تازہ ترین

جمعہ، 2 مئی، 2025

یوم مئی ؛ یوم مزدور : حقوق کم استحصال زیادہ

یوم مئی ؛ یوم مزدور : حقوق  کم استحصال زیادہ 
( محمد خالد اعظمی ) ماہ مئی کی پہلی تاریخ کو بین الاقوامی یوم کام گار ، عالمی یوم مزدور ، یوم مئی ، انٹر نیشنل ورکرز ڈے جیسے کئی ناموں سے منایا جانے والا یہ دن درحقیقت ان مزدوروں کی یاد میں منایا جاتا ہے جو ۱۸۸۸ میں شکاگو شہر میں اپنے حقوق اور کام کے گھنٹوں کو ریگولیٹ کرنے کے لئے نکالی گئی ریلی میں اچانک پھوٹ پڑنے والے تشدد کے دوران ہلاک ہو گئے تھے۔ امریکہ میں یہ کام گار یا مزدور اس بات کیلئے مظاہرہ کررہے تھے۔

 کہ ان کے کام کے دورانئے کوبارہ اور دس  گھنٹے سے کم کرکے آٹھ گھنٹہ کیا جائے۔ اسی مظاہرے اور مزدوروں کے اپنے حقوق کی بازیافت کیلئے کی جانی والی کو ششوں کی یاد کے طور پر ہر سال یوم مزدور منانے کی روایت چل پڑی اور کم و بیش دنیا کے زیادہ تر ممالک میں پہلی مئی کو یوم مزدور کے طور پر منانے کی روایت موجود ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اب پھر دنیا بھر میں صنعتی مزدوروں کے کام کے دورانیہ کو پھر دس اور بارہ گھنٹہ یومیہ کردیا گیا ہے لیکن اس استحصال کے خلاف کوئی آواز پوری دنیا میں سنائی نہیں دے رہی ہے۔ 

سرمایہ دارانہ نظام کے اندر مزدور کے حقوق کی بات کرنا ایک بے معنی چیز سمجھی جاتی ہے۔ کونکہ بقول مارکس مزدور کا استحصال ہی منافع پیدا کرنے کا واحد ذریعہ  ہے اسلئے منافع کو بڑھاتے رہنے اور سرمائے کے ارتکاز کیلئے مزدور سے زیادہ سے زیادہ کام لینا اور اسے کم سے کم مزدوری دینا بہت ضروری ہے۔اسی لئے مزدورں کے حقوق کے تحفظ اور ان کے نظام الاوقات کے تعین کیلئے سب سے زیادہ آواز اشتراکی ممالک اور سوشلسٹ تنظیمیں اٹھاتی رہی ہیں۔

 اور آج بھی یوم مئی کے انعقاد اور مزدوروں کے حق میں آواز سب سے زیادہ سوشلسٹ اور اشتراکی نظریات رکھنے والے گروپس ہی اٹھاتے ہیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اشتراکی نظام والے ممالک میں مزدوروں کا استحصال کسی بھی طرح سرمایہ دارانہ نظام سے کم نہیں تھا۔ 

ہمارا ملک بھی اس وقت پوری طرح سے استعماری سرمایہ دارانہ نظام کے نرغے میں ہیں جہاں مختلف قسم کی خدمات دینے والے  مزدوروں اور کام گاروں کا استحصال بالکل عام بات ہے۔ پیداوار کے نجی زمروں میں اب بارہ گھنٹے کے کام کا شیڈول اتنا عام ہو چکا ہے کہ اب اس بابت کوئی بات ہی نہیں کرتا نہ اس کے خلاف کوئی ٹھوس اور مضبوط آواز کہیں سے سنائی دیتی ہے ۔ سرمایہ دارانہ نظام کے حامل زرپرستوں کا حوصلہ اتنا بڑھ چکا ہے کہ ہمارے ملک میں انفوسس اور L&T جیسی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے حکام اب ہفتہ میں 80 اور  90 گھنٹہ کامُ کرنے اور کام لینے کی بات کر رہے ہیں۔

 اور کوئی ان کے خلاف آواز بھی نہیں اٹھاتا ۔ٹھیکے پر مزدور رکھنے اور کسی طرح کا مزدوری ایگریمنٹ وغیرہ نہ بننے دینے سے ان کامگاروں کو صحت، رہائش اور حفاظتی بیمے جیسی سہولیات سے بھی محروم کردیا جاتا ہے اور المیہ یہ ہے کہ اشتراکیت اور سوشلسٹ نظریات کی حاملُ تنظیموں کے کمزور ہو جانے کی وجہ سے اب مزدوروں کے حقوق اور ان کو ملنے والی سہولیات وغیرہ پر اب کہیں کو ئی بات ہی نہیں ہوتی ۔ ویسے حقیقت یہ ہے کہ سوشلسٹ اور اشتراکی ممالک میں بھی مزدوروں کے حالات کچھ بہت اچھے نہیں تھے وہاں بھی پیداوار کم ہونے اور بالآخر نظام کے زمیں دوز ہو جانے کی بنیادی وجہ مزدوروں کے خراب حالات اور آزاد ماحول میں انہیں کام  اور کام کے انتخاب کی آزادی کا نہ مل پانا ہی تھا۔

 ۔مزدوروں کا سب سے زیادہ استحصال غیر منظم سیکٹر میں ہوتا ہے جہاں نہ مزدوری کا تعین کیا جاتا ہے، نہ ہی کام کے گھنٹوں کا، اور نہ ہی انہیں کسی طرح کی روزگار گارنٹی یا بیمہ اور صحت جیسی کوئی سہولت ہی مہیا کرائی جاتی ہے۔ ہمارے ملک کی کل پیداوار کا تقریباً نوے فیصد غیر منظم سیکٹر سے ہی آتا ہے جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ملک کی پیداوار میں اضافے اور ترقی کے اشارئے کو مضبوط کرنے میں ان غیر منظم مزدوروں کی کتنی بڑی حصہ داری ہے اور حقوق و فرائض کے نام پر انہیں کیا حاصل ہے۔ 

اب یوم مزدور منانا یا اس دن کے تعلق سے کوئی پروگرام منعقد کروالینا بس ایک روایت کی حد تک محدود ہے جہاں چند افراد یا دانشوران قوم کچھ وقت کے لئے اکٹھے ہوکر کارل مارکس اور لینن کو یاد کرتے ہوئے مزدور طبقے کی زبوں حالی اور ان پر ہونے والے ظلم اور استحصال پر بھی کچھ لب کشائی کر لیتے ہیں۔ اگر یوم مئی یا یوم مزدور کے انعقاد کے تعلق سے کوئی بھی مثبت اور مزدوروں کے موافق کام ہوا ہوتا تو ہندوستان یا عالمی سطح پر مزدوروں کے حالات اتنے خراب نہ ہوتے جتنے موجودہ وقت میں ہیں۔ آج بھی ہمارے ملک میں مزدوروں کے حق میں کچھ مظاہرے اور ریلیاں ہو سکتی ہیں لیکن تضاد یہ ہے کہ ان مظاہروں میں مزدور کم اور یوم مزدور کے ذریعہ اپنے ذاتی مفاد کو حاصل کرنے والے زیادہ ہونگے۔

اسلام میں مزدوروں کے حقوق پر بہت زور دیا گیا ہے اور ان کی جائز ، متناسب و منصفانہ مزدوری  بروقت ادا کرنے کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ مشہور حدیث ہے جس کا مفہوم ہے کہ مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کردو۔ لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے مزدوروں کے حقوق کے تعلق سے مسلم معاشروں اور خود مسلم ممالک کے حالات بھی کچھ زیادہ بہتر نہیں ہیں۔ بشمول مسلم ممالک پیداوار کا سرمایہ دارانہ نظام جہاں جہاں نافذ ہے وہاں سارے معاشی عمل کی بنیاد کثیر منافع کا حصول اور دولت کا ارتکاز ہی ہے جس میں مزدور یا دیگر عوامل پیداوار کا استحصال ناگزیر ہو گیا ہے۔

 اگر مزدوروں کو ان کی مزدوری ان کے کام اور  پیداوار میں ان کے تعاون اور تناسب کے حساب سے ادا کرنے کا نظام نافذالعمل ہوتو دنیا میں دولت اور آمدنی کا ارتکاز بہت کم ہو جائے گا اور دولت کی منصفانہ تقسیم اور اس کا بہاؤ بالکل درست سمت میں ممکن بنایا جا سکتا ہے، لیکن موجودہ نظام میں غیر متناسب منافع کمانے کا نظام اور زیادہ سے زیادہ دولت اکٹھی کر لینے کی ہوس اور لالچ کے انسانی مزاج نے ایسا معاشی نظام ترتیب دیدیا ہے جس میں منافع کو انسانی محنت سے الگ کر دیا گیا ہےاور اسے فرد واحد کی ذاتی کاوش ،

 خطرات اٹھانے ، جوکھم لینےاور مستقبل کی غیر یقینی صورتحال سے نبرد آزمائی جیسے عوامل سے منسلک کرکے پیداواری اور تجارتی نظام اس طرح بنا دیا گیا ہے جس کی وجہ سے منافع کی روز افزوں ترقی اور افزائش اسی وقت ممکن ہے جب پیداواری لاگت کو کم ترین سطح پر لایا جائے اور پیداواری لاگت کو کم کرنے کا سب سے آسان طریقہ ہے کہ مزدور سے کام زیادہ سے زیادہ لیا جائے اور اسے مزدوری کم سے کم دی جائے، یا مزدور پر انحصار کم کرکے ان کی جگہ مشینوں سے کام لیا جائے۔ 

یہی مزدوروں کے بڑھتے ہوئے جسمانی و ذہنی استحصال، شرح منافع میں کئی راستوں سے کئی گنا اضافہ اور دن دونی رات چوگنی ارتکاز دولت کی بنیادی وجہ ہے۔ پوری دنیا میں مزدوروں کے حقوق کی بات کرتے وقت انہیں مختلف طرح کی سہولیات فراہم کرنے کی بات تو ہوتی ہے لیکن کبھی بھی انہیں ان کے کام کے تناسب سے مزدوری اور پیداواری نظام میں ان کے تعاون کے بقدر حصہ دینے کی بات نہیں کی جاتی کیوں کہ ایسا کرنے سے سرمایہ دار کا منافع اور دولت کا ارتکاز کم ہونے کا خطرہ پیدا ہو جائے گا۔

 یوم مئی یا یوم مزدور آج کے وقت میں ایک نمائشی دن کے طور پر منایا جاتا ہے اور جو لوگ اس دن مزدوروں کے حقوق کی آواز اٹھاتے ہیں حقیقت میں وہ بھی کچھ بہت زیادہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad