مدارس اسلامیہ سماجیات اور بشریات کی تعلیم و تدوین کے مراکز
محمد خالد اعظمی
کسی معاشرے کی سماجی فلاح اور دنیا میں ترقی و کامیابی کیلئے علم کے حصول اور فروغ کو بنیادی اہمیت حاصل ہے اور اسی بنیاد پر انسان کو اشرف المخلوقات کی سند عطا ہوئی۔ تعلیم انسان کے اندر اس بات کا داعیہ اور احساس پیدا کرتی ہے کہ وہ اپنے فرائض اور واجبات، خواہ وہ اپنی ذات کے تئیں ہوں یا سماج معاشرے اور خاندان کے تئیں،انہیں دیانت داری اور مہارت کے ساتھ ادا کرے،
جس سے معاشرے کی چہار طرفہ نشوونما زیادہ بہتر طریقے سے ہو سکے۔ موجودہ تعلیمی نظام اور اسکے تئیں عوام کا رجحان ممکنہ حد تک مادہ پرستی، نجی فائدے اور ذاتی ارتقاء کے ہی ارد گرد گھومتا ہے، ایک ایسے دور میں جبکہ ہر فرد صرف مادی خواہشات کا دیوانہ اور اسکے حصول کی تگ و دو میں مصروف ہے ، اخلاقی اقدار اور معاشرتی فلاح کے تئیں اجتماعی ذمہ داریاں دونوں اب حاشئے پر چلے گئے ہیں نیز حصول تعلیم کی ساری تگ و دو صرف مادی وسائل و فوائد کے ارد گرد ہی گھومتی ہے۔
ہمارے دور کے تعلیمی اداروں میں کالجز اور یونیورسٹیز کا سارا نصاب اور نظام ہی انہیں اصولوں پر ترتیب دیا گیا ہے کہ انسان تعلیم کی سند لیکر اپنی صلاحیت اور ہنرمندی کی بنیاد پر زیادہ سے زیادہ پیسے کما سکے اور ایک پر آشائش زندگی ضمانت اسے حاصل ہو جائے ۔ اسی کے متوازی لیکن نظام اور نصاب میں نظریاتی اختلاف کے ساتھ ہمارے معاشرے میں دینی مدارس کا نظام تعلیم بھی ہے جو مادی وسائل کے حصول کو اپنی تعلیم کا بنیادی مقصد بنانے کے بجائے معاشرے میں تعلیم و تعلم کے فروغ کے ساتھ اخلاقی بنیادوں پر معاشرے کی تعمیر ، بہترین انسانی کردار کی تخلیق اور مجموعی طور پر ایک بہتر انسانی زندگی کی ترویج کے حصول کی تگ و دو کیلئے جانے جاتے ہیں،
ساتھ ہی یہ اخلاقی اقدار کے تحفظ اور سماج میں اجتماعی کردار سازی کیلئے مشعل بردار کا کردار بھی ادا کر سکتے ہیں ۔ موجودہ دور میں یہ مدارس کس حد تک سماج کے تئیں اپنی ذمہ داریوں کا حق ادا کر پارہے ہیں اور انسانی اقدار کے تحفظ کےساتھ اخلاقی بنیادوں پر ایک صالح معاشرے کی تشکیل میں یہ کس حد تک کامیاب ہیں، یہ مدارس کے معاشرے پر پڑنے والے اثرات کے مجموعی تجزئے اور مدارس کیلئے خود احتسابی کا موضوع ہے ۔
برصغیر میں مدارس کا موجودہ نصاب، جو کم و بیش ایک ہی طرح سے تما م مدارس میں نافذ ہے، کافی پرانا ہے، جن بزرگوں نے اسے ترتیب دیا تھا وہ اس وقت کی مذہبی و سماجی ضرورتوں کےمطابق اور ایک حد تک زمانے کے تعلیمی مقاصد سے ہم آہنگ بھی تھا، لیکن موجودہ وقت میں جس رفتار سے معاشرتی اقدار اور معاشی امکانات تبدیل ہو رہے ہیں، تعلیمی اداروں کو بھی ان تبدیلیوں کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر چلنا ضروری ہوتاہے ۔
اکثر یہ محسوس ہوتا ہے کہ ارباب مدارس اپنے یہاں جاری نظام تعلیم اور طلبہ کی نصابی و غیر نصابی سر گرمیوں میں ضروری ممکنہ تبدیلی سے گریزاں اور تعلیم کے جدید متوازی نظام کو اپنے اور اپنے دین و ایمان کیلئے ایک خطرہ تصور کرتے ہوئے اپنے شعبۂ تعلیم کو جدید بنیادوں پر استوار کرنے، نصاب میں زمان و مکان کی ضرورتوں کے مطابق امکانی تبدیلی اور نظام تعلیم میں جدت لانے و اپنانے سے حتی الامکان گریز کرتے ہیں ۔مدارس کا نصاب اپنے آپ میں ایک جدید نصاب ہونے کے قدرت رکھتا ہے اور زمانے کی ضرورتوں کے مطابق اپنے اندر معاشی و سماجی مسائل کا ادراک اور آفاقی حل بھی سموئے ہوئے ہے، لیکن اہل مدارس کی ناکامی یہی ہے کہ وہ دنیا کو یہ بتانے میں کامیاب ثابت نہیں ہو پا رہے ہیں کہ جن معاشرتی و انسانی علوم کی ترویج و ترقی کیلئے بڑے بڑے ادارے قائم کئے جارہے ہی مدارس میں بعینہ وہی علوم رائج اور شامل درس ہوتے ہیں۔آج کی مشہور زمانہ یونیورسٹیز اور تعلیمی اداروں میں جہاں سائنس کے بڑے بڑے شعبے قائم ہیں۔
وہیں بشریات اور سماجیات کے علوم کی تعلیم و تحقیق کیلئے بھی اتنا ہی بڑا شعبہ قائم ہے تاکہ ہر آن ہونے والی سماجی تبدیلیوں کے ساتھ انسانی معاشرے کو درپیش چیلنجز کا آسانی سے مقابلہ کیا جا سکے اور ایک بہتر مثالی معاشرے کی تشکیل ممکن ہو سکے۔ سماجی علوم کی ترویج و ترقی اور ان کی تدریس و تحقیق کا بنیادی مقصد ایک ترقی یافتہ سماج کی تشکیل و تدوین ہے جس کے لئے چند مروجہ علوم اور نصاب تیار کئے جاتے ہیں تاکہ طلبہ کو سماجی مسائل کا صحیح ادراک ہو سکے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ مدارس بھی انہیں علوم کی ترویج اور تدریس کے مراکز ہیں۔
مدارس کے بارے صرف ایک بات ہی مشہور ہے کہ یہ مسلمانوں کی مذہبی تعلیم کے ادارے ہیں جہاں صرف مسلمان طلبہ کو قرآن و حدیث اور فقہ کی تعلیم دی جاتی ہے لیکن اہل مدارس اس حقیقت کو عام کرنے سے گریز کرتے ہیں کہ یہ صرف مذہبی تعلیم کے مدرسے نہیں بلکہ جدید تعلیم گاہوں میں پڑھائے جانے والے سماجی علوم کے تمام مضامین کی تعلیم اور درس و تدریس کے مراکز ہیں۔ مدارس میں مذہبی علوم کے نام جو کچھ طلبہ کو پڑھایا جاتا ہے وہ سماجی علوم کی تعلیم، ترویج و اشاعت کے ضمن میں آتا ہے اور مدارس بنیادی طور پر سماجی علوم کے درس و تدریس کے مراکز ہیں۔ دور جدید میں اعلی تعلیم کے نام پر سماجیات اور بشریات کا علم ان تمام علوم کا احاطہ کرتا ہے ۔
جو سماج کی فلاح و بہبود اور معاشرتی خوشحالی کی تدوین و ترقی سے متعلق ہوتے ہیں۔ زبان و ادب، تاریخ، سماجیات، معاشیات، سیاسیات ، نفسیات ، مذہبیات و تہذیبی روایات سارے علوم سماجی فلاح و بہبود سے متعلق ہیں اور جدید درسگاہوں اور یونیورسٹیوں میں سوشل سائنسز اور ہیومنٹیز کے شعبوں کےتحت پڑھے پڑھائے جاتے ہیں۔ دنیا بھر میں تمام مدارس بھی بنیادی طور پر سماجی علوم کے ہی درس و تدریس اور تعلیم و تحقیق کے مراکز ہیں اور وہاں پڑھائے جانے والے سبھی مضامین زبان و ادب، قرآنی تفسیر، حدیث، فقہ ،
اسلامی قانون اور وصیت و وراثت کا حساب کتاب سب کے سب سماجی علوم کے مضامین ہیں ،اور انسانی و معاشرتی مسائل کے دیرپا حل کا بھر پور تجزیاتی علم اور ممکنہ حل کا خاکہ بھی رکھتے ہیں۔ موجودہ سیاسی حالات میں مدارس کی جو منفی تصویر بار بار نوکر شاہی اور ذرائع ابلاغ کے ذریعہ مشتہر کی جاتی ہے اس بارے میں اس تصور کو عام کرنے کی سخت ضرورت ہے کہ یہ صرف مذہبی تعلیم کے اسکول نہیں بلکہ بشریات اور سماجی علوم کے ادارے ( کالج آف ہیومنٹیز اینڈ سوشل سائنسز یا کالج آف آرٹس اینڈ سوشل سائنسز ) ہیں۔
اس تصور کو عام کرنے سے علمی حلقوں میں مدارس کی دوسری پہچان بھی مشتہر ہوگی اور باشندگان وطن بھی مدارس کو ایک ایسے کالج کے طور پر دیکھنا شروع کرینگے جہاں دیگر اقلیتی کالجوں اور یونیورسٹیوں کی طرح سماجی علوم اور آرٹس کے مضامین کی تدریس ہوتی ہے۔
موجودہ دور کی ضرورتوں اور تعلیم کے جدید نظریات کو سامنے رکھتے ہوئے مدارس نے اپنے نصاب اور کتب درس میں کچھ تبدیلیاں ضرور کی ہیں لیکن بنیادی طور پر اہل وطن مدارس کو مسلمانوں کی کٹر مذہبی تعلیم کے مرکز کے طور پر ہی دیکھتے اور سمجھتے ہیں، انکی اسناد اور ڈگریاں بھی مولوی ، منشی اور عالمیت ، فضیلت جیسے ناموں سے ہوتی ہیں جسے صرف اہل مدارس یا پڑھے لکھے مسلمان ہی سمجھ سکتے ہیں دیگر اہل وطن تو بالکل ہی نہیں سمجھ پاتے کہ اس نام کی سند رکھنے والے طالب علم کی ذہنی استعداد کی سطح کیا ہوسکتی ہے اور یہ سند یافتہ افراد کس حد تک جدید علمی مباحث کو سمجھنے کے اہل ہیں ۔
جبکہ موجودہ وقت میں انٹر ،بی اے ، ایم اے وغیرہ اتنا زبان زد ہے کہ اس نام سے بے پڑھا لکھا آدمی بھی کسی حد واقف ہے اور سند یافتہ شخص کی علمی استعداد کا ایک خاکہ اس کے ذہن میں آجاتا ہے بھلے سے طالب علم کے پاس اس سطح کی علمی صلاحیت کا فقدان ہی کیوں نہ ہو۔ عام طور سے مدارس میں کل بارہ یا تیرہ سالہ تعلیم کا محکم نصاب اور اسی کی تدریس و تکمیل کا انتظام ہوتا ہے جو جدید تعلیمی نظام میں انٹر میڈیٹ کے متوازی اور مساوی ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اتنے ہی سال کی تدریس سے مدارس کے طلبہ کی ذہنی استعداد انٹر پاس طالب علم کے مقابلے میں کہیں زیادہ بلند ہوجاتی ہے اور وہ معاشرتی علوم اور سماجیات کے تجزیاتی اور تنقیدی مطالعہ اور علمی استعداد میں انٹر پاس طالب علم سےبہت اوپر ہوتا ہے،
لیکن اس کے باوجود بھی حکومت کے عمومی ریکارڈ اور جائزو ں میں مدارس کی سند قابل قبول نہیں ہوتی اور انٹر پاس طالب علم اپنے آپ کو ہر جگہ پیش کرنے کا اہل ہوتا ہے۔اگر ہم مدارس کو سماجی علوم کے مراکز کے طور پر ایک نئی شناخت دے سکیں تو شائد ان مدارس کا تعلیمی مستقبل مزید مستحکم ہو جائے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں