(محمد ریحان اعظمیؔ)
انسان کی فطرت ہے کہ وہ دوسروں کے اعمال پر نظر رکھتا ہے، ان کی کوتاہیوں کو گنتا ہے اور اپنی خامیوں سے غافل رہتا ہے۔ یہی رویہ بعض اوقات دین کے معاملے میں بھی نظر آتا ہے، جہاں کچھ لوگ خود عمل کرنے کے بجائے دوسروں پر تنقید میں زیادہ مشغول نظر آتے ہیں۔ ایسا ہی ایک واقعہ اس وقت پیش آیا جب ایک عالم صاحب اور حافظ صاحب کے درمیان کسی دینی مسئلے پر گفتگو ہو رہی تھی۔
بحث کے دوران عالم صاحب تیش میں آ کر بولے:
"کچھ لوگ تو نماز پڑھتے ہی نہیں، وہ بس یہ دیکھتے ہیں کہ یہاں نماز نہیں ہوئی، وہاں نماز نہیں ہوئی!"
یہ جملہ بظاہر ایک عام طنزیہ تبصرہ تھا، لیکن اس میں ایک بڑی حقیقت پوشیدہ تھی۔ کچھ لوگ واقعی ایسے ہوتے ہیں جو اپنی عبادات اور دین پر عمل کے بجائے دوسروں کی نمازوں پر نظر رکھتے ہیں۔ وہ خود نہیں دیکھتے کہ ان کی اپنی نماز کیسی ہے، ان کا خشوع و خضوع کیسا ہے، بلکہ ان کی ساری توجہ اس پر ہوتی ہے کہ کون نماز نہیں پڑھ رہا اور کہاں نماز نہیں ہو رہی۔
دین ہمیں سکھاتا ہے کہ سب سے پہلے اپنی اصلاح کی جائے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"خوش نصیب ہے وہ شخص جو اپنے عیبوں پر نظر رکھے اور دوسروں کے عیبوں میں نہ پڑے۔"
یہ اصول نماز ہی نہیں بلکہ زندگی کے ہر پہلو میں لاگو ہوتا ہے۔ اگر ہر شخص اپنی عبادت، اپنے معاملات اور اپنی اصلاح پر توجہ دے، تو ایک صالح معاشرہ وجود میں آ سکتا ہے۔ اصلاح کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنے اعمال کو سنواریں اور اگر دوسروں کو نصیحت کرنی ہو تو محبت اور حکمت سے کریں، نہ کہ طنز اور تنقید کے ذریعے۔
یاد رکھیں! اللہ کے ہاں کامیابی کا معیار یہ نہیں کہ ہم دوسروں کی غلطیوں کو گنیں، بلکہ یہ ہے کہ ہم اپنی اصلاح کریں اور اپنی عبادات کو خالص اللہ کے لیے بجا لائیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں