بھوگاؤں اسٹیٹ بینک ڈکیتی کیس: 22 سال بعد بھی راز برقرار، ملزمان بری
تین افراد کے قتل اور 88 لاکھ کی لوٹ: عدالت نے پولیس کی ناقص تفتیش پر ملزمان کو رہا کیا
بھوگاؤں، مین پوری: حافظ محمد ذاکر (یو این اے نیوز 25مئی 2025) 28 جنوری 2003 کی رات کو بھوگاؤں میں واقع اسٹیٹ بینک آف انڈیا کی برانچ میں پیش آنے والا ڈکیتی اور تین افراد کے قتل کا واقعہ آج بھی ایک معمہ بنا ہوا ہے۔ 22 سال قبل ہوئی اس ڈکیتی میں 88.20 لاکھ روپے لوٹے گئے اور بینک کے دو ملازمین، کیشیئر آر کے گپتا اور اکاؤنٹنٹ ایم سی اگروال، کے ساتھ ساتھ سیکورٹی گارڈ شیوراج سنگھ کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔
ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج (اے ڈی جے) اسپیشل روبری جے پرکاش کی عدالت نے 22 سال بعد اس کیس میں تین ملزمان کو بری کر دیا، جبکہ ایک ملزم کی مقدمے کے دوران موت ہو چکی تھی۔ سوال اب بھی باقی ہے کہ آخر اس ڈکیتی کو کس نے انجام دیا اور کیا مقتولین کو کبھی انصاف مل پائے گا؟
واقعہ اس وقت پیش آیا جب بینک کا گیٹ بند تھا اور ملازمین زیر التواء کام نمٹا رہے تھے۔ سیکورٹی گارڈ گریش دوبے رات 8 بجے ڈیوٹی بدلنے پہنچا تو گیٹ کھلا پایا۔ اندر جا کر اس نے تینوں ملازمین کی خون آلود لاشیں اور کھلا لاکر دیکھا۔ پولیس نے ابتدائی تفتیش کے بعد کیس میں ناکامی کی وجہ سے 6 اگست 2005 کو فائنل رپورٹ (ایف آر) درج کر دی۔ تاہم، 2010 میں پولیس نے دعویٰ کیا کہ امہیرا گاؤں میں ایک کھیت سے 2.90 لاکھ روپے برآمد ہوئے،
جس کی بنیاد پر اودھیش عرف وٹو، شاہ روز عادل، اور ستیش کو گرفتار کیا گیا۔ اودھیش کے بیانات پر اکبر قریشی کو بھی کیس میں نامزد کیا گیا۔ پولیس نے دعویٰ کیا کہ برآمد شدہ رقم اسی ڈکیتی سے متعلق تھی، لیکن عدالت میں یہ ثابت نہ کر سکی۔
8 دسمبر 2015 کو ملزمان پر فرد جرم عائد کی گئی، لیکن استغاثہ کے شواہد اور گواہوں کے سامنے دفاعی وکلاء کی دلیلیں مضبوط ثابت ہوئیں۔ عدالت نے پولیس کی ناقص تفتیش اور ٹھوس شواہد کی عدم موجودگی کی بنا پر تمام ملزمان کو بری کر دیا۔
اس فیصلے نے نہ صرف پولیس کی تفتیش پر سوالات اٹھائے بلکہ مقامی سطح پر کئی افراد کی بدنامی کا سبب بھی بنا۔ 22 سال گزرنے کے باوجود یہ کیس حل نہ ہو سکا، اور متاثرین کے اہل خانہ کے لیے انصاف ایک خواب ہی رہا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں