تازہ ترین

جمعرات، 13 فروری، 2020

بھارتیہ جنتا پارٹی اپنا ووٹ بینک برقرار رکھنے کے لئے سی اے اے قانون نافذ کرنا چاہتی ہے جو ملک کی سالمیت کےلئے خطرناک ہے۔روبی انعام

رپورٹ۔دانیال خان۔(دیو بند یو این اے نیوز ) قومی شہریت (ترمیمی)قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف دیوبند کے عیدگاہ میدان میں جاری مظاہرہ میں حکومت سے ا س قانون کو واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے خواتین نے کہاکہ اس قانون کے سلسلے میں حکومت عوام کو گمراہ کررہی ہے اور اس کی زد میں پہلے مسلمان آئیں گے اس کے بعد دلت اورسکھ آئیں گے۔انہوں نے اس قانون کو تباہ کن قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ قانون سماج اور ملک کو تقسیم کرنے والا ہے اور حکومت بہت سوچ سمجھ کر یہ قانون لائی ہے تاکہ اقلیتوں کو تقسیم کرکے اپنا الو سیدھا کیا جاسکے۔ انہوں نے کہاکہ اس وقت حکومت جو کچھ بھی اس قانون کے بارے میں کہہ رہی ہے اس پر یقین نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ حکومت کی نیت صاف نہیں ہے اور وہ اس قانون کے بارے میں طرح طرح کی باتیں کر رہی ہے۔مجاہد آزادی صوفی سعید حسن عثمانی کی پوتی روبی انعام نے کہا کہ موجودہ وقت میں حکومت نے اپنے ووٹ بینک کے لئے ہندوستانی تہذیب کو فرقہ پرستی میں بدلنے کے لئے سی اے اے قانون بنایا ہے،حکومت این آر سی کے ذریعہ نہ صرف مسلمانوں کو ذہنی الجھنوں میں ڈالنا چاہتی ہے بلکہ اس کی لپیٹ میں دلت،آدی واسی،بودھ،جین،سکھ،عیسائی،ایس ٹی اور او بی سی زمرہ بھی آ جائے گا۔انہوں نے کہا کہ شہریت ثابت نہ کرنے پر مذکورہ طبقات دستور میں شامل حقوق سے محروم کر دئے جایں گے۔ 
فوٹو۔(۱)علامتی حراستی مرکز میں قید خواتین (۲)عیدگاہ میدان میں موجود مظاہرین

شاہدہ،زینب عرشی،زینت،عمرانہ اور جمیلہ نے کہا کہ یہ حکومت ملک کے 40کروڑ لوگوں کو شہریت کے ہمراہ انہیں ان کی جائداد سے بے دخل کر کے صرف 3تا 4فیصد برہمن طبقہ کو اپنا ہم خیال بنا کر فرقہ پرستی کی سیاست کے ذریعہ آئندہ اقتدار میں رہنے کی سازش کر رہی ہے،انہوں نے کہا کہ ان دنوں ملک کے جو حالات ہیں اگر ان سے بی جے پی نے سیکھ حاصل نہیں کی اور وہ نہیں سنبھلے تو ان سے ملک بھی نہیں سنبھلے گا کیونکہ یہ ہر ایک کے وجود کا مسئلہ ہے اور وجود کی لڑائی کو حکومت سنگین تر بناتی جا رہی ہے،اپنے وجود کی لڑائی کے لئے اب ملک کا ہر فرد کھڑا ہو چکا ہے ایسے میں حکمرانوں کو سنبھل جانا چاہے اور متنازع قوانین کو واپس لیکر ملک میں آپسی بھائی چارہ کی فضائبنانی چاہئے۔یہی ملک اور قوم کے مفاد میں ہے۔طلعت عثمانی،روبینہ خان اور صائمہ نے کہاکہ گزشتہ 27جنوری سے اس سیاہ قانون کے خلاف جس طرح یہاں کی خواتین نے لڑائی لڑی ہے وہ بہت ہی خوش آئند ہے اورہماری حمایت مکمل طور پر آپ کے ساتھ ہے۔ انہوں نے کہاکہ خواتین کے پرامن مظاہرے کو طرح طرح سے بدنام کرنے کی کوشش کی گئی 

لیکن دیوبند ستیہ گرہ ہر امتحان میں کامیاب رہا ہے اور بدنام کرنے والوں کو اپنی منہ کھانی پڑی۔ مظاہر ہ میں شامل ایک بزرگ خاتون شاہدہ نے کہاکہ اس قانون کے خلاف پورے ملک کے لوگ خلاف ہیں اور سکھ طبقہ بھی اس کے خلاف ہے۔ انہوں نے کہاکہ اس قانون کی تلوار پہلے مسلمانوں پر چلے گی اور اس کے بعد دلتوں اورسکھوں پر بھی چلے گی۔ یہی حکومت کا منشا بھی ہے خواہ وہ کچھ بھی دعوی کرلے۔ انہوں نے کہاکہ سی اے اے’این آر سی اور این پی آر کے سلسلے میں شہریت کے ثبوت طلب کئے جارہے ہیں۔ یہ ہندوستانی شہریوں کی توہین ہے۔ بریرہ،ارم عثمانی،آمنہ روشی،فوزیہ سرور اور سلمہ احسن نے کہا کہ قومی شہریت ترمیمی قانون،این پی آر اور مجوزہ این آر سی ہمارے اصل آئین کے مکمل برخلاف ہے کیونکہ اس قانون سے مذہبی بنیاد پر شہریت دینے کی بات کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک کے وزیر اعظم کو بے روزگاری اور صحت کا کوئی خیال نہیں۔ان سب کے علاوہ اس قانون کو لاکر پورے ملک میں ایک نیا انتشار اور افرا تفری کا ماحول برپا کر ڈالا ہے۔

یہ قانون صرف مسلمانوں کے خلاف نہیں ہے بلکہ جتنے بھی دلت،پسماندہ اور غریب ہیں ان سب کے خلاف ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس لڑائی میں سماج کے سبھی طبقات سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔واضح ہو کہ انتظامیہ اس احتجاج کو لیکر نہایت سختی کا مظاہرہ کر رہی ہے اور کسی بھی صورت میں عیدگاہ میدان میں جاری اس احتجاج کو ختم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے،مگر خواتین نے بے خوف ہوکرستیہ گرہ کو مزید پختگی دیتے ہوئے عیدگاہ میدان میں ایک علامتی ڈٹینشن سینٹر(حراستی مرکز) بنا کر مظاہرین کو حکومت کی سازشوں سے آگاہ کرتے ہوئے ہوئے کہا کہ یہ احتجاج اس وقت تک جاری رہے گا جب تک حکومت سی اے اے کو واپس نہیں لے گی۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad