تحریر۔ممحدشمیم ممبئی
ایک وقت تھا جب آپ کے کوچے سے گزرتے تو قرابت داری پاؤں میں زنجیر ڈال کر ہمیں آپ کی جانب کھینچ کر لے جاتی؛ اس وقت تک قدم آگے نہیں بڑھ سکتا تھا جب تک آپ کی شیریں زبان سے پیاری باتیں نہیں سن لیتے تھے - آپ مادری زبان میں مخاطب ہوتے اور اتنے خوش اسلوب اپنائیت شفقت سے بات کرتے جسے سن کر دلی مسرت ہوتی ، وہ باتیں ایسی ہوتی تھیں کہ گویا آپ کی زبان مبارک سے پھولوں کی برسات ہو رہی ہے؛ مزید آپ کی خوشبوؤں سے لبریز باتیں کافی دل پذیر ہوا کرتی تھیں -
آپ کی مسحور کن باتوں کا سلسلہ شروع ہوتا تو سب سے پہلے مہمان نوازی پر توجہ فرماتے مدرسہ میں چند مرتبہ حضرت والا کے دسترخوان پر بندہء ناچیز کو کھانا تناول فرمانے کا شرف حاصل ہوا؛ اگر کھانے کا وقت نہیں ہوتا تو پانی چائے ضرور پیش کرتے تھے - دسترخوان پر جو میسر ہو اسے خوش دلی سے تناول فرماتے شکوہ کا لفظ استعمال نہیں کرتے تھے - کھانے سے فارغ ہو جاتے تو بھی یہی فرمائش ہوتی ٹھہرو کچھ دیر بعد چلے جانا ان کی شیریں گفتگو میں، کب ایک گھنٹہ گزر جاتا احساس ہی نہیں ہوتا تھا -
آپ بحرالعلوم کے ساتھ منکسرالمزاج تھے؛ اجنبی شخص کبھی یہ نہیں سوچ سکتا تھا یہ درویش صفت انسان اتنا عظیم مفسر قرآن ہوگا جس کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں ہوگی جو پورے عالم اسلام میں دین کی خدمت کر رہے ہوں گے -
ان کی شخصیت قلندرانہ تھی جسے دیکھ کر انسان محسوس کرتا تھا یہ دیکھو قلندر جا رہا ہے - میرا ان سے قریبی رشتہ ہے بچپن سے آنکھیں ان کے افعال وکردار کا مشاہدہ کرتی رہیں لیکن ان کے وفات تک کبھی بھی ان کے اندر، ریا، شہرت، حرص، گھمنڈ کی کوئی شئی نظر نہیں آئی -
عاجزی انکساری کے پیکر تھے، زندگی بے داغ تھی، علم کے چلتے پھرتے کتب خانہ تھے، دینی کتابیں ان کی روحانی غذا تھیں، خالی اوقات کتابوں کے مطالعے میں اس طرح ڈوب جاتے کہ دنیاومافیھا سے بے خبر؛ نصف صدی تک اپنے وسیع علم سے طالبان علوم نبوت کی پیاس بجھاتے اور سیراب کرتے رہے؛ آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے،
آپ کی گھریلو زندگی بھی قابل دید تھی اپنے اہل خانہ کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتے گھر کے ہر فرد سے سچی محبت کرتے تھے بچوں کے لیے ایک مشفق والد کی طرح سے ان کی دلجوئی کرتے تھے - یہی وجہ ہے کہ کہ آپ کی وفا شعار اہلیہ جب داغ مفارقت دے گئیں تو کچھ لوگوں نے مشورہ دیا کہ آپ دوسرا نکاح کر لیں - لیکن جب ان کے سامنے فرمانبردار فرزندوں کی محبت غالب آئی تو اس مشورے کو قبول نہیں کیا ایک کریم والد کا فرض ادا کرتے ہوئے اپنے نونہالوں کی خوشحالی کے لئے اپنے جذبات کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا-
گھر پر بھی آپ ترش کلامی سے احتراز کرتے تھے جید عالم ہونے کے باوجود ایک عام انسان کی طرح سب گھر والوں سے پیش آتے تھے -
مفلس نادار کی مدد پوشیدہ طور پر کرتے تھے - وطنی محبت آپ کے دل میں حد درجہ تھی، اسی لئے جب مجھ جیسا انسان گفتگو کے لیے مل جاتا تو اسی زبان میں ہم کلام ہوتے تھے - گاؤں کے جس محلے سے آپ کا گہرا تعلق تھا وہاں پر امام صاحب کی ماہانہ تنخواہ آپ نے مقرر فرمائی -
جب گاؤں تشریف لے جاتے تو اپنے ہم عمر ساتھیوں سے بے تکلف دوست کی طرح پیش آتے علماء کرام کی قدر کرتے مزید سلام کلام خوش دلی سے کرتے تھے -
ہندوانہ رسم و رواج سے آپ کو نفرت تھی اسی لئے بارات میں کبھی شرکت نہیں کرتے تھے -
طالب علمی زمانے میں بزرگوں کی خدمت کا شوق بدرجہ اتم موجود تھا یہی وجہ ہے کہ آپ تمام عمر انہیں بزرگوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس دار فانی سے کوچ کر گئے -
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را....
یہ استاد الاساتذہ، مفسر قرآن میرے حقیقی خالو، عروس البلاد ممبئی بھنڈی بازار، دارالعلوم امدادیہ کے صدرالمدرسین حضرت مولانا شفیق احمد قاسمی صاحب نوراللہ مر قدہ تھے؛ جب میں محمد علی روڈ سے گزرتا ہوں تو بے اختیار زبان سے یہ بات نکلتی ہے -
اے باغباں تیرا چمن شاداب رہے
اللہ رب العزت آپ کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے آمین
احقر محمد شمیم مدرسہ دارالعلوم حسینیہ بوریولی ممبئی

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں