راشٹریہ علماء کونسل کا لکھنؤ آفس
تحریک جلتی نہیں، مرتی نہیں، مٹتی نہیں
ذاکر حسین گزشتہ دنوں ایک المناک خبر موصول ہوئ کہ راشٹریہ علماء کونسل کا لکھنؤ واقع دفتر آگ کی نذر ہوگیا۔خبر افسوسناک ہے،لیکن بے شک مشکل کے بعد آسانی ہے۔انشاءاللہ دفتر پھر بنے گا اور پھر قوم و انسانیت کی بقا کیلئے جدوجہد کی کہانی یہیں سے لکھی جائے گی۔آگ نے سولہ سترہ سالوں پر محیط جدوجہد، قربانی،لگن،محنت، جرائت اور بہادری کی نشانیوں کو مٹا تو دیا ہے لیکن یاد رہے کہ تحریک جلتی نہیں، مرتی نہیں، مٹتی نہیں بلکہ وہ نسل در نسل منقتل ہوکر اپنے مشن پر گامزن رہتی ہے۔
راشٹریہ علماء کونسل ایک تحریک ہے،جو ملک کے مسلمانوں سمیت دبے کچلےکمزور، مظلوم کو ان کا جائز حق دلانے کیلئے وطن عزیز میں جدوجہد کی راہوں میں سرگرم عمل ہے۔بٹلہ ہاؤس سے لیکر،مسلم نوجوانوں کی فرضی گرفتاری، پولیس کسٹڈی میں مرحوم خالد مجاہد اور مرحوم قتیل صدیقی کی مشکوک موت پر پارٹی کے روح رواں محترم مولانا عامر رشادی صاحب و دیگر رہنماؤں کا جرائت مندانہ اقدام وطن عزیز کی تاریخ کے روشن باب ہیں۔
راشٹریہ علماء نے پسماندہ مسلمانوں کی لڑائی بھی بڑی جرائت سے لڑی ہے۔ پارٹی کا پسماندہ مسلمانوں کے حقوق کی لڑائ کا گواہ دارالحکومت دہلی کا جنتر منتر بنا،جب پارٹی کے رہنما اور کارکنان دفعہ341 پر لگی مذہبی پابندی ہٹاکر ملک کے پسماندہ مسلمانوں کو ریزرویشن کی سہولیات دوبار بحال کرنے کے مطالبے کو لیکر غیر معینہ مدت کیلئے دھرنے پر بیٹھے۔ ملک کی انصاف پسند عوام بالخصوص مسلمانوں کو سمجھنے کی ضرورت ہیکہ راشٹریہ علماء کونسل کا وجود ظلم و جبر کے دور میں ضروری ہے،
پارٹی ہم سب کا قیمتی سرمایہ ہے، اسے زندہ رکھنا اس کے وجود کو بچائے رکھنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ ہمیں اس حقیقت سے منھ نہیں موڑنا چاہیے کہ راشٹریہ علماء کونسل کے عروج کے وقت مسلمانوں اور عوام پر ظلم و زیادتی کا گراف کتنا کم ہوا تھا۔ ہمیں اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کرنا چاہیے کہ مسلم نوجوانوں کی فرضی گرفتاریوں پر روک لگانے والی یہی سیاسی پارٹی ہے۔
پارٹی رہنماؤں اور کارکنان سے کہنا چاہیں گے کہ مشکل وقت میں ہمیں بکھرنا نہیں بلکہ اپنے وجود اور جذبات کو سمیٹ کر رکھنا ہے اور آگے کا لائحہ عمل طے کرنا ہے۔ پارٹی دفتر کی از سر نو تعمیر میں ہم سب اپنی بساط بھر مثبت کردار ادا کریں اور برسوں سے امیدوں کی آغوش میں پلنے والے روشن مستقبل کے خواب کو پھر سے حقیقت میں بدلنے کیلئے جدوجہد کے میدان میں سرگرم عمل ہوں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں