تازہ ترین

بدھ، 2 جولائی، 2025

نجیب احمد کیس: سی بی آئی کی پیشہ ورانہ ناکامی اور حکومت کی مجرمانہ خاموشی۔

 
نجیب احمد کیس: سی بی آئی کی پیشہ ورانہ ناکامی اور حکومت کی مجرمانہ خاموشی۔
از (محمد‌ لقمان‌ ندوی ممبئی )15 اکتوبر 2016 کی ایک رات تھی جب دہلی کی مشہور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (JNU) سے ایم ایس سی (بایوٹیکنالوجی) کے طالب علم نجیب احمد پراسرار طور پر لاپتہ ہو گیا۔ 

اس واقعے نے پورے ملک میں سنسنی پھیلا دی، ماں نے دہائی دی، طلبہ نے احتجاج کیا، سول سوسائٹی چیخی، میڈیا میں بحث ہوئی، مگر وقت کے ساتھ سب کچھ سرد پڑتا گیا۔ 

اب جب سی بی آئی نے اس معاملے میں کلوزر رپورٹ عدالت میں جمع کردی اور عدالت نے اسے قبول بھی کرلیا، تو یہ صرف ایک تفتیش کا اختتام نہیں، بلکہ ہندوستانی نظام انصاف کی پامالی اور حکومت کی اخلاقی و سیاسی ناکامی کا آئینہ ہے۔

نجیب احمد ایک ذہین، پرعزم اور خوش مزاج طالب علم تھا۔ وہ جے این یو کے ہوسٹل 1 میں مقیم تھا۔ رپورٹوں کے مطابق، اے بی وی پی (اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد) کے کچھ طلبہ سے اس کی جھڑپ ہوئی۔ اس کے بعد وہ اچانک لاپتہ ہو گیا۔ یونیورسٹی انتظامیہ، پولیس، اور بعد میں سی بی آئی نے تحقیقات کیں، مگر کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے۔

وہ اہم سوالات جو آج بھی زندہ ہیں اور تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہیں گے،

1. نجیب کے آخری لمحات کی سی سی ٹی وی فوٹیج کیوں غائب ہے؟

2. اے بی وی پی کے جن طلبہ سے جھگڑا ہوا، ان سے سنجیدگی سے تفتیش کیوں نہیں کی گئی؟

3. کیا سی بی آئی واقعی ایمانداری سے تفتیش کر رہی تھی یا سیاسی دباؤ کے تحت معاملے کو دبایا گیا؟

4. کیا اقلیتی شناخت نجیب کے ساتھ ناانصافی کی بنیاد بنی؟

سی بی آئی کی کارکردگی:

سی بی آئی کو 2017 میں دہلی ہائی کورٹ کے حکم پر اس کیس کی تفتیش سونپی گئی مگر اپنے سالوں بعد بھی سی بی آئی کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکی، اب اس نے کلوزر رپورٹ دے کر ہاتھ جھاڑ لیے،
 مجرموں نے گھی کے چراغ روشن کردئے، اس رپورٹ میں کوئی مجرم، کوئی شبہہ، کوئی نئی معلومات سامنے نہیں آئیں جیسے بابری مسجد کے سارے ملزم بری، یہ کہنا پڑے گا کہ سی بی آئی نے اس اہم کیس میں عوامی اعتماد کو مجروح کیا بلکہ خود اپنی ساکھ کو کوڑیوں لائق نہیں چھوڑا۔

اس پوری تفتیش کے دوران بے حس حکومت خاموش تماشائی بنی رہی، نہ وزیر داخلہ نے سنجیدگی دکھائی، نہ وزیر تعلیم نے، وزیراعظم دفتر سے کوئی ہمدردانہ بیان تک نہ آیا۔ جبکہ یہ مسئلہ ملک کے نوجوانوں، طلبہ، تعلیمی اداروں اور اقلیتوں کے اعتماد سے جڑا تھا۔

یہ خاموشی اتفاقی نہیں بلکہ اس سیاسی سوچ کی عکاسی ہے جو اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں کی جان و مال کو عزت و وقار کو دوسرے درجے کی حیثیت دیتی ہے۔

نجیب احمد کی والدہ فاطمہ نرجس نے عدلیہ، میڈیا، پارلیمنٹ اور عوام تک مسلسل انصاف کی اپیل کی، وہ ایک عام خاتون ہیں، مگر ان کا حوصلہ ہندوستان کی ہر ماں کے دل میں ایک سوال پیدا کرتا ہے، ہر باپ کو تقویت بخشتا اور ہر بیٹے کو تحفظ کے تئیں ہوشیار رہنے پر آمادہ کرتا ہے، ہر خاص و عام کا یہ سوال ہے کہ

"اگر میرا بیٹا کل لاپتہ ہو جائے، تو کیا سے بی آئ کا یہی رویہ ہوگا اور ریاست اسی طرح خاموش رہے گی؟"

افسوس اسے  ایک معمولی کیس کی طرح ڈیل کیا گیا جبکہ یہ صرف ایک کیس نہیں، بلکہ نجیب کی گمشدگی ایک علامت بن چکی ہے اس ہندوستان کی، جہاں سچ بولنا، سوال اٹھانا اور اقتدار و ارباب اقتدار  سے اختلاف رکھنا خطرناک جرم ہو گیا ہے، جہاں ادارے خاموش ہیں، میڈیا بکتا ہے، اور انصاف فائلوں میں دفن ہو جاتا ہے۔ یا‌ جسٹس‌ لویا کی طرح تابوت میں بھر کر گھر بھیج دیا جاتا ہے۔

یہ وقت ہے کہ ہندوستان کے عوام، خاص طور پر نوجوان، اس سوال کا جواب تلاش کریں کہ
"کیا یہ وہی ہندوستان ہے جس کا خواب ہمارے بزرگوں نے دیکھا تھا؟"

ہمیں ایسے نظام کی ضرورت ہے جو صرف قانون کے تابع نہ ہو بلکہ انسانیت، ہمدردی، اور ضمیر کے تابع ہو، نجیب احمد واپس نہیں آیا، مگر اس کا سوال زندہ ہے، اور جب تک اس ملک کے ضمیر زندہ ہیں، یہ سوال پوچھا جاتا رہے گا۔

ہم نے خواجہ یونس کی دکھیارے والدہ کو دیکھا تھا کہ کیسے آزاد میدان میں سردی، گرمی و برسات کے پرواہ کئے بغیر انصاف جو اس کا حق تھا وہ بھیک کی طرح مانگتی رہیں، دنیا کی کسی‌ عدالت سے انصاف تو نہیں مل سکا، لیکن احکم الحاکمین کی عدالت میں اپنی فریاد لیکر ضرور پہونچ گئیں،

اسی طرح محترمہ ذکیہ جعفری تیئیس سال انصاف کے لئے جد وجہد کرتے رہیں، ٹو ہوئے قلم انصاف نہیں لکھتے گمراہ کن لکیریں بناتے ہیں،

ملک کو آج صرف قابل افراد کی نہیں، ہمدرد، دیانتدار اور بیدار ضمیر رکھنے والے لوگوں کی اشد ضرورت ہے،نجیب کا نام ہم بھلا سکتے ہیں، لیکن انصاف کے اصولوں کو دفن نہیں کر سکتے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad