دہلی کا ایک سنہرا سفر
از✒️عبدالواحد جونپوری متعلم دارالعلوم دیوبند
سیر و تفریح کے لیے سفر کرنے میں نہ صرف مزا آتا ہے، بلکہ ایسا کرنے سے جسمانی اور ذہنی صحت کو فائدہ بھی پہنچتا ہے، خواہ آپ کسی شہر میں گھوم پھر رہے ہوں، دلکش نظاروں سے محظوظ ہو رہے ہوں یا کسی گاؤں کی صاف ستھری فضا میں سانس لے رہے ہوں، یا تاریخی عمارتوں و آثارِ قدیمہ سے آپ اپنی معلومات میں اضافہ کر رہے ہوں۔
چنانچہ اسی سلسلے کا ایک سفر بنام " دہلی کا ایک سنہرا سفر " بتاریخ 24 نومبر 2022 بروز جمعرات بعد مغرب سرزمینِ دیوبند سے دہلی کیطرف ہوا، ہمارا دو نفری قافلہ رختِ سفر باندھتے ہوئے دیوبند اسٹیشن کیطرف راواں دواں ہوا ، انتظارِ یسیر کے بعد دہلی میمو سپر فاسٹ ایکسپریس اسٹیشن پر جلوہ نما ہوئی، ٹرین پر سوار ہوکر دو ڈھائی گھنٹے میں پرانی دہلی اسٹیشن پر بحمداللہ پہونچ گئے ۔ اب اسکے بعد کہاں جانا چاھیے ابھی تک اس کا کوئ حتمی فیصلہ نہی ہورہا تھا کہ اچانک اپنے ایک قدیم رفیق درس و بہترین دوست کو کال کیا، جو اس وقت جامعہ ملیہ اسلامیہ میں بی اے کررہا ہے، اور اپنا ارادہ ظاہر کیا کہ ہم لوگوں کا پلان آئی ٹی او آفس جمیعت میں رات قیام کرنے کا ہے ، تو اس نے کہا کہ وہاں نا جاکر میرے یہاں قیام فرمالیتے تو بہت ہی اچھا ہوتا ۔ خیر ایک بہترین دوست کی بات کے سامنے سرِتسلیم خم کرنا ہی اعلی ظرفی کی بات ہوتی ہے۔
چنانچہ ہم لوگوں نے میٹرو ٹرین کے ذریعہ چاندنی چوک اسٹیشن سے جامعہ ملیہ اسلامیہ کیلئے سوار ہوئے، تقریبا پونا گھنٹہ کے بعد ہم جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پہونچ کر اپنے دوست کو کال کیا کچھ دیر بعد چند دوستوں کیساتھ ہمیں لینے کے لیے آئے اور علیک سلیک کے بعد اپنے روم کیطرف ہم لوگوں کو لیکر چلے چونکہ رات کافی ہوچکی تھی اس لئے تھوڑی دیر گفت و شنید اور خیر خیریت کے بعد نماز پڑھ کر سونے کی تیاریاں شروع ہوگئ۔
اگلے دن فجر کی نماز کے بعد کچھ آرام کیا گیا پھر ساتھ میں ناشتہ ہوا ۔ اسکے بعد ہم لوگ اپنے مقصد اصلی کیطرف کی طرف گامزن ہوئے ، چانچہ سب سے پہلے پلان یہ بنایا گیا کہ سارے سفر ان شاءاللہ بذریعہ میٹرو کیا جائے کیونکہ اس میں پیسے کی بچت کی ساتھ ساتھ وقت کی بھی بچت ہے اور بھی کئی سہولیات ہیں جو محسوس کی جاسکتی ہیں ۔
چنانچہ سفر کا آغاز شروع ہوا
1 ۔ ہمایوں کا مقبرہ
سب سے پہلے مغل بادشاہ نصیر الدین محمد ہمایوں کا مقبرہ کی زیارت کی گئ ، جسے " ہمایوں کا مقبرہ "سے موسوم کیا جاتا ہے، جسکی تعمیر 1562ء میں حمیدہ بانو بیگم نے اپنے شوہر بادشاہ نصیر الدین محمد ہمایوں کے انتقال کے بعد اسکی قبر پر بنوایا تھا ، یہاں مقبرۂ ہمایوں کے علاوہ دوسرے مقبرے اور مسجد بھی ہیں۔ اس لیے "مغلوں کی بسترگاہ" کے نام سے بھی یہ یادگار جانی جاتی ہے ۔ چار صدی کے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد بھی یہ سرخ پتھر سے بنا ہوا مقبرہ اپنی وہی پوری آن بان شان سے کھڑا ہوا نظر آرہا ہے ۔ اور وہی نورانیت و شادابیت اور حسین پل اسکے عمارتوں پر نمایاں ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں ۔
2 ۔مرکز نظام الدین و خواجہ نظام الدین اولیاء
اسکے بعد ہم مرکز نظام الدین بنگلہ والی مسجد کے پاس پہونچے، چنانچہ نماز جمعہ میں ابھی کافی وقت تھا اسلئے پہلے خواجہ نظام الدین اولیاء کی درگاہ میں ہم لوگ پہونچے ، جو سلسلہ چشتیہ کے معروف صوفی بزرگ ہیں، جن کا سلسلہ نسب امام حسین رضی اللہ عنہ تک پہنچتا ہے، وہاں پہونچنے کے بعد ایسے ایسے منکرات و لغویات کا مشاھدہ کرنا پڑا کہ الامان س الحفیظ ، بزرگوں کو اللہ کا مقام دے دینا اور انکو دافعِ بلیات خیال کرنا اور ان کو مختار الکل ہونے کا تصور کرنا یہ دین سے دانستہ و نادانستہ طور پر صحیح علم نہ ہونے کیوجہ سے ہے، اگر آپ دوسری طرف مرکز نظام الدین کیطرف نظر دوڑائیں گے تو آپ کو وہ نورانیت اور اللہ اور اسکے رسول کے سچے عاشقین و متبعین دکھتے ہوئے نظر آئیں گے ، اور کیوں نہ ہوکہ جس سے تبلیغ دین کا کام ایک ایسے شخص کے ذریعے وجود میں آئی جو علم و فضل کے ساتھ ساتھ اخلاص و للہیت میں یکتائے زمانہ تھے، جسے مولانا الیاس صاحب کاندھلوی رحمہ اللہ کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ حضرت کا 1921ء میں شروع کردہ دعوتی و اصلاحی تحریک تبلیغی جماعت آج بنگلہ والی مسجد عالمی صدر مرکز بنا ہوا ہے۔ چنانچہ مرکز نظام دین بنگلہ والی مسجد کا نماز جمعہ کیلئے رخ کیا، وہاں پر امیر جماعت حضرت مولانا سعد صاحب حفظہ اللہ سے مصافحہ کیلئےلوگ قطار بند تھے، چنانچہ حضرت سے مصافحہ ہوا، بعد ازیں نماز جمعہ اداء کی گئ۔
3 ۔ جامع مسجد
نماز جمعہ سے فراغت کے بعد جامع مسجد جسے مغل شہنشاہ شاہجہاں نے 1656ء میں تعمیرکرایا تھا ۔ یہ ہندوستان کی بڑی اور معروف ترین مساجد میں سے ایک ہے۔ جسے آج زائرین کی بھیڑ نے عبادت گاہ کے بجائے زیارت گاہ میں صورتا تبدیل کردیا ہے اور مسجد کا وہ احترام و تقدس جو ہونا چائیے وہ نہی ہورہا ہے ، بالکل حدیں پار کردیں ہیں ، وہ فوٹو گرافی ، سلفی اور عورتوں کا بے پردہ اپنے حسن کا اظہار کرنا یہ سب مسجد کے بناء کے خلاف ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔
4 ۔لال قلعہ
اسکے بعد تھوڑی دور کے فاصلے پر واقع لال قلعہ کی زیارت کیلئے ہم لوگ چلیں جسے مغل شہنشاہ شاہجہاں نے 1648ء میں تعمیر کروایا تھا ، قلعہ اپنے اندر کئ اہم خوبصورت و دلربا قدیم عمارتوں کو سموئے ہوئے ہے۔ کہیں دیوان خاص ہے تو کہیں بیگم ممتاز کیلئے بنا ہوا خاص محل ، کہیں دیوان عام ہے تو کہیں رنگ محل ، کہیں موتی مسجد ہے تو کہیں حمام ، کہیں کاص محل ہے تو کہیں میوزیم میں رکھے ہوئے آثار قدیمہ اور دیوان عام کی جھروکہ شاہی تو اپنے اندر بادشاہوں کی شان بان کی عکاسی کرتی ہوئ نظر آرہی ہے۔ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی وہ سفید رنگ کے پتھر کی چمک اور مختلف ڈیزائنوں سے بھرپور یہ تخت شاہی عقل و نگاہ کو متحیر کرنے کیلئے کافی ہے ۔
5 انڈیا گیٹ
اس کے بعد تاریخی عمارتوں میں ایک عمارت انڈیا گیٹ کیطرف ہم لوگ چلے ، انڈیا گیٹ برطانوی دورِحکومت میں ان ہندوستانی فوجیوں کی یادگار کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا جو پہلی جنگ عظیم میں انگریزی حکومت کے لیے مارے گئے تھے۔اس کو " آل انڈیا وار میموریئل " کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ 138 فٹ ( 42 میٹر) اونچی یہ عمارت 1921ء میں تعمیر کی گئ تھی ۔
چونکہ رات ہوگئ تھی اس لئے انڈیا گیٹ کی خوبصورتی بھی دوگنا نظر آرہی تھی ،رنگ برنگ کی لائٹ اور ترنگا کی روشنی سے یہ عمارت لوگوں کی نگاہوں کو خیرہ کررہی تھی۔
6 ۔ قطب مینار
اسکے بعد ہم لوگ قطب مینار کیطرف چلے ، ہندوستان کی تاریخی عمارتوں میں سے اگر قطب مینار کا تذکرہ نہ ہو تو تاریخی مقامات کی تاریخ میری سمجھ سے نامکمل ہوگی ، دنیا کی بلند ترین عمارتوں میں سے قطب مینار ہے۔ 72.05 میٹر اونچا یہ مینار، کہا جاتا ہے کہ دنیا میں پتھروں سے بنائ جانے والی سب سے اونچی عمارت ہے ، جسے افغانستان کے جامی مینار سے متاثر ہوکر قطب الدین ایبک نے 1193ء میں اس کی تعمیر کے لیے حکم نامہ جاری کیا۔ قطب الدین ایبک کے دور میں اس کی تعمیر شروع کی گئی، لیکن اس کے دور میں یہ صرف بنیادی منزل کا کام مکمل ہو سکا۔ ایبک کے جانشین التمش نے اس کے مزید تین منازل تعمیر کروائے۔ بعد میں 1368ء میں فیروزشاہ تغلق نے پانچویں اور آخری منزل کی تعمیر کروائی۔ چونکہ رات ہی کے وقت ہم لوگ یہاں پہونچے تھے اس لئے انڈیا گیٹ کیطرح یہ عمارت بھی اپنی خوبصورتی کے دلکش مناظر کو پیش کررہی تھی ، سرخ رنگ کی لائٹوں نے سرخ رنگ کے پتھروں کے حسن کو دوبالا کررکھا تھا، جو دور ہی سے اپنے منفردانہ مقام کو بتارہی تھی، اور اسکی کشش لوگوں کو دلوں کو دیکھنے پر مجبور کررہی تھی ۔
اسکے بعد ہم لوگ جامعہ ملیہ اسلامیہ کیلئے واپس ہوئے ، کھانے پینے کے بعد رات بھر قیام ہوا، اگلے دن صبح ہم لوگ دیوبند واپس آگئے۔
یہ تھا ہندوستان کی راجدھانی دہلی کا ایک سنہرا سفر جس کی کچھ ہلکی سی جھلک آپ کو بتانے کی کوشش کی گئ ہے ۔
27/11/2022
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں