مفتی ہمایوں اقبال ندوی ارریہ
اپنے ملک میں جمہوریت ہے ۔یہاں کے باسی کو اپنا احتجاج درج کرانے کا حق حاصل ہے ۔اس تعلق سے جے این یو کے طلبہ کی نمائندگی پورے ملک میں تسلیم کی جاتی ہے ۔فیس کے اضافے کا معاملہ ہو یا ملکی مفاد میں کوئی مسئلہ اس یونیورسٹی سے آواز اٹھتی ہے تو پورے ملک میں سنائی دیتی ہے اور اس کی پیروی بھی کی جاتی ہے ۔ملکی آئین کے خلاف یہاں کے طلبہ ایک لفظ بھی سننااوربرداشت کرناگوارہ نہیں کرتے ہیں ۔اسی لئے جے این یو کو جمہوریت کاآئینہ داربھی کہاجانے لگا ہے ۔ابھی کچھ دنوں قبل اسی جمہوری حق کو کچلنے کے لئے ان طلبہ پر نقاب پوشوں نے حملہ کردیا،اس کا ردعمل پورے ملک میں دیکھا گیااوردیکھاجارہاہے ۔سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ حملہ آوروں کا نقاب اترے یا نہ اترے شہریت ترمیمی قانون کا نقاب اس کے بعد ہی اترنے لگا ہے اور اترتا جارہا ہے ۔مخالفت تھمنے کا نام نہیں لے رہی ہے ۔آئے دن اس میں شدت ہی آرہی ہے ۔اس نقاب پوش قانون کی مخالفت میں کو کچلنے کی تدبیر الٹی پڑگئ ہے ۔نقاب پوش خواتین بھی اس نقاب پوش قانون کی مخالفت میں سڑکوں پر آگئی ہیں ۔آزاد ملک بھارت کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے ۔ پورے ملک کے شہری کے سامنے یہ بات صاف ہو گئی کہ یہ قانون دراصل نقاب میں پیش کیا گیا یہاں کے ہر شہری کی شہریت پر حملہ ہے۔ قانون کے منھ پر شہریت دینے کا خوبصورت نقاب چڑھادیاگیاہے ساتھ ہی اس کے ہاتھ میں ڈنڈا بھی ہے ۔اس ڈنڈے سے یہاں کے ہر امن پسند شہری کو ہنکادینا اورہنکائے رکھنے کاناپاک منصوبہ ہے۔ ہم دونوں میں ہےبس اسی ایک بات کاجھگڑا وہ دن کہے ہے اورہمیں رات لگے ہے ہمارے دلت سماج کے بھائی تو اس قانون کو میٹھا زہر ،دلت مخالف اور ریزرویشن کے خلاف لایا گیا ہتھکنڈہ کہتے ہیں ۔اسی ذیل میں موجودہ حکومت کو منووادی سرکارکہتے ہیں ۔آئےدن ہم سڑکوں پراس نعرے کوسنتےرہتےہیں ۔ان سب کایہ ماننا ہے کہ یہ آر ایس ایس کا اہم ایجنڈہ منواسمرتی کے احکامات کاتنفیذ اس قانون سے مقصود ہے ۔ایس سی، ایس ٹی اور دلت سماج کے لوگوں کو غلام بنالینے والا،اور ان کے جملہ حقوق سلب کرلینے والا یہ قانون ہے ۔ شڈول کاسٹ کے لوگ بشمول پسماندہ ہندو برادران کے پاس کاغذات نہیں ہیں ۔انہیں غیر ملکی بنا کر پھر ناگرتا دینے کا یہ حیلہ خاص مقاصد اور ناپاک عزائم رکھتا ہے ۔اس عمل سے دوسرے درجے کا شہری بنالینا اور آئینی حقوق سے محروم کردینا ہے ۔آرایس ایس کے ریزرویشن خاتمے کی کوشش کو کامیابی تک پہونچانا ہے ۔ہمارے وہ دلت اورہندوبھائ جواس وقت خو ش ہیں کہ کہ اگر ہم کاغذ نہیں دکھاپائےتواس قانون سےہمیں شہریت مل جائے گی اورہم پھرناگرک ہوجائیں گےوہ خوش فہمی اوردھوکےمیں ہیں ۔CAAکےذریعےملنےوالی ناگرکتادراصل ایک بھیک ہےجویہاں کےقدیم باشندوں کوبھی غیرملکی بنانے کے لئے ہے ۔ایک یہاں کاشہری اس کے ذریعے دوبارہ ناگرگ ہوکر بہت کچھ سے ہاتھ دھو بیٹھے جو اسے پہلے سے حاصل تھی ۔جواس میٹھے زہرکے چکرویومیں پھنسےگاوہ اپنےحقوق کےلئےاحتجاج کےحق سےبھی محروم ہوجائےگا۔اس قانون سےناگرتالینےوالےجب اپنےحقوق کی بات کریں گےاوراس کےاحتجاج کریں گے اور کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے وہاں انہیں مایوسی ہی ہاتھ آئے گی ۔جواب ملے گا ہم نے آپ کو ناگرتا بھیک میں دی ہے ،آپ کا بونڈ کورٹ میں موجود ہے ،اگر یہ پسند نہیں تو ہم اسے واپس لیتے ہیں ۔اس طرح آسمان سے گرا کھجور پر اٹک جائے گااوراٹکالٹکاہی رہے گا ۔ع کیفی رہ الفت میں قدم سوچ کررکھنا ایک بار جوبھٹکا تو بھٹکتا ہی رہے گا بعض دلت بھائی یہ کہتے ہیں کہ ہم آج بابا بھیم راؤ امبیڈکر کے سنودھان کی وجہ کر اونچی ذات کے برابر کھڑے ہیں۔ یہ منووادیوں کوبالکل نہیں بھاتا ہے ۔ہم ان کے بازو ہی نہیں آئین کی بدولت ان کے بستر پر بیٹھے ہیں یہ ان اونچی ذات والوں کےلئےبڑی تکلیف کی بات ہے ۔اس قانون کے ذریعے جو خوبصورت نقاب میں ہے، جس میں دینے ہی کی بات ہے ،ہمیں غلامی دینے والا اور غلام بنانے والا قانون ہے ۔اپنی برابری سے نکال کرجوتوں میں روندنےوالااوربسترسےاٹھاکر گھرمیں جھاڑو لگانے والا نوکر بنانے کےلائی گئ ایک بڑی سازش ہے ،ہم اس سیاست کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے ۔
سیاست کی اپنی الگ ایک زباں ہے
لکھا ہے جو اقرار انکار پڑھنا

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں