ہے (ساجد علی 12/ 7/ 41ھ)"اس کے بعد میں ہانپتے کانپتے ہوئے دفتر اہتمام کی طرف لپکا مہتمم صاحب اکیلے تھے چائے کی پیالی ہاتھ میں تھامے ہوئے چائے کی چسکی لے رہے تھے میں نے مفتی صاحب کی تحریر پیش کی اس سے پہلے کہ میں کچھ لب کشائی کرتا مہتمم صاحب فرمانے لگے"تم کہتے ہو کہ وہ (سلمان حسینی ندوی) میرا سب سے بڑا خدا ہے میں اس کے قدموں میں اپنا سر رکھتا ہوں ایسا کیوں کہتے ہو؟میں عرض کیا کہ حضرت میں نہ ان کو خدا مانتا ہوں اور ناہی ان کے قدموں میں سجدہ ریزی کرتا ہوں اور نہ کبھی ایسی بیہودگی کی باتیں میرے منظوم کلام کا حصہ رہی ہیں اس کے بعد مہتمم صاحب نے تھوڑا سکوت اختیار کیا تو میں نے عرض کیا کہ حضرت جب کاروائی کرنے کا حکم آپ نے دیا ہے تو مفتی ساجد ص سے تفصیلی رپورٹ کا مطالبہ کرنے کے کیا معنی؟ فرمانے لگے"کہ میں نے تو کوئی کاروائی نہیں کی اور ناہی کسی کو کاروائی کرنے کا حکم دیا" میں نے عرض کیا کہ حضرت ندوۃ العلماء کے لیٹر پیڈ پر آپ کی تحریر کے ساتھ ساتھ آپ کے سگنیچر بھی موجود ہیں مہتمم ص برابر انکار کرتے رہے بالآخر یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ "جو کچھ ہورہا ہے اس کا حکم اوپر سے آیا ہے" اس کے بعد میں چلا آیا اب واللہ اعلم بالصواب اوپر سے مراد حضرت ناظم ص ہی ہیں یا حمزہ حسنی ص یا کوئ اور خیر جو بھی ہوں البتہ اتنا ضرور کہوں گا یہ لوگ کسی بھی حد جاسکتے ہیں اور کچھ بھی کرسکتے ہیں کیونکہ جب میں نے ان کو SHO کے تعلق سے انفارمیشن دے دی تھی اس کے بعد یہ کاروائی کی گئی اور شہر میں رہنے پرمجبور کیا جارہا ہے تو پولس انتظامیہ کے منھ میں لقمہ بنا کر پیش کرنے کے مثل ہوا جو مخبر میرا نام مع موبائل تھانہ حسن گنج پہنچا سکتا ہے کیا وہ اس کی مخبری نہیں کر سکتا کہ اب یہ طالب علم ندوہ کے کیمپس سے باہر ہے کیونکہ ندوہ انتظامیہ نے ان کو دارالعلوم ندوۃ العلماء کے احاطے سے نکال دیا ہے اب آپ اسے گرفتار کر سکتے ہیں خدا نہ کرے ایسا ہو،یہ تفصیلات ہیں من و عن جو میں آپ تک پہنچا رہا ہوں اللہ تعالٰی میرا حامی و ناصر ہو۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں