آتا ہے یاد مجھ کوگزرا ہوا زمانہ
بائس کوپ،مداری،کشتی دنگل کبھی دیہی باشندوں کی تفریح کا ذریعہ ہوتے تھے مگر یہ سب اب یا توختم ہوچکے ہیں یا ختم ہونے کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں
جونپور ( حاجی ضیاء الدین) چند دہائی قبل تک جب ٹیلی ویزن و موبائل کا وجود نہ تھا تو بائس کوپ ، مداری ، کشتی دنگل وغیرہ کے کھیل گائوں کےلوگوں کے تفریح کاذریعہ تھا خاص طورپرمیلہ وغیرہ میں اس طرح کے کھیل دکھانے والوں کی کثرت ہو تی تھی جہاں بچے بوڑھے جوان جمع ہو کر کھیل کا مزہ لیتے تھے بعض بچے والدین کے نہ چاہتے ہوئے بھی کھیل دیکھنے کے لئے ضد کیا کر تے تھے۔
گائوں میں بائس کوپ دکھانے والے کی آمدجنگل میں آگ کی طرح پھیل جاتی تھی گائوں میں پہنچتے ہی بائس کوپ دکھانےوالا ڈمروبجاتاتھا جس کی آواز سنتے ہی گائوں کےبچے گھر پہنچ کراپنے والدین سے پیسوں کا مطالبہ کر تے تھے کچھ بچے ا ناج دے کر کھیل کا مزہ لیتے تھےبائس کوپ میں ملک بھر کی تاریخی عمارتوں کےعلاوہ ہندوستان کی تہذیب و ثقافت سے روشناس کرایا جا تا تھاجس کو دیکھنے کے لئے بچوں کی بھیڑ لگتی تھی۔
بائس کوپ کے عروج کا یہ عالم تھا کہ فلموں میں بھی بائس کوپ کے سین فلمائے جا تے تھے اورخاص طور پرجب میلے کے سین فلموںمیں دکھا ئے جاتے تھے تو اس دوران بائس کوپ ، مداری وغیرہ کے سین ضرور فلمائے جاتے تھے۔ جب زمانے نے ترقی کی تو بائس کوپ میوزیم تک پہنچ گئے ہیں یاتو ماضی کا حصہ بن گئے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب تو لوگوںکے ذہن میں بائس کوپ کی بس یادیں ہی باقی رہ گئی ہیں۔ترقی کےاس دور میں تو بس گائوں کی یادیں ہی رہ گئی ہیں جہاںگنوئی ریت رواج ختم ہو تی جا رہی ہے۔ کھان پان سے لیکر روز مرہ کی ضرورتیں جدیدیت کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں۔
زمانے نے ترقی کی تو برقی آلات کے ذریعہ ہرطرح کی آسانی ہو ئی اور جب ٹیلی ویزن کا دور شروع ہو ا توسیریل سے لیکر فلمیں ٹیلی ویزن پر دکھائی جانے لگیں جس سے بائس کوپ کے تئیں لوگوں میں دلچسپی کم ہوتی گئی اور بائس کوپ دکھانے والوں کے سامنے ذریعہ معاش کا مسئلہ کھڑا ہو گیا اور پھر وہ لوگ کسی اور کام سے وابستہ ہو گءے۔چند سالوں تک ٹیلی ویزن نے ترقی کی بلندیوں کو چھو ا ہی تھا کہ موبائل فون کا وجود ہو ااور موجودہ وقت میں ٹیلی ویزن کی مقبولیت میں خاطر خواہ کمی دیکھنے کو مل رہی ہے ۔
بائس کوپ کیا ہے
بائس کوپ لکڑی سے تیار کیا ہواصندوق نما ہوتاتھا جس کو رنگ و روغن کے ذریعہ سجایا جاتا تھا جس کے اندر تاریخی عمارتوں، ہندوستان کی تہذیبی وراثت کے علاوہ ہیرووہیروئن کیتصویربنی ہوتی تھی جس کے ایک سرےکودوسرے سرے سے رول کی شکل میں جوڑ دیا جاتا تھا اور دونوں رول کے اوپری سرے پرایک ہینڈل بنی ہو تی تھی جس کو گھمانے پررول گھومتا تھا اور سامنے ٹفن باکس بنے ہوتے تھے جس میں کانچ لگے ہوتے تھے جس میں ایک ساتھ پانچ لوگ کھیل دیکھ سکتے تھے ۔ٹفن کے ڈھکن کو سیکل کےسہارے باندھ دیا جا تا تھا۔
ٹفن کے اوپر ایک کانچ لگا ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ صندوق کے اوپر بھی ایک کانچ لگاہوتا تھاجس کے سہارے بائس کوپ دکھانے والا سب کچھ دیکھتا تھااور اس پر فوٹودیکھ کربچوں یا دیکھنے والوں کی رہنمائی بھی کر تا تھا۔ صندوق کے اوپر ایک لاؤڈ اسپیکر بندھا ہوتا تھا جس میں تفریح کو مزید تقویت دینے کے لئے گانا بجتاتھا۔
پانچ پیسے میں یہ کھیل دکھایا جاتاتھا
۶۰ ؍کی عمر کو پہنچ جانے والوں نے بتا یا کہ شروع میں بائس کوپ دیکھنے کی فیس ۵؍ پیسہ ہوا کر تی تھی لیکن بڑھتی ہوئیمہنگائی کےساتھ اس میں اضافہ ہو تا گیا۔ بائس کوپ دکھانے والا جب گائوں پہنچتا تھا تو بچے گھر پہنچ کر والدین سےخاص طور پر اپنی والدہ ، دادی ، نانی ، سے بائس کوپ دیکھنے کے لئے پیسوں کامطالبہ کر تے تھے تو نانی دادی بٹوے سے پیسہ نکال کر بچوں کو دیتی تھیں اس زمانے میں نانی دادی کا بٹو ہ کسی تجوری سے کم نہ تھا جن کے پاس پیسوں کا انتظام نہ ہو پا تا وہ لوگ اناج دیکر بائس کوپ دیکھ لیا کر تے تھے ۔ بائس کو پ دکھانے والا سرپر رکھ کر گائوں گائوں گھوم کر کھیل دکھاتا تھا اور اس کےساتھ لکڑی کا ایک اسٹینڈ ہاتھ میںہوتاتھا جسے وہ لیکر چلتا تھا جہاں بچوں کی بھیڑ دیکھی جاسکتی تھی۔
وہ شخص بائس کو پ کو اسٹینڈ پر رکھتا اور کھیل دکھانے کا کام شروع کر دیتاتھا۔جب بچے کھیل دیکھنے کی قیمت ادا کر دیتے تھے تو بائس کوپ دکھانے والا ٹفن کا ڈھکن کھول دیتا تھا جس سے فوٹو میں دہلی کا قطب مینار ، لال قلعہ ، آگرے کا تاج محل وغیرہ دکھائیدینے لگتا تھا۔ ٹفن میں بس اتنی جگہ ہو تی تھی کہ ایک بچہ آسانی سے چہرہ ڈال کر دیکھ سکتا تھا۔
بعض مرتبہ تو بائس کوپ دیکھ رہےبچے کا دوست پہنچ کر بائس کوپ دیکھنے کی ضد کر نے لگتا تھا اور اس طرح دھکا مکی میں دونوں کھیل نہیں دیکھ پا تے تھے۔ یہ بات سچ ہے کہ نسل نو کے لئے بائس کوپ کا کھیل کسی سے عجوبہ سے کم نہیں تو وہیں چالیس سال کی عمر والے بائس کو پ کو دیکھتے ہی بچپن کی یادوںمیں ضرور کھو جائیں گے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں