بابری مسجد انہدام سانحہ کی پچیسویں برسی پر منایاگیا علامتی یوم احتجاج
نئی دہلی( یو این اے نیوز5دسمبر2017 )بابری مسجدانہدام سانحہ کی پچیسویں برسی کے موقع پر ملک کے مشہور مذہبی اور ملی پلیٹ فارم آل انڈیا تنظیم علماء حق کے صدر دفتر اوکھلا نئی دہلی میں ملک بھر کے کارکنان و ممبران اور سیاست و سماج سے تعلق رکھنے والے سرکردہ افراد کی موجودگی میں علامتی یوم احتجاج منایا گیا۔ اس احتجاجی مجلس سے خطاب کرتے ہوئے تنظیم کے صدر مشہور عالم دین مولانامحمد اعجاز عرفی قاسمی نے کہا کہ آزاد ہندوستان میں حکومتی اہل کاروں کی موجودگی میں رو نما ہونے والے اس المناک سانحہ پر25؍ سال کا طویل عرصہ بیت گیا، مگر ہماری عدلیہ میں مقدمات کی سماعت کا طریقۂ کار اتنا سست ہے کہ اب تک اس سنگین معاملہ میں گواہوں کی پیشی اور پختہ ثبوتوں اور دستاویزات کی فراہمی کے باوجود بابری مسجد ملکیت کا دوٹوک فیصلہ نہیں سنایا گیا۔ انھوں نے مسلمانوں کی عظمت کا نشان بابری مسجد کے المناک حادثہ کو سیاست کا ایشو نہ بنانے کی وکالت کرتے ہوئے ملک کے تمام سیاسی لیڈروں خصوصا غیر مسلم رہ نماؤں سے یہ اپیل کی کہ وہ صرف ہٹ دھرمی اورمسلم دشمنی میں ،رام مندر وہیں بنانے کی ضد کرکے ایسا اقدام نہ کریں جس سے ہماری عظیم ترین جمہوریت کومستقبل میں شرمندگی کا منہ دیکھنا پڑے اور عالمی برادری کے سامنے ہمارا سر شرم سے جھک جائے۔ انھوں نے بابری مسجد ملکیت کے مقدمہ میں مختلف ملی اور مذہبی تنظیموں کی طرف سے دائر مقدمات پر سماعت میں سست رفتاری کو ملک کی اندرونی سلامتی و تحفظ کے لیے خطرناک اور بد شگون قراردیا۔ کیوں کہ ایک اہم معاملہ کے فیصل ہونے میں اگر اتنا لمبا عرصہ گزر جائے تو عوام مایوس ہوکر عدالت اور قانون سازیہ سے عدم اعتماد کے بھنور میں پھنس جاتی ہے۔ مولانا قاسمی نے بابری مسجد سانحہ سے متعلق مقدمہ کو جلد حل کرنے کیموجودہ حکومت سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت اس معاملہ کے تعلق سے سنجیدہ ہے تو اس کو چاہیے کہ5دسمبر 2017سے سپریم کورٹ میں بابری مسجد اور رام مندر کے مقدمہ کی سماعت میں تیزی لائے تاکہ ہندوستانی عوام کے سامنے بابری مسجد ملکیت مقدمہ کا سچ سامنے آسکے اور عقیدہ و آستھا کے مقابلے میں حق و انصاف کی جیت ہوسکے اور بین الاقوامی پیمانے پرہماری جمہوریت کا سر فخر سے اونچا ہو۔ مولانا قاسمی نے کہا کہ ملک کے انصاف پسندوں خصوصا مسلمانوں کے صبر کاپیمانہ ضرور لبریز ہوچکا ہے، مگر مسلمانان ہند سے صبر و تحمل سے کام لینے اور عدالت عظمی پر اعتماد کرنے کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس موقع پرسب سے بڑی عدالت بارگاہ خداوندی میں اپنا مسئلہ رکھیں، خدا سے دعا کریں اور اپنے نامۂ اعمال کا محاسبہ کرتے ہوئے اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے جمہوری اور پر امن طریقہ اختیار کریں۔انھوں نے کہا کہ وہ اس موقع ۶؍دسمبر پر یوم سیاہ اور یوم احتجاج ضرور منائیں، مگر جذباتیت کی رو میں بہہ کر کوئی ایسا قدم نہ اٹھائیں جس سے اس معاملہ کو میڈیا میں بے جا طول دینے کا فرقہ پرستوں کو موقع مل جائے اور ہمارا مسئلہ کسی قانونی پیچیدگی کا شکار ہو کر رہ جائے۔
نئی دہلی( یو این اے نیوز5دسمبر2017 )بابری مسجدانہدام سانحہ کی پچیسویں برسی کے موقع پر ملک کے مشہور مذہبی اور ملی پلیٹ فارم آل انڈیا تنظیم علماء حق کے صدر دفتر اوکھلا نئی دہلی میں ملک بھر کے کارکنان و ممبران اور سیاست و سماج سے تعلق رکھنے والے سرکردہ افراد کی موجودگی میں علامتی یوم احتجاج منایا گیا۔ اس احتجاجی مجلس سے خطاب کرتے ہوئے تنظیم کے صدر مشہور عالم دین مولانامحمد اعجاز عرفی قاسمی نے کہا کہ آزاد ہندوستان میں حکومتی اہل کاروں کی موجودگی میں رو نما ہونے والے اس المناک سانحہ پر25؍ سال کا طویل عرصہ بیت گیا، مگر ہماری عدلیہ میں مقدمات کی سماعت کا طریقۂ کار اتنا سست ہے کہ اب تک اس سنگین معاملہ میں گواہوں کی پیشی اور پختہ ثبوتوں اور دستاویزات کی فراہمی کے باوجود بابری مسجد ملکیت کا دوٹوک فیصلہ نہیں سنایا گیا۔ انھوں نے مسلمانوں کی عظمت کا نشان بابری مسجد کے المناک حادثہ کو سیاست کا ایشو نہ بنانے کی وکالت کرتے ہوئے ملک کے تمام سیاسی لیڈروں خصوصا غیر مسلم رہ نماؤں سے یہ اپیل کی کہ وہ صرف ہٹ دھرمی اورمسلم دشمنی میں ،رام مندر وہیں بنانے کی ضد کرکے ایسا اقدام نہ کریں جس سے ہماری عظیم ترین جمہوریت کومستقبل میں شرمندگی کا منہ دیکھنا پڑے اور عالمی برادری کے سامنے ہمارا سر شرم سے جھک جائے۔ انھوں نے بابری مسجد ملکیت کے مقدمہ میں مختلف ملی اور مذہبی تنظیموں کی طرف سے دائر مقدمات پر سماعت میں سست رفتاری کو ملک کی اندرونی سلامتی و تحفظ کے لیے خطرناک اور بد شگون قراردیا۔ کیوں کہ ایک اہم معاملہ کے فیصل ہونے میں اگر اتنا لمبا عرصہ گزر جائے تو عوام مایوس ہوکر عدالت اور قانون سازیہ سے عدم اعتماد کے بھنور میں پھنس جاتی ہے۔ مولانا قاسمی نے بابری مسجد سانحہ سے متعلق مقدمہ کو جلد حل کرنے کیموجودہ حکومت سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت اس معاملہ کے تعلق سے سنجیدہ ہے تو اس کو چاہیے کہ5دسمبر 2017سے سپریم کورٹ میں بابری مسجد اور رام مندر کے مقدمہ کی سماعت میں تیزی لائے تاکہ ہندوستانی عوام کے سامنے بابری مسجد ملکیت مقدمہ کا سچ سامنے آسکے اور عقیدہ و آستھا کے مقابلے میں حق و انصاف کی جیت ہوسکے اور بین الاقوامی پیمانے پرہماری جمہوریت کا سر فخر سے اونچا ہو۔ مولانا قاسمی نے کہا کہ ملک کے انصاف پسندوں خصوصا مسلمانوں کے صبر کاپیمانہ ضرور لبریز ہوچکا ہے، مگر مسلمانان ہند سے صبر و تحمل سے کام لینے اور عدالت عظمی پر اعتماد کرنے کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس موقع پرسب سے بڑی عدالت بارگاہ خداوندی میں اپنا مسئلہ رکھیں، خدا سے دعا کریں اور اپنے نامۂ اعمال کا محاسبہ کرتے ہوئے اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے جمہوری اور پر امن طریقہ اختیار کریں۔انھوں نے کہا کہ وہ اس موقع ۶؍دسمبر پر یوم سیاہ اور یوم احتجاج ضرور منائیں، مگر جذباتیت کی رو میں بہہ کر کوئی ایسا قدم نہ اٹھائیں جس سے اس معاملہ کو میڈیا میں بے جا طول دینے کا فرقہ پرستوں کو موقع مل جائے اور ہمارا مسئلہ کسی قانونی پیچیدگی کا شکار ہو کر رہ جائے۔

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں