جمال خان لودی کے مقبرہ کی عمارت عدم توجہی کی وجہ سے شکستہ حالت !
جونپور ( حاجی ضیاء الدین ) شیراز ہند کہا جانے والا شہر کبھی حکمرانوں، علماء اولیاء کا مسکن رہا ہے یہاں کی در و دیوار علماء صلحاء کی جود و سخاوت و اسلام کی آبیاری کی داستاں بیاں کر رہی ہیں تو وہیں حکمرانوں کی نشانیوں کی گواہ بھی ہیں لیکن وقت کی ستم ظریفی ہے کہ مقبروں و تاریخی عمارتوں کے شہر میں بعض مقبروں کی عمارتیں اپنا وجود بچانے کو ترس رہی ہیں ان میں سے ہی ایک شہر کے محلہ بلوچ ٹولہ واقع جمال خان لودی کے مقبرہ کی عمارت ہے جس کی درو دیوار شکستہ ہو رہی ہے .
عمارت کی بدحالی کو دیکھ کر دکھ ہوتا ہے ۔جمال خان لودی کے متعلق مورخین لکھتے ہیں کہ جمال خان لودی سکندر لودی کے زمانے میں فوج کے سپہ سالار مقرر ہو ئے تھے ان کا تعلق قو م افغان سے تھا اور شروع سے ہی بہلول لودی کے زمانے میں امرا ء میں شامل تھے کچھ دنوں کے بعد سکندر کے بیٹے جلال کے دور میںں ا تالیق بنائے گئے کچھ دنوں کے بعد جب سکندر لودی کے بیٹے جلال کے سپرد حکومت ہوئی تواس نے جمال خان لودی کو فوج کا سپہ سالار مقرر کیا۔
چونکہ جمال خان لودی کو اتالیق و سپہ سالار ی کے عہدے کی مہارت پہلے سے ہی تھے اس لئے اس کا فائدہ حاصل ہوا اور کچھ دنوں کے بعد عہدہ وزارت سے سرفراز ہو ئے اور جملہ انتظامات ان کے سپرد کر کے بادشاہ برائے نام حکمراں بنا رہا۔ جمال خان لودی کی فوجی رہبری سے سلطان ابراہیم لودی کچھ وقت کے لئے پریشان ہوگیا لیکن ابرہیم لودی سے ہو ئی جنگ میں جمال خان لودی کو شکست ہو ئی او ر جمال خان لودی شہید ہو گئے اور ان کا حاکم جلال خاں فرار ہو گیا جمال خان لودی بلوچ ٹولہ میں دفن ہو ئے ان کے نام سے ایک محلہ بھی آباد ہے ۔
ابراہیم لودی کے مقبرہ کی عمارت مخدوش حالت میں پہنچ جانے کے بعد آج بھی پرکشش معلوم ہو تی ہے ۔ دریائے گومتی سے کچھ دور پر واقع جمال خان لودی کے مقبر ہ تک پہنچنے کے لئے راستہ پختہ ہے مقبرہ سے متصل دیگر قبریں ہیں جو اہل محلہ کی بتائی جا رہی ہیں بائی پاس واقع دھرم کانٹے سے متصل گلی مقبرہ تک پہنچتی ہے مقبرہ کی تعمیر پتھروں اور لکھوری اینٹوں سے ہو ئی ہے زمین سے تقریبا ً ڈھائی فٹ بلندی پر واقع صحن کے درمیان قبر پختہ تعمیر ہے قبر پتھروں کے بیل بوٹوں سےبنائی گئی ہےقبر کو پانچ مرحلوں میں بنا یا گیا ہے ۔
سطح زمین کے پہلے مرحلہ کو چوڑا بنا یا گیا ہے جس کے کنار ے بیل بوٹے بنائے گئے ہیں اس طرح تین مرحلہ تک چوڑائی کم ہوتی گئی چوتھے مرحلہ کی چوڑا ئی کم ہے لیکن تقریبا ایک فٹ بلندی پر ابھار کر پتھر کو گول تراشہ گیا ہیں پانچویں مر حلہ پر کنارے بارڈ بنایا گیا ہے اس کے اند ر مہر کو تراش کر بنا یا گیا ہے اس کے علاوہ سر ہانے پر قر آنی آیت کتبہ ہے ۔
نقش و نگاری دیکھ کر مصری طرز فن کاری کا احساس ہو تا ہے پتھروں کے ۱۲ پلروں کے سہارے مقبرہ کو تیار کیا گیا ہےہر پتھر کو پھول پتیوں سےتراشا گیا ہے شروعات کے پہلے والے پلر کے بعد والے ہر پلر پر مضبوطی کے لئے چاروں طرف سے علیحدہ پتھر بیم کے طور پر لگائے گئے ہیں اوراسی پر قبہ کا وزن ہے کچھ دور چھت چوکور ہے اس کے بعد تقریبا ۸ فٹ بلند قبہ کی چھت ہے جس میں لاکھوری اینٹوں کا استعمال صاف دکھائی پڑتا ہے لیکن قبہ کے اندر پتھروں کو ایک دوسرے سے جوڑ کر بنا یا گیا ہے جس میں شگاف پڑنے لگے ہیں وہیں بارجہ کا اکثر حصہ ٹوٹ چکا ہے مقبرہ کی چھت شرو ع ہو نے والے چاروں گوشوں کو بڑی ہی نفاست سے بنا یا گیا ہے۔
جو آج بھی قابل دید ہے قبہ دار مقبرہ کو مرحلہ وار بیل بوٹوں سے سجا یا گیا ہے جس میں پھول پتیوں کو تراش کر ایک پتھر کودوسرے سے جوڑا گیا ہے چاروں طرف گنبد بھی بنا ئے گئے ہیں مقبرہ میں گول قبہ کئی مرحلو ں سے گزرنے کے بعد تیار ہو ا ہے مقبرہ کی تعمیر دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ قبہ کی تعمیر میں لکھوری اینٹوں کا بھی استعمال کیا گیا ہے مقبرہ کے چاروں جانب پتھروں کا چوڑ ا بارجہ بنا یا گیا تھا جو اب ٹوٹ کر گر رہا ہے ۔
مقبرہ کی عمارت کی تعمیر کے ہر مرحلہ میں فن تراشی نظر آرہی ہے۔ قبہ اور مقبرہ کی چھت پر جھاڑ جھنکاڑ اگ جانے سے عمارت کا وجود خطرے میں ہے مقبرہ کی عمارت میں شگاف پڑنے لگی ہیں عدم توجہی کے بعد آج بھی عمارت پر کشش معلوم ہو تی ہے قبر کا فرش ٹوٹ رہا ہےمقبرہ سے تھوڑے فاصلے پر قناتی مسجد ہے جس کو اہل محلہ نے آباد کیا ہے وہیں مقبرہ سے متصل قبرستان میں کچھ قبریں جو قدیم قبروں کا احساس کرا تی ہیں تھوڑی دور املی کے درخت کے نیچے ایک قبر کے بکھرے ہوئے پتھر پڑے ہیں جس پر قر آنی آیت و مہر کتبہ ہے پڑوس میں ہی ایک بسواری ہےجس کے نزدیک کوڑہ کا ڈھیر لگا ہے اس کے علاوہ چند پختہ قبریں ہیں قبرستان کی حالات دیکھ کر چہار دیواری تعمیر کرا ئے جانے کی ضرورت کا احساس ہو تا ہے ۔
اس ضمن میں محلہ رہائشی مولانا انوار احمد قاسمی نے کہا کہ قبرستان کی بے حرمتی یقینا بہت بڑا مسئلہ ہے توجہ نہ دینے سے بہت سی قبرستانوں پر ناجائز قبضہ ہورہا ہے اس کو محفوظ کئے جانے کی ضرورت یقینا ہے لیکن ا سکے لئے ہم تمام کو بیداری کا ثبوت دینا ہو گا کیوں کہ دنیا ہر حال میں گزر گاہ ہے ۔
اللہ تعالی کے نزدیک جواب دہ ہو نا ہو گا تاریخی عمارتیں مخدوش ہو رہی ہیں آثار قدیمہ و حکومت کو توجہ دینے کی ضرور ت ہےاہل سیاست نے جونپور کو سیاحتی مرکز بنا نے پر غور کیا ہو تا تو آج تاریخی عمارتوں کا وجود خطرہ میں نہ ہو تا ہے اور اہل جونپو ر تغلق ، شرقی ، مغل دور حکومت کے اثاثوں سے محروم نہ ہوتے ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں