گجرات کا سیاسی دنگل: اہل گجرات سے گذارش!
تحریر،سمیع اللّٰہ خان ،جنرل سکریٹری: کاروانِ امن و انصاف
یہ تاریخی حقیقت ہیکہ، جس قوم کا نوجوان اپنے قومی کاز اور ملی تشخص کے لیے مین اسٹریم میں ہوتاہے وہ قوم اپنا وقر بہرحال محفوظ رکھتی ہے، کیونکہ کمیونٹی کی بقاء کا راز صرف چند رسومات کی ادائیگی میں مضمر نہیں ہوتا، بلکہ ان عبادتوں کے ساتھ عملی جدوجہد اور مردانہ وار لڑائی اس کی ضامن ہوتی ہے،
قرآن میں اس کو صریح الفاظ میں بیان کیا گیا ہیکہ،
واعدوا لھم مااستطعتم من قوۃ و من رباط الخیل، ترھبون به عدوالله و عدوكم.. الخ
اس آیت سے صرف اور صرف تلوار کا جہاد مطلوب نہیں ہے، بلکہ ہر معاشرے اور ملک میں ظلم کے خلاف اپنے حقوق کے لیے جہاد کی جو بھی سازگار صورتیں ہوسکتی ہیں وہ مطلوب ہیں، اس آیت میں بھی اور بیشتر آیتوں میں اللّٰہ نے مسلمانوں کو اس پر ابھارا ہے کہ وہ میدانی کوششوں میں بہر صورت شریک رہیں،غزوۂ بدر و اُحد سے لیکر حنین و موتہ تک کا یہی سبق ہے کہ اپنے حقوق کے لیے میدانی جدوجہد لازما مطلوب ہے، آقاﷺ کے شہید دندان، مسلم نوجوانوں کے لیے ظلم و ستم کے خلاف میدانی کوششوں کا حتمی ہونا بیان کرتےہیں، مسلمانوں کے لیے تب س اب تک ان کے اسلاف نے اس باب میں کوئی گوشہ خالی نہیں چھوڑا ہے جس میں زمینی کوششوں پر ابھارا نا گیا ہو، یہی وہ زمینی محنت تھی جس نے اسلام کو سربلند کیا، یہی وہ زمینی کوششیں تھیں جن سے ملک فرنگی پنجے سے آزاد ہوا، پوری تاریخ چھان ماریے تو نظر آئے گا کہ، جابجا مسلم مذہبی قیادت نے اپنے مسائل کے نپٹارے کے لیے ہمیشہ ایک نوجوان جماعت کو فعال رکھا،زیادہ دور نا جائیے شیخ الہندؒ، امام انقلاب سندھیؒ ابو الکلام آزادؒ اور محمد علی جوہرؒ کے تاریخی کارناموں کی ابتدائی جدوجہد میں ان کی عمر کیا تھی؟ ہندوستان کی تحریک ریشمی رومال ہو، یا غزہ و فلسطین کے لیے تحریک انتفاضہ کرنے والے جیالوں کی کیا عمریں تھیں؟ یہ سب ہوشمند و باحمیت جوانوں کی ٹیم تھی جنہیں ان کے مرشدین نے سنوارا تھا، جب تک ایک جماعت مسلسل اس صورت میں ہمارے درمیان موجود رہی احساس پژمردگی ہم پر چھا نہ سکی، آج ایسی جماعت کا ہم میں اسطرح فقدان ہے کہ ہر ہر قدم پر ہم احساس عدم تحفظ کے شکار ہیں،دوسری طرف وہ طبقات ہیں جنہیں اچھوت سمجھا جاتا تھا، جن کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا تو دور ان کے پاس سے گذرنا بھی ذلت آمیز خیال کیا جاتا تھا، صدیوں سے ان پر ظلم و ستم اور غیر انسانی نظریات کی جکڑبندی تھی ان کا سانس لینا تک دشوار تھا، اس کے ماسٹر مائنڈ برہمنوں نے آزادی کے بعد بھی ان کو ہمیشہ کسی نا کسی صورت میں کچلے رکھا، کیونکہ، یہ سامنے کی عملی سچائی ہیکہ گرچہ ملک میں بات جمہوریت کی ہوتی ہے لیکن 1947 کے بعد سے اب تک ملک میں پچھڑے طبقات کے ساتھ کیا جانے والا سوتیلا سلوڪ گواہی دیتا ہے کہ، حکمراں طبقات میں پسِ پردہ اب بھی منو سمرتی کی چھاپ موجود ہے اپنے ساتھ اس ظالمانہ روش کو اب ان طبقات کے جوان سمجھنے لگے ہیں اور ان کا شعور اس جانب تیزی سے حرکت میں ہے لیکن صد افسوس کہ اب ظلم کی دلدل میں دھکیلی جانے والی سربلند قومِ مسلم اس احساس بیداری سے بہت دور ہے۔اس وقت ملک کی بڑی ریاستوں میں انتخابات ہونے جارہےہیں جس میں گجرات بھی ہے، گجرات کا الیکشن کئی معنٰی کر اہمیت کا حامل ہے اور بی جے پی کے لیے گلے کی ہڈی ہے، کیونکہ اسی گجرات کے ماڈل کی رٹ لگا لگا کر بھاجپا نے مرکز کے چناؤ میں عوامی توجہ حاصل کی تھی، اسی گجرات ماڈل کو مودی جی کے وکاس کے بطور جانا جاتا ہے، یہ انتخاب پھر سے مرکزی الیکشن سے قریب ہونے جارہےہیں اسلیے اس کا راست اثر ۲۰۱۹ کے الیکشن پر بھی پڑنا ہے، یہی وجہ ہیکہ بھاجپا اور آر ایس ایس نے ڈیجیٹل دنیا سے لیکر زمین تک سب جگہ پوری طاقت جھونک دی ہے، دوسری طرف بھاجپا سے تنگ آئے ہوئے گجراتی باشندوں نے بھی ٹھانا ہے کہ اب کی بار وِکاس کے بھوت سے چھٹکارا حاصل کر کے ہی دم لیں گے، اس دفعہ گجراتی عوام کا شعور ملک کی دیگر ریاستوں کے بالمقابل کافی حدتک بیدار نظر آرہاہے، اور یہ خوش آئند ہے،اس بیداری کے کئی محرکات ہیں جن میں بھاجپا کی عوام مخالف سرگرمیاں اور کارپوریٹ سیکٹر نوازی کی ہوڑ میں عام تاجروں کے خلاف پالیسی سازی کر کر کے ان کا دیوالیہ نکلوانا جہاں نمایاں ہیں، وہیں وہاں کی پٹیل، پاٹیدار اور دلت برادری کے بشمول گجراتی عوام میں نوجوان تحریکات کی زبردست اثرانگیزی کا بھی دخل ہے، پٹیل برادری نے جس طرح اپنے نوجوان لیڈر ہاردک پٹیل اور دلت نوجوانوں نے جس طرح اپنے مخلص نڈر نوجوان جگنیش میوانی کو قومی کاز سپرد کیا ہے اور الپیش ٹھاکورے وغیرہ کی لیڈرشپ میں گجرات کی یہ برادریاں جس طرح گجرات سے بھاجپا کے خاتمے کے لیے دیوانہ وار کوششیں کررہی ہیں، وہ خوش آئند ہے، ملک میں ظالموں کی نیّا میں چھید کرنے کے لیے ابھارنے والا ہے، ان تینوں نوجوانوں کو میں ان کی جوانمردی اور باضمیری کے لیے تہنیت پیش کرتاہوں ان تینوں کو جس طرح قوم نے سرآنکھوں پر سجایا ہے اس نے ہماری نظر میں ان اقوام کی بیدار شعوری کو ثابت کردیا ہے، واقعی یہی امتیاز ہوتا ہے قومی زندگی کا،یہاں ان کوششوں میں سخت ضرورت ہیکہ مسلم نمائندگیاں بھی شامل ہوں ایسے وقت میں جبکہ بھاجپا کے وزیراعظم نریندر مودی کے حلقے میں الیکشن ہیں اور عوام ان کی ستم رسیدہ ہیں، ہمیں ان کے شانہ بشانہ، بلکہ دو قدم آگے بڑھ کر اس کاز کو ہاتھ میں لینا چاہئے، ماضی میں مولانا علی میاں ؒ و دیگر علماء امت کی یہ حکمت عملی ہوتی تھی کہ، الیکشن کے موقع پر " اھون البلیتین " سیاسی جماعت سے معاہدے کرکے قوم کی رہنمائی کی جاتی تھی، تاکہ ریاست اور ملک کی تشکیل میں ہمارا ایسا عملی حصہ ہو کہ ہم اس حوالے سے الیکشن کے بعد برسراقتدار جماعت کو آنکھیں تو دکھا سکیں، اس وقت گجرات کے انتخابات ایسے اہميت کے حامل ہیں کہ، وہ راست ۲۰۱۹ کے الیکشن پر اثرانداز ہوسکتے ہیں اسلیے مسلمانان گجرات کی ذمہ داریاں دوچند ہوجاتی ہیں کہ وہ آگے بڑھ کر قوم کو یکجٹ کریں اور ان کا متحدہ منشور و موقف پیش کریں، اس کے لیے ضروری ہیکہ، گجرات کے اکابر علما و دانشوران قومی شعور کی بیداری کے لیے تحریک چھیڑیں ابنائے مدارس جمعرات و جمعے کی تعطیلات کو ان مہمات کے لیے استعمال کریں، اور اپنے اطراف کے علاقوں میں عوام کے سیاسی شعور کی درست آبیاری کرنے کے لیے مساجد کا سہارا لیں، علماء مدارس اور کالجز کے نوجوان متحدہ محاذ تشکیل دے کر دیگر برادریوں سے دو قدم آگے بڑھا کر، اپنی واضح شناخت قائم رکھتے ہوئے قوم کو یکجٹ کرنے کے لیے زمین پر اتریں، پبلک میٹنگز، کارنر میٹنگز اور مدرسوں اور کالجوں کی جوائنٹ کانفرنسز منعقد کریں اور ان ظالموں کے خلاف ایک جراتمندانہ سیلِ رواں قائم کر دکھائیں کہ یہی موقع ہے کہ مسلم جوان مین اسٹریم میں اپنا لوہا منوائیں، اپنی زندگی کا آگے بڑھ کر ثبوت دیں، اپنے اولوالعزمانہ کارناموں کا منظر پیش کریں، یہ سب تم سے ممکن ہے کہ تم نے ہی وہ دورِ عزم اس دنیا کو دکھلایا تھا جب خانہ بدوش صحرا نشینوں کی صدائیں اور ان کی ایمانی تکبیرات سے شاہان زمن کانپ جاتے تھے، تم ہی سے وہ دور سعید عبارت ہے جب بحر و بر پرچم ہلالی سے شاداں تھے، وہ تمہارے ہی آبا تھے جن کے گھوڑوں کی ٹاپ یوروپ و ایشیاء کی سرزمینوں نے بڑھ بڑھ کر چومے ہیں، خلوص عمل اور جہد مسلسل سے سیماب وار مضطرب اعلائے حق کی خاطر جبل الطارق سے چین کی انتہا تک، تم ہی تم سربلند ہوئے تھے اور تمہاری سربلندی سب سے ممتاز تھی کہ تم نے تمام فراعنہ کے غروری قصر خاکستر کردیے تھے:آج، ایسے ہی جوان جو جذبۂ عشق و وارفتگی اور احساس عمل سے مضطرب ہوں، ان کی اس قوم کو پیاس ہے، کیا تم اپنے اسلاف کی تاریخ دوہراتے ہوئے اس پیاس کو نہیں بجھاؤگے؟ کیا تم ابھرتی اقوام میں اہل اسلام کا امتیاز ثابت نہیں کروگے؟ بخدا دل سے ٹیسیں اٹھتی ہیں، قدم اور قلم چھٹپٹاتے ہیں کہ جو بس میں ہے، جو ممکن ہے کم از کم وہی کوششیں ہی کرجاؤں کلمہء حق کی خاطر کیونکہ زندگی کی علامت بھی یہی ہے اور فریضۂ انسانی بھی اور تقاضائے اسلامی بھی یہی ہے کہ دستیاب کوششوں کو زمین پر لایا جائے، کیسے ہمارا دل یہ گوارہ کرسکتا ہے کہ ظلم کے خلاف گجرات کے متحرک منظرنامے پر قوم کا نمائندہ کوئی بھی نوجوان نا ہو، یہ ہماری حمیت اور حکمت دونوں کے منافی ہے،گجرات کے باشعور مسلمانوں، مدارس کے پاسبانوں، عصری جامعات کے فاضلوں اٹھو اور قومی کاز کو بڑھ کر سنبھالو پھر منظر دیکھنا، تمہاری کوششوں پر یہ کہن سال آسمان گواہی دے گا، تمہارے عروج و اقبال اور ملک میں ظلم و تشدد اور نفرت کے سوداگروں کے خلاف اہل گجرات کی محاذ آرائی پر ماجور تو ہوں گے ہی انقلابی تاریخ بھی درج ہوگی ۔ابھی ایک مہینہ ہے، گر مذہبی و ملی قیادت پوری سول سوسائٹی کے ساتھ ملکر جنگی پیمانے پر جدوجہد کرلیں تو شادکام تبدیلیاں قدم چومیں گی، اس میں حصہ داری ہمارے لیے سعادت مندی ہوگی ۔علماء نوجوانان اور دانشورانِ گجرات کی عملی مہم میں اپنا حصہ لگوانے کے لیے امیدوار: سمیع اللّٰہ خان ،جنرل سکریٹری: کاروانِ امن و انصاف

 
 
 
         
 
 
 
 
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں