کرناٹک حجاب معاملہ: حجاب پر عدالت عظمیٰ کے دونوں ججوں کی رائے مختلف،ایک نے پابندی کو صحیح کہا دوسرے نے غلط
دہلی ۔اسماعیل عمران۔(یو این اے نیوز 13 اکتوبر 2022) سپریم کورٹ کے دو ججوں کی بنچ نے جمعرات کو کرناٹک کے حجاب تنازعہ پر اپنا فیصلہ سنایا اور اس معاملے پر دونوں ججوں کی رائے مختلف ہے۔
اس کے بعد یہ معاملہ چیف جسٹس آف انڈیا یو یو للت کو بھیجا گیا ہے اور ان سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ بڑی بنچ میں سماعت کریں۔ سپریم کورٹ کے دو ججوں کے فیصلے کے بعد کرناٹک ہائی کورٹ کا کرناٹک حجاب پر پابندی کا فیصلہ برقرار رہے گا اور وہیں حجاب پر پابندی بھی اگلے احکامات تک برقرار رہے گی
عدالت میں جسٹس ہیمنت گپتا نے پہلے اپنا فیصلہ پڑھ کر سنایا اور کہا کہ وہ کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف عرضی کو خارج کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی جسٹس سدھانشو دھولیہ کی رائے مختلف ہے اور انہوں نے کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کو رد کر دیا۔ اس کے ساتھ انہوں نے حکومتی حکم نامے کو بھی مسترد کر دیا،
جس میں تعلیمی اداروں میں حجاب پہننے پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ جسٹس سدھانشو دھولیہ نے کہا کہ انہوں نے اپنے فیصلے میں بنیادی طور پر لازمی مذہبی عمل کے تصور پر زور دیا، جسمیں تنازعہ کی کوئی بات نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ کرناٹک ہائی کورٹ نے غلط راستہ اختیار کیا اور حجاب پہننا بالآخر اپنی پسند کا معاملہ ہے، اس سے زیادہ یا کم اورکچھ نہیں۔
10 دن کی سماعت کے بعد بنچ نے فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔
24 مارچ کو عرضی گزار کرناٹک ہائی کورٹ کے خلاف سپریم کورٹ پہنچے تھے۔ عدالت میں جسٹس ہیمنت گپتا اور جسٹس سدھانشو دھولیہ کی بنچ میں حجاب تنازعہ پر 10 دنوں تک زوردار بحث چلی ۔ جرح کے دوران، جب مسلم فریق نے حجاب کا موازنہ پگڑی اور کراس سے کیا، تو جسٹس ہیمنت گپتا نے اس پر سخت تنقید کی۔ دس دن تک جاری رہنے والی سماعت کے بعد بنچ نے 22 ستمبر کو اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔
معلوم رہے کرناٹک ہائی کورٹ نے 15 مارچ کو ریاست کے اڈوپی میں گورنمنٹ پری یونیورسٹی گرلز کالج کی مسلم طالبات کے ایک گروپ کے ذریعے کلاسوں کے اندر حجاب پہننے کی اجازت دینے درخواستوں کو مسترد کر دیا تھا۔ ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ حجاب پہننا اسلام میں ضروری مذہبی عمل کا حصہ نہیں ہے۔
یہ سارا معاملہ کیا ہے اور کیسے شروع ہوا؟
کرناٹک میں حجاب کا تنازع اس سال جنوری کے اوائل میں اڈوپی کے ایک سرکاری کالج میں شروع ہوا تھا، جہاں مسلم لڑکیوں کو حجاب پہننے سے روک دیا گیا تھا۔ اسکول انتظامیہ نے اسے یونیفارم کوڈ کے خلاف قرار دیا تھا۔ اس کے بعد یہ تنازعہ کرناٹک کے دیگر شہروں میں بھی پھیل گیا۔ یہ معاملہ عدالت تک پہنچا اور کرناٹک ہائی کورٹ نے طالبات کی جانب سے کلاس میں حجاب پہننے کا مطالبہ کرنے والی درخواست کو خارج کر دیا تھا۔
15 مارچ کو سنائے گئے فیصلے میں ہائی کورٹ میں دلیل دی گئی تھی کہ حجاب پہننا اسلام کے لازمی عمل کا حصہ نہیں ہے۔ اس لیے ریاست کا اسکول کالج میں یونیفارم پر عمل کرنے کا حکم درست ہے۔ اس فیصلے کے بعد بھی تنازعہ نہیں رکا اور معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچ گیا۔ جس پر آج سپریم کورٹ کو دو ججوں نے الگ الگ فیصلہ سنایا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں