مرکزی وزیر روی شنکر پرساد کی شرط شاہین باغ نہیں جائیں گے، محمود پراچہ نے کہا ’بات چیت بند کمرے میں نہیں ہوگی۔
نئی دہلی۔یکم؍فروری: وزیر قانون روی شنکر پرساد کی تجویز کے بعد ملک کے مختلف شہروں میں 50 دنوں سے جاری سی اے اے - این آرسی مخالف احتجاج ختم ہونے کےامکانات میں اضافہ ہوا ہے۔ وزیر قانون نےکہا ہے کہ شاہین باغ کے لوگ اگر چاہتے ہیں تو آئیں، ہم بات چیت کرنےکےلئے تیار ہیں۔ حکومت کی اس تجویز پرشہریت ترمیمی قانون (سی اے اے)، قومی آبادی رجسٹر (این پی آر) اور قومی رجسٹرآف سٹیزنس کے خلاف چل رہے احتجاج کےلیگل ایڈوائزر اور سپریم کورٹ کے وکیل محمود پراچہ کا کہنا ہے کہ سی اے اے اور این آرسی - این پی آر پرجو بھی بات ہوگی وہ کھلے عام عوام کے سامنے اسٹیج سے ہوگی۔ تاہم اس سے پہلے حکومت سپریم کورٹ میں سی اے اے، این پی آر اور این آرسی کو واپس لینےکا حلف نامہ دے۔ اس کے بعد ہی ہم کسی بھی طرح کی بات چیت کو تیار ہیں۔واضح رہے کہ ایک ٹی وی چینل کے پروگرام میں موجود وزیر قانون روی شنکر پرسادسامعین کے سوالوں کا جواب دے رہے تھے۔ اسی دوران ایک سوال پوچھا گیا کہ کیا حکومت احتجاج کرنے والوں سے بات چیت کرے گی اور انہیں سی اے اے اور این پی آر - این آرسی کے بارے میں سمجھائےگی؟
اس سوال پر وزیر قانون نےکہا کہ ہم بات چیت کےلئےتیار ہیں، لیکن بات چیت شاہین باغ میں بیٹھ کر نہیں ہوگی۔ بات چیت ان لوگوں سے ہوگی، جو شاہین باغ میں بیٹھے لوگوں کے نمائندہ بن کرآئیں گے اور یہ بھروسہ دلائیں گےکہ ان کی بات مانی جائےگی۔مرکزی وزیر روی شنکر پرساد نے ہفتہ کو ٹویٹ کر اس بات کے اشارے دئیے ہیں۔ روی شنکر پرساد نے کہا کہ حکومت مظاہرین سے بات کرنےکےلئے تیار ہے، سی اے اے پر ان کا ہر اندیشہ دورکرنےکو تیار ہے لیکن انہیں اس کے لئے منظم ماحول بنانا ہوگا۔ وزیر قانون کے جواب سے واضح ہے کہ حکومت کا کوئی نمائندہ شاہین باغ نہیں جائے گا، بلکہ شاہین باغ کے وفد کو آنا ہوگا اور بات چیت کرنی ہوگی۔مظاہروں کے لیگل ایڈوائزر (قانونی مشیر) محمود پراچہ نے بڑا بیان دیا ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ مرکزی حکومت اگر بات چیت کرنا چاہتی ہے تو اچھی بات ہے لیکن سی اے اے، این آر سی و این پی آر سے متعلق جو بھی بات ہوگی وہ مظاہرین کے سامنے اسٹیج پر ہوگی۔ محمود پراچہ کا کہنا ہے کہ بند کمرے میں کوئی بات نہیں کی جائے گی تاکہ ہر شخص یہ جان سکے کہ مذاکرے میں کیا کچھ ہوا۔ ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہا کہ مذاکرہ شروع ہونے سے پہلے مرکزی حکومت کو سپریم کورٹ میں سی اے اے، این آر سی و این پی آر کو واپس لینے سے متعلق حلف نامہ دینا ہوگا۔محمود پراچہ کے ذریعہ رکھی گئی یہ شرائط مودی حکومت کو مشکل میں ڈالنے والی معلوم پڑ رہی ہے، کیونکہ روی شنکر پرساد نے میڈیا سے بات چیت کے دوران بند کمرے میں بات کرنے کی بات کہی تھی۔
ایک ٹی وی چینل کے پروگرام میں مرکزی وزیر روی شنکر پرساد نے ناظرین کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت مظاہرین سے بات چیت کرے گی اور انھیں سی اے اے، این آر سی و این پی آر کے بارے میں سمجھائے گی۔ وزیر قانون روی شنکر پرساد نے ساتھ ہی واضح کیا تھا کہ ’’ہم بات چیت کے لیے تیار ہیں، لیکن بات چیت شاہین باغ میں بیٹھ کر نہیں ہوگی۔ بات چیت ان لوگوں سے ہوگی جو شاہین باغ میں بیٹھے لوگوں کے نمائندہ بن کر آئیں گے اور یہ بھروسہ دلائیں گے کہ ان کی بات مانی جائے گی۔‘‘روی شنکر پرساد کی باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ شاہین باغ مظاہرین کے پاس جا کر کھلے میں کچھ بات نہیں کرنا چاہتے۔ لیکن محمود پراچہ اس طرح کے مذاکرے کی کسی دعوت کو قبول کرنے سے انکا رکرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’شاہین باغ ہی نہیں، ملک بھر میں جتنے بھی مظاہرے چل رہے ہیں سبھی جگہ عام اتفاق سے ایک قرارداد پاس کی گئی ہے۔ قرارداد یہ ہے کہ کسی بھی طرح کی بات چیت چند لوگوں کے ساتھ بند کمرے میں نہیں ہوگی۔ جسے بھی بات چیت کرنی ہے وہ آئے، اس کا استقبال ہے۔
لیکن بات چیت شاہین باغ کے اسٹیج سے مائیک پر عام لوگوں کے سامنے ہوگی۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’ہم بند کمرے میں بات چیت کر کے کسی کو افواہ پھیلانے کا موقع نہیں دینا چاہتے۔ لیگل ایڈوائزر کی حیثیت سے میں نے اور چندرشیکھر آزاد نے دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر یہ قرارداد ملک بھر میں چل رہے مظاہروں میں رکھی ہے۔‘‘واضح رہے کہ آج صبح مرکزی وزیر قانون روی شنکر پرساد نے اپنے ایک ٹوئٹ میں بھی شاہین باغ مظاہرین سے بات چیت کرنے کی رضامندی ظاہر کی تھی۔ انھوں نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا تھا کہ ’’ایک خاکہ تیار کیا جائے گا جس کے تحت شاہین باغ کے مظاہرین سے بات چیت کی جائے گی۔‘‘ روی شنکر پرساد نے ٹوئٹ میں یہ بھی لکھا کہ ’’بات چیت کے ذریعہ مظاہرین کے اندیشوں کو دور کیا جائے گا اور انھیں بتایا جائے گا کہ اس کا کوئی نقصان ہندوستانی شہریوں پر نہیں ہوگا۔‘‘
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں