شبلی نعمانی کی نظر میں وقف کا تمدنی و معاشی کردار
ڈاکٹر محی الدین آزاد فراہی :وقف اسلامی نظامِ معاشرت کا ایک بنیادی ستون ہے، جو صدیوں سے مسلم امت کے سماجی، تعلیمی، اور معاشی استحکام کی ضمانت دیتا رہا ہے۔ یہ نہ صرف ایک خیراتی عمل ہے بلکہ ایک تہذیبی و معاشی ڈھانچہ ہے جو عدل، احسان، اور بقائے باہمی کے اسلامی اصولوں کو عملی شکل دیتا ہے۔ علامہ شبلی نعمانی (1857–1914)، برصغیر کے ممتاز عالم، مورخ، اور مصلح، نے وقف کی اس عظیم صلاحیت کو گہرائی سے سمجھا اور اسے مسلم معاشرے کے احیاء کے لیے ایک کلیدی آلہ قرار دیا۔ ان کا نظریہ روایت کی گہرائی اور جدیدیت کے تقاضوں کا امتزاج تھا، جو دینی اقدار کی پاسداری کے ساتھ سماجی و معاشی ترقی کا نقشہ پیش کرتا تھا۔
شبلی نے وقف کو ایک جامد مذہبی رسم کے بجائے ایک متحرک، مستقبل ساز ادارے کے طور پر دیکھا، جو نوآبادیاتی غلامی، فکری زوال، اور معاشی پسماندگی سے نجات دلا سکتا تھا۔ ان کی تحریر *رسالہ وقف علی الاولاد،حیات شبلی * اور دیگر آثار اس وژن کی گہری عکاسی کرتے ہیں۔ یہ مضمون شبلی کے نظریۂ وقف کا جائزہ پیش کرتا ہے، جو ان کی تحریروں، خصوصاً *مسئلہ وقف علی الاولاد*، اور سید سلیمان ندوی کی کتاب *حیاتِ شبلی* کی روشنی میں مرتب کیا گیا ہے۔ مضمون وقف کے تعلیمی، سماجی، اور معاشی کردار کو بیان کرتا ہے اور اس کی معاصر اہمیت و عالمی مطابقت کو واضح کرتا ہے۔
*تاریخی تناظر: بحران کا دور اور شبلی کا عروج*
شبلی نعمانی ایک ایسے دور میں ابھرے جب مسلم معاشرہ گہرے بحران سے دوچار تھا۔ مغلیہ سلطنت کے زوال اور برطانوی راج کے غلبے نے مسلم معاشرے کی معاشی، فکری، اور سماجی بنیادیں ہلا دی تھیں۔
برطانوی پالیسیوں نے وقف جائیدادوں کو “اصلاحات” کے نام پر ضبط کیا، جس سے مساجد، مدارس، اور خیراتی اداروں کی مالی خودمختاری شدید متاثر ہوئی۔ مغربی تعلیم اور سیکولر نظریات نے روایتی اسلامی علوم اور مسلم شناخت کو چیلنج کیا۔
شبلی، جنہوں نے دینی علوم کے ساتھ مغربی فکر کی گہری سمجھ حاصل کی تھی، اس بحران کو ایک موقع کے طور پر دیکھتے تھے۔ انہوں نے روایت اور جدت کے درمیان توازن کی ضرورت پر زور دیا۔ سرسید احمد خان کے علی گڑھ تحریک سے وابستگی اور ندوۃ العلماء کے قیام میں ان کا کردار اسی مقصد کی طرف ایک قدم تھا۔
شبلی کے نزدیک، وقف ایک ایسی قوت تھی جو ماضی کے تہذیبی ورثے کو محفوظ رکھنے کے ساتھ مستقبل کے خودکفیل مسلم معاشرے کی بنیاد رکھ سکتی تھی۔
*تعلیمی احیاء: وقف کی فکری قوت*
شبلی نے تعلیم کو معاشرتی ترقی کا سنگ بنیاد سمجھا اور وقف کو تعلیمی اداروں کے مالی استحکام اور فکری آزادی کا ذریعہ قرار دیا۔ ان کا تعلیمی وژن دو اہم اصولوں پر مبنی تھا:
*1. روایتی مدارس کی جدید کاری*
شبلی نے روایتی مدارس کے فرسودہ نصاب اور غیر مستحکم مالی ڈھانچے کو مسلم معاشرے کی پسماندگی کی بڑی وجہ قرار دیا۔ انہوں نے وقف کو اس زوال سے نجات کا ذریعہ بنایا۔ *حیاتِ شبلی* میں سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں کہ شبلی *"مدارس کو مالی خودمختاری اور جدید علوم سے آراستہ کرنے کے لیے وقف کے کردار کو کلیدی سمجھتے تھے۔"*
- *انفراسٹرکچر کی تعمیر*: شبلی نے تجویز کیا کہ وقف سے کتب خانوں، سائنسی لیبارٹریوں، اور طلبہ کے ہاسٹلوں کی تعمیر ممکن ہے۔
ندوۃ العلماء اس وژن کی زندہ مثال تھی، جہاں دینی علوم کے ساتھ انگریزی، سائنس، اور ریاضی کو نصاب کا حصہ بنایا گیا۔ یہ ادارہ وقف کی آمدنی سے چلتا تھا، جو اسے مالی خودمختاری بخشتا تھا۔
- *فکری آزادی*: وقف سے حاصل آمدنی نے تعلیمی اداروں کو بیرونی مداخلت سے آزاد رکھا، جو شبلی کے نزدیک فکری آزادی اور دینی تشخص کے لیے ناگزیر تھا۔
*2. تنقیدی فکر کا فروغ*
شبلی نے حفظ پر مبنی تعلیم کے مقابلے میں تنقیدی اور تحقیقی علوم کی ضرورت پر زور دیا۔ ان کا جریدہ *رسالۂ ندوہ*، جو وقف کی مالی اعانت سے چلتا تھا، علما کو تاریخ، فلسفہ، اور جدید علوم سے روشناس کراتا تھا۔ یہ جریدہ فکری بیداری کا ایک اہم پلیٹ فارم بنا۔ شبلی کا استدلال تھا کہ وقف سے چلنے والے ایسے پلیٹ فارم مسلم امت کی فکری ترقی کے لیے ناگزیر ہیں۔
*سماجی بہبود: وقف اور اسلامی فلاحی نظام*
شبلی کا نظریہ وقف اسلامی فلاحی ریاست کے تصور سے گہرا متاثر تھا، جو ریاستِ مدینہ میں خیراتی عطیات کے ذریعے غریبوں، یتیموں، اور عوامی سہولیات کی کفالت کرتی تھی۔ انہوں نے وقف کو ایک سماجی ڈھانچہ قرار دیا جو عدل و احسان کے اسلامی اصولوں کو عملی شکل دیتا تھا۔ ان کی تحریر *وقف علی الاولاد* میں وہ لکھتے ہیں:
(*"وقف ایک ایسی شرعی تدبیر ہے جو نہ صرف خاندان کی معاشی حفاظت کرتی ہے بلکہ معاشرے کی فلاح و بہبود کو مستقل بنیادوں پر یقینی بناتی ہے۔"*
ان کے اس وژن کے اہم پہلو یہ ہیں:
*1. غربت کا خاتمہ*
شبلی نے غربت کو مسلم معاشرے کی سب سے بڑی کمزوری قرار دیا اور وقف کو اس کے خاتمے کا مؤثر ذریعہ سمجھا۔ انہوں نے زکات اور وقف کے امتزاج سے ایک جامع فلاحی نظام کی تجویز دی۔ حیدرآباد اور لکھنؤ کے وقف سے چلنے والے ہسپتال، یتیم خانے، اور لنگر خانوں نے اس کی عملی مثال پیش کی۔ شبلی نے وقف کی آمدنی سے بے سود قرضوں (قرضِ حسنہ) کی فراہمی کی وکالت کی، جو کسانوں اور ہنرمندوں کو خودکفیل بناتا تھا۔ یہ نظریہ بعد میں جدید اسلامی بینکنگ کا اہم اصول بنا۔
*2. خواتین کی ترقی*
شبلی نے مردسالار سماجی نظام کو غیر اسلامی رجحان قرار دیا اور خواتین کی تعلیم و ترقی کے لیے وقف کے استعمال کی حمایت کی۔ *حیاتِ شبلی* کے مطابق، ان کا موقف تھا کہ *"خواتین کی تعلیمی و معاشی خودمختاری کے بغیر مسلم معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا"* علی گڑھ اور لکھنؤ میں وقف سے قائم لڑکیوں کے اسکول اور وظائف اس وژن کی عملی تعبیر تھے۔
*3. عوامی سہولیات کی فراہمی*
شبلی نے وقف کو پانی کے کنوؤں، مسافر خانوں، اور مساجد کی تعمیر کا ذریعہ قرار دیا۔ انہوں نے عثمانی اور مغلیہ دور کے وقف پر مبنی پل اور بازاروں کی مثالیں دیں، جو سماجی ہم آہنگی اور معاشی سرگرمیوں کو فروغ دیتے تھے۔ ان کا استدلال تھا کہ یہ سہولیات اسلامی معاشرے کی تہذیبی عظمت کی عکاسی کرتی ہیں۔
*معاشی خودکفالت: وقف کا معاشی کردار*
شبلی نے وقف کو معاشی ترقی کا پائیدار ذریعہ قرار دیا، جو مسلم معاشرے کو نوآبادیاتی استحصال سے نجات دلا سکتا تھا۔ ان کے معاشی وژن کے کلیدی پہلو یہ ہیں:
*1. پائیدار آمدنی کے ذرائع*
شبلی نے وقفِ خیری اور وقفِ اہلی دونوں کی حمایت کی، لیکن ان کا زور تجارتی وقف پر تھا۔ *مسئلہ وقف علی الاولاد* میں وہ لکھتے ہیں: *"وقف کی آمدنی سے نہ صرف خاندان بلکہ پورا معاشرہ مستفید ہو سکتا ہے، بشرطیکہ اسے مستقل اور پیداواری ذرائع سے منسلک کیا جائے۔"* وقف جائیدادیں—جیسے دکانیں، بازار، اور زرعی زمینیں—کرائے اور پیداوار سے آمدنی پیدا کرتی تھیں۔ دہلی کا قیصریہ بازار اس کی نمایاں مثال ہے۔
*2. نوآبادیاتی استحصال کے خلاف مزاحمت*
برطانوی راج نے وقف جائیدادوں کو ضبط کر کے مسلم معاشرے کی معاشی کمر توڑ دی تھی۔ شبلی نے علما کو وقف کی دستاویزات جمع کرنے اور ان کا قانونی دفاع کرنے کی ترغیب دی۔ *حیاتِ شبلی* کے مطابق، ان کا استدلال تھا کہ *"وقف کی حفاظت ایک دینی فریضہ ہے جو نوآبادیاتی استحصال کے خلاف مزاحمت کی ایک شکل ہے"* ان کی یہ تجویز بعد میں وقف بورڈز کے قیام کی بنیاد بنی۔
*چیلنجز: قدامت پسندی اور انتظامی مسائل*
شبلی کے نظریات کو قدامت پسند علما کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، جو وقف کی جدید کاری کو مغرب زدگی سمجھتے تھے۔ *حیاتِ شبلی* میں ذکر ہے کہ شبلی نے ان تنقیدوں کا مقابلہ فکری دلیل اور عملی اصلاحات سے کیا۔ آزادی کے بعد، ہندوستان اور پاکستان میں وقف کے انتظامی مسائل—بدعنوانی، ناقص ریکارڈ کیپنگ، اور قانونی تنازعات—نے ان کے وژن کو چیلنج کیا۔ تاہم، ان کے خیالات نے جدید اسلامی بینکنگ اور اصلاحی تحریکات کو متاثر کیا۔
*عالمی مطابقت: وقف کا عالمگیر وژن*
شبلی کا نظریہ وقف آج کے عالمی تناظر میں بھی غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ جدید اسلامی مالیاتی نظام، جس کی مالیت 2024 تک 4 ٹریلین ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے، وقف کو پائیدار ترقیاتی ماڈل کے طور پر دیکھتا ہے۔ ملائیشیا، ترکی، اور خلیجی ممالک میں وقف پر مبنی یونیورسٹیاں اور ہسپتال شبلی کے وژن کی عملی مثالیں ہیں۔ اسلامی ترقیاتی بینک جیسے عالمی ادارے وقف کو پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
*معاصر چیلنجز اور مستقبل کی راہ*
ہندوستان میں 8 لاکھ سے زائد وقف جائیدادیں ہیں، لیکن بدعنوانی اور ناقص انتظام ان کی صلاحیت کو محدود کر رہے ہیں۔ شبلی کے وژن کو زندہ کرنے کے لیے ڈیجیٹلائزیشن، قانونی اصلاحات، اور عوامی بیداری ضروری ہے۔ ان کا استدلال کہ وقف کی حفاظت اور مؤثر استعمال مسلم معاشرے کی ترقی کے لیے ناگزیر ہے، آج بھی درست ہے۔
*نتیجہ: ایک تہذیبی دعوت*
شبلی نعمانی کا نظریہ وقف ایک منطقی اور انقلابی وژن تھا، جو اسلامی اقدار کو جدید اصلاحات سے جوڑتا تھا۔ انہوں نے وقف کو تعلیم، سماجی بہبود، اور معاشی خودکفالت کا ذریعہ بنا کر ایک باوقار مسلم معاشرے کی بنیاد رکھی۔ *مسئلہ وقف علی الاولاد* اور *حیاتِ شبلی* کی روشنی میں ان کا وژن آج بھی غربت، تعلیمی تفاوت، اور معاشی عدم مساوات کے حل کے لیے رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ شبلی کا وقف پر مبنی تہذیبی وژن ایک روشن مینار ہے، جو ہمیں عدل، احسان، اور بقائے باہمی کے اصولوں پر مبنی ایک بہتر مستقبل کی طرف بلاتا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں