تازہ ترین

بدھ، 10 مئی، 2023

جمنا کی صفائی کے لیے ہندو اور مسلمانوں کی مشترکہ کوششیں

جمنا کی صفائی کے لیے ہندو اور مسلمانوں کی مشترکہ کوششیں

محمد علم اللہ، نئی دہلی 

فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور ماحولیاتی شعور کے دل دہلا دینے والے منفی شو کے درمیان دہلی میں مسلمانوں اور ہندوؤں نے جمنا ندی کی صفائی کے لیے ہاتھ ملایا ہے۔ یہ خوش گوار پیش رفت دریا کے کنارے واقع بڑے مندروں کے ہندو پجاریوں کی طرف سے اٹھائے گئے اُس اقدام کے بعد  سامنے آئی ہے، جس میں لوگوں کو آگاہ کیا جاتا رہا ہے کہ وہ بیکار اشیا جیسے کپڑے، پرانی مورتیاں، کیلنڈر، پوسٹر، پھول وغیرہ کو دریا برد نہ کریں۔


اس کوشش سے متاثر ہو کر، جمنا کے کنارے کئی مساجد کے اماموں نے بھی جمعہ کے  خطبے کے دوران مسلمانوں سے دریا کی صاف صفائی کو یقینی بنانے کی تاکید کی ہے۔ انھوں نے ملت  کو یاد دلایا کہ اسلام نہ صرف جسم، دماغ اور روح کی نظافت کو فوقیت دیتا ہے بلکہ پانی کے ذخائر جیسے ندیوں اور نہروں کی بھی صفائی کو ترجیح دیتا ہے۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ اگر جمنا  ندی صاف ہے تو یہ مسلمانوں کے لیے بھی اچھا ہے کیوں کہ وہ خود دریا کے پانی سے وضو کرتے اور نماز پڑھتے ہیں۔


اس پہل کو دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر (ایل جی) وی کے سکسینہ کی بھی حمایت حاصل ہوئی ہے، جنھوں نے 16 فروری کو جمنا  کی صفائی مہم کا آغاز کیا تھا۔ وہ مختلف گھاٹوں پر صفائی کے کام کا معائنہ کر رہے ہیں اور انھوں نے یقین ظاہر کیا ہے کہ 30 جون تک دریا کو بحال کر دیا جائے گا۔ ایل جی کی کوششوں کو ان کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی کی حمایت حاصل ہے، جس نے دریا کی بحالی کے لیے چھوٹے اور بڑے پیمانے پر مختلف اقدامات کیے ہیں۔ اس سلسلےمیں سنیچر 6 مئی کو انگریزی روزنامہ  ‘پائنیر’ نے اپنے پہلے صفحے پر ایک اسٹوری شائع کی ہے جس کا عنوان ہے، ‘‘جمعہ کے  خطبات میں جمنا کو صاف کرنے کی تاکید’’۔ خبر میں بتایا گیا ہے کہ ہندو پجاریوں کی طرف سے دہلی کو سرسبز و شاداب بنانے کی حمایت کے بعد، جمعہ کے روز  خطبوں کے دوران جمنا کے کنارے واقع متعدد مساجد کے اماموں نے اپنی قوم کے لوگوں سے دریائے جمنا  کی صفائی کو یقینی بنانے کی تاکید کی۔


دوارکا، روہنی، دریا گنج اور درگاہ حضرت نظام الدین کی مساجد میں جمعہ کی نماز کے بعد مسلمانوں نے کہا، 'جمنا  ندی کی صفائی اور بحالی کے لیے ایل جی کی حالیہ کوششوں کے واضح اور ٹھوس نتائج سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ انھوں نے کہا، 'نجف گڑھ نالے کو صاف کرنے اور جمنا کے سیلابی علاقوں کی بحالی کے لیے اہم اقدامات صحیح طریقے سے جاری ہیں، وہیں ندی میں انسانی فضلے کو ٹھکانے لگانے سے روکنے کی کوششوں کے نتائج بھی آنا شروع ہو گئے ہیں۔ جمنا کی بحالی کی کوششوں میں عوامی شرکت کی انتہائی اہمیت کے پیش نظر، مختلف میڈیا پلیٹ فارموں پر وسیع پیمانے پر بیداری پیدا کرنے نیز معلومات، تعلیم اور مواصلات کے ذریعے مہمات شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ نیشنل گرین ٹریبونل کی ہدایت پر قائم ایل جی کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی کے ذریعے مختلف چھوٹے اور بڑے پیمانے کے اقدامات کیے گئے ہیں، جس نے جمنا  میں نجف گڑھ جیسے متعفن نالے میں آلودگی کی سطح نسبتاً بہتر ہونے کی شکل میں نتائج دکھانا شروع کر دیے ہیں۔


اس خبر کو دہلی کے تقریباً سبھی اخبارات نے اپنے یہاں جگہ دی ہے جس میں انگریزی کے بڑے روزنامے 'ٹائمز آف انڈیا' ،'ہندوستان ٹائمز' اور 'دی ہندو' جیسے اخبارات بھی شامل ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اس کام کو اور اس جیسے بہت سے کاموں کو، بہت پہلے ہوجانا چاہیے تھا لیکن کچھ تو ہماری حکومت کی لاپروائی اور کچھ شہریوں کی بے توجہی کے سبب ایسا ممکن نہیں ہو سکا، حکومت نے اس سلسلے میں باضابطہ منسٹری تشکیل دی ہوئی ہے، لیکن ہمارے یہاں بدعنوانی اور رشوت ستانی کا اس قدر بازار گرم ہے کہ ہمیشہ نتیجہ 'ڈھاک کے تین پات' والا ہی نکلتا ہے۔ 


دہلی کے باشندوں میں حکومت اور عوام کی اس پیش قدمی کو لے کر خوشی کی لہر پائی جا رہی ہے۔ کیوں کہ اندر پرستھ کہئے یا شاہجہان آباد دلی، قدم سے قدم ملاتی، لہراتی، بل کھاتی اور اٹھکیلیاں کرتی جمنا ندی اپنے کناروں کے باسیوں کے سکھ دکھ میں  ہمیشہ سے شریک ہوتی رہی ہے۔ جمنا کا خیال آتے ہی ان بے شمار تہذیبوں کا خیال آتا ہے، جس کے کنارے کبھی اس کے سائے میں آباد رہتے تھے۔ جمنا نے ان گنت تہذیبوں کو جنم دیا اور اس کی بے شمار داستانوں کی گواہ ہے۔ جس نے اپنی لہروں میں تاج محل کا چمکتا عکس سمویا ہے اور انسان کے غلط کرموں کو بھی اپنی آغوش میں چھپالیا ہے۔


اچھلتے تاج اور لرزتے تخت اس جمنا نے دیکھے ہیں
یہ اس وقت ہنستی ہے جب دولت و جاہ مغرور ہوتا ہے
جمنا گرچہ ایک ندی کا نام ہے لیکن اس سے بے شمار واقعات، باتیں اور داستانیں وابستہ رہی ہیں۔ 


سکندر اعظم کا کروفر ہو یا چندر گپت کا طاقت ور عہد، سلاطین دہلی کی سطوت ہو یا پھر مغلوں کی عظمت رفتہ، انگریزوں کا دور ہو یا پھر جدید ہندوستان کے سیاسی اقدار، جمنا ان سب کے رازوں کی امین اور گواہ رہی ہے۔ جمنا نے کبھی کسی کو آئنہ نہیں دکھایا، ادوار کی دمک اور تاریکی پر بحث کرنے کی بجائے جمنا اسے ہمیشہ اپنے اندر پناہ دیتی رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر زمانے میں صرف اس کے آس پاس رہنے والے ہی نہیں بلکہ وہ بھی جنھوں نے صرف اس کو دیکھا یا جنھیں اس کے کناروں سے ہو کر گزرنے کا کبھی اتفاق ہوا، اس کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکا۔


شمشیر کے مانند یہ مڑتی ہوئی جمنا
یہ آب کہ جو پگھلے ہوئے زر سے بنا ہے
شاعروں سے لے کر ادیبوں تک سبھی نے اس دریا کی عظمت کے گن گائے اور اس پر الفت و محبت کے ترانے رقم کیے۔ شاعر ظفر کمالی کہتے ہیں:
امرت سے بھی بڑھ کر ہے گنگا جمنا کا پانی
جو بھی اس پانی کو پی لے بولے میٹھی بانی
ہندوستان کی تاریخ جتنی پرانی ہے، اتنی ہی جمنا کی بھی، جمنا ویدوں کے عہد سے گنگا کے ساتھ بہتی ہے جسے ہندو سنسکرتی میں پَوِتر ندی مانا گیا ہے۔ یہ شمالی ہند میں بہنے والی سب سے لمبی ندیوں میں سے ایک ہے۔ اس ندی کی لمبائی تقریبا 1376 کلو میٹر ہے۔ اسے گنگا کی سب سے بڑی معاون ندی کے روپ میں بھی جانا جاتا ہے۔ یہ کوہ ہمالیہ کے علاقے جمنوتری سے نکلتی ہے جو 850 میل جنوب کی جانب بہتی ہوئی الہ آباد کے مقام پر دریائے گنگا سے جا ملتی ہے۔ اس  ‘سنگم’ کو ہندو بہت مقدس تصور کرتے ہیں۔


دہلی، برنداون، متھرا اور آگرہ سمیت کئی اہم شہر اس دریا کے کنارے آباد ہیں۔ جس کی گود میں جامع مسجد سے لے کر تاج محل، الہ آباد کے مانکیشور مندر اور کاشی گھاٹ تک نہ جانے کتنے ہی آثار جلوہ فگن ہیں۔ جہاں عقیدت و احترام کے ساتھ لوگ جاتے اور اپنی چشم و روح کو سکون بخشتے ہیں۔


جمنا سے جڑی کئی باتیں آج بھی اہم مانی جاتی ہیں، ہندو عقیدے کے مطابق یہ ندی کرشن کے بچپن سے ان ترنگ روپ سے سمبندھت ہے۔ جہاں انسان غسل کرکے اپنے گناہوں کو کم کر سکتا ہے۔ تاریخ کے اوراق پلٹیے تو معلوم ہوتا ہے کہ پانڈوؤں کی راج دھانی اندر پرستھ جمنا کے کنارے پر واقع تھی۔ جمنا پریاگ میں گنگا سے ملتی ہے، جو ہندو دھرم میں اہم ترین مقامات میں سے ایک ہے۔ یہاں ہر بارہ سال پر کمبھ میلہ منعقد ہوتا ہے جو ہندوؤں کے نزدیک بہت مبارک تسلیم کیا جاتا ہے۔ ہندو عقیدے کے مطابق اس مخصوص موسم میں ‘اشنان’ کر کے انسان اپنے ‘پاپوں’ سے ‘موکش پراپت’ کر لیتا ہے یعنی گناہوں سے پاک و صاف ہو جاتا ہے۔ 


مگر اس پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے کہ اس قدر عظیم اور تاریخی وراثت کی حامل ندی ہونے کے باوجود بھی جمنا ہندوستان کی سب سے سے گندی ندی ہے۔ مرکزی آلودگی کنٹرول بورڈ آف انڈیا کے دعوے کے مطابق جمنا کا تقریبا 600 کلو میٹر حصہ آلودہ ہے۔ اتنا ہی نہیں دہلی میں ہی جمنا ندی میں زیادہ تر کچرا پھینکا جاتا ہے۔ ساتھ ہی زہریلے مادے اور سیوریج کا پانی بھی جمنا میں ہی شامل ہو رہا ہے۔


اس بات سے قطع نظر حالیہ اقدام جمنا کے حق میں کتنا سازگار ثابت ہوتا ہے، کیوں کہ اس سے قبل بھی حکومت کی جانب سے اس کے لیے کئی پروجیکٹ شروع کیے گئے ہیں لیکن اس کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہو رہے ہیں، ایسے میں عام شہریوں اور اس کی گود میں آباد لوگوں کو اس پر خود دھیان دینا ہوگا، اور جمنا کو بچانے کے لیے حکومت کے ساتھ ساتھ خود عام شہریوں کو بھی اپنی ذمے داری نبھانی ہوگی، اگر ہم ایسا کرنے میں کام یاب ہوتے ہیں، کوڑا، کچرا، گندگی اور خطرناک کیمیکل سے جمنا کو پاک رکھنے میں ہم معاون بنتے ہیں تو امید کی جا سکتی ہے کہ ہم صرف جمنا ہی کو نہیں بچا پائیں گے بلکہ ماحولیاتی آلودگی پر قابو پا سکیں گے اور اس کے مثبت اثرات ہماری صحت پر بھی پڑیں گے، دیکھنا یہ ہے کہ آخر ہم کب ایک ذمے دار شہری کی حیثیت سے اپنی ذمے داری نبھاتے ہیں۔


اس کوشش میں ملت کی حمایت خاص طور پر اہم ہے، کیوں کہ اس سے مشترکہ انسانی مفادات اور فلاح میں ہماری دل چسپی کا ہی مظاہرہ نہیں ہوتا بلکہ یہ اتحاد اور تعاون کے جذبے کو ظاہر کرتا ہے جو ماحولیاتی مسائل سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے۔ جیسا کہ ایک امام نے کہا: ‘‘ہمیں اپنے ماحول کی حفاظت کرنے اور آنے والی نسلوں کے لیے اسے محفوظ رکھنے کے لیے، نہ صرف ہندوؤں یا مسلمانوں کے طور پر، بلکہ انسانوں کے طور پر اکٹھے ہونے کی ضرورت ہے۔’’ شاید امام صاحب کو اس میں بحیثیت باشندگان دہلی، دہلی والوں کو خاص طور پر جھنجھوڑنا تھا۔
ہندوؤں اور مسلمانوں کی طرف سے جمنا ندی کو صاف کرنے کی یہ مشترکہ کوشش اس بات کی ایک روشن مثال ہے کہ کس طرح مختلف برادریوں اور مذاہب کے ماننے والے لوگ ایک مشترکہ مقصد کے لیے مل کر کام کر سکتے ہیں۔


 امید ہے کہ یہ اقدام دوسروں کو بھی اپنی برادریوں میں اسی طرح کی کوششیں کرنے اور ماحول پر مثبت اثر ڈالنے کی ترغیب دے گا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad