تحریر:محمد شمیم بورولی ممبئی
تاریــخ گواہ ہے کہ مسلمان بہادر قوم ہے یہ ظلم نہیں کرتی ہے اور ظالموں سے خوفزدہ نہیں ہوتی ہے اس قوم کی تاریخ ہے کہ اس کے افراد قلیل تعداد میں ہوتے ہوئے کثیر تعداد والے ظالموں و جابروں کو اپنے سامنے گھٹنے ٹیکنے دھول چاٹنے پر مجبور کر دیتے تھے ، ڈر خوف نام کی کوئی شئ تھی ہی نہیں، بس ایک اللہ پر بھروسہ کرتے تھے، دنیا نے دیکھا کہ یہ مٹھی بھر مسلمان پورے عالم میں کس طرح پھیل گئے اور اپنی مذہبی شان و شوکت سے زندگی بسر کرنے لگے، ان کے اندر ایک جنون تھا کہ اسلام کی سربلندی حفاظت و اشاعت پر اپنے قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے سے دریغ نہیں کرتے تھے، اس دور کا ہر مسلمان شجاعت بہادری میں بے مثال ہوا کرتا تھا، ایمانی طاقت کے ساتھ جسمانی قوت بھی قابل دید تھی،وہ مسلمان شہ زور ہوتے تھے؛ ایک لمحہ میں حریف کے اوزار کو چھین کر اسی سے اس کا کام تمام کر دیتے تھے؛
سوشل میڈیا پر ایک تصویر اور تحریر دیکھ کر حیرت ہوئی کہ دو داڑھی ٹوپی والوں کی تین بدمعاشوں نے پٹائی کر دی اور یہ مار کھاتے ہوئہاتھ باندھ کر کھڑے ہیں یہ بزدلی نہیں ہے تو اور کیا ہے؟ یہی بزدلی رہے گی تو ظالم ساتھ میں رہنے والی مستورات کا ہاتھ پکڑ لیں گے اس وقت بھی آپ خاموش رہیں گے، ایک وقت ایسا بھی آجاتا ہے جہاں پر وہی مسلمان خاموش رہ سکتا ہے جس کے دل میں خشیت الہی نہ ہو ، دنیا کا خوف بھرا ہوا ہو، یہی وہ مقام ہوتا ہے جہاں پر بندے کے ایمان کا کوئی حصہ نہیں رہ جاتا ہے -
جس مسلمان کے دل میں رتی برابر بھی ایمان ہوگا وہ جہاں ضرورت ہوگی زبان سے حق بات کہے گا اگر ضرورت پڑی تو ہاتھ سے بھی کام لے گا - ایمان والا اتنا بزدل ہو جائے کہ سانپ کاٹنے کو دوڑے اور وہ لرزہ بر اندام ہو جائے، یہ مسلمان کی شان کے خلاف ہے اس جگہ پر ہمیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ ایذا دینے والے موذی جانور کو اس سے قبل کہ وہ تمہیں نقصان پہنچائے ختم کر دو؛ اب یہاں ہاتھ پر ہاتھ باندھے اپنے ذہن پر اس کا خوف طاری کرکے کھڑے رہیں گے تو انجام کیا ہوگا؛ سانپ ڈس لے گا اور انسان ہلاک ہو جائے گا -
اسی طرح دشمن ظلم کی انتہا کر رہا ہے اور اپنے آخری درجے پر پہنچ گیا، مار کر ذلیل کرنا چاہتا ہے اب یہاں حکمت نہیں آپ بھی اللہ پر توکل کرتے ہوئے ہاتھ سے کام لیں اور ان کا مقابلہ کریں شکست فتح خدا کے ہاتھ میں ہے لیکن اس جگہ پر آپ کو لڑنا ہی ہوگا -
تاریــخ میں، میں نے پڑھا ہے کہ ایک جنگ جس کے کمانڈر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ تھے جب دونوں طرف کے لشکر صف بستہ ہو گئے، دشمنوں کی فوج کا سب سے طاقتور پہلوان میدان میں سامنے آیا اور طاقت کے گھمنڈ میں اس نے آواز لگائی کون ہے جو مسلمانوں کی فوج سے آئے اور میں اس کا سر تن سے جدا کر دوں - حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اپنی فوج کے جسمانی لحاظ سے ایک سب سے کم طاقت ور کو حریف کے سامنے بھیجتے ہیں دشمن کا شہ زور، طاقت کے نشے میں چور، قہقہے لگانے لگا؛
کہ تو حقیر ناتواں مجھ سے مقابلہ کرے گا، لیکن جب اسلام کے اس مجاہد نے للکارا تو پہلوان نے ان کو ایک ہاتھ سے اٹھا کر نیچے گرایا اور ان کے جسم پر بیٹھ گیا؛ گویا کہ وہ پہلوان اپنی فتح کا اعلان کر رہا ہو، نیچے دیے ہوئے مجاہد نے اپنا چھوٹا خنجر نکالا اور اس کے جسم کے ایک حصے میں پیوست کر دیا، وہ درد سے بلبلا کر کوئی حملہ کرتا اس سے پہلے انہوں نے متعدد بار خنجر کا وار کر کے اس سے علیحدہ ہو کر اس کی گردن کو کاٹ ڈالے اور فتحیاب ہو گئے-یہی ہے ہمت مرداں مددِ خدا ہم بھی انہیں صحابہ کے نقش قدم پر چلنے والے ہیں ہر بات میں ان کے پیروکار ہیں لیکن جہاں لڑنے کی بات آجائے چپی سادھ لیتے ہیں ہمارے جسم کے اعضاء شل ہو جاتے ہیں -
مندرجہ بالا تحریر میں تین بدمعاشوں، اور دو مسلمانوں، کا میں نے تذکرہ کیا ہے وہ سب اسلحہ سے لیس نہیں تھے اور بھیڑ والا معاملہ بھینہیں تھا؟ دونوں اطراف کے لوگ نہتے تھے ظاہر سی بات ہے ایک فریق دو ہاتھ مارتا تو دوسرے کو ایک ہاتھ تو مارنا چاہئیے - بت بن کر کھڑے رہے تو کیسے خدا کی مدد آئے گی - سچائی اسی میں ہے، ہمت مرداں مددِ خدا، اللہ کرے کسی کے ساتھ اس طرح کا معاملہ پیش نہ آئے
خاکسار محمد شمیم مدرسہ دارالعلوم حسینیہ بوریولی ممبئی

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں