کانپور (شکیب الاسلام)(یواین اے نیوز13فروری2021) تقریبادو مہینہ سے زیادہ ہوگئے ہیں اور کسان مسلسل زرعی قوانین کو واپس لینے کے لئے سرکار کو مجبور کررہے ہیں ان دنوں کسان پوری شدت کے ساتھ سرکار کے خلاف احتجاج کررہے ہیں اور انکی تحریک پورے شباب پر ہے ملک کے مختلف بااثر شخصیات اور سیاست دانوں کی حمایت بھی انہیں حاصل ہے ایسے میں سرکار اس تحریک سے پریشان ہے لیکن اپنی انا پرستی اور امیروں کے ماتحت ہونے کی وجہ سے قانون کو واپس نہیں لے رہی ہے ۔ایسے میں مشہور صحافی اور ایم آئی ایم کانپوردیہات کے رکن سیف الاسلام مدنی نے کہا کہ سرکار کو کسان مخالف ان تینوں قوانین کو فوری طور پر واپس لینا چاہئے اور کسانوں کی بات مان کر اس احتجاج کو ختم کرانے کا راستہ نکالنا چاہئے
کسان سردیوں کی پریشان کن راتوں اور بارش کی بوچھاروں کے بیچ اپنی جان کی بازی لگاکر اس قانون کی واپسی کے لئے سرحدوں پر جمے ہوئے تھے انکی پریشانیوں کو دیکھ کر سرکار کو نوٹس لینا چاہئے تھا اس تحریک نے کسانوں کو بڑے صبر آزمامراحل سے گزارا ہے اس احتجاج میں تقریبا سو سے زیادہ کسانوں کی موت ہوچکی ہے لیکن اس ظالم حکومت کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑاسرکار کا کہنا ہے کہ یہ قانون کسانوں کے فائدے کے لئے بنائے گئے ہیں جبکہ کسان اتنے بھولے اور بے وقوف نہیں ہیں کہ انکو اپنا فائدہ ہی سمجھ میں نہ آئے انکو صاف معلوم ہے کہ اس قانون کے نافذ ہونے کے بعد انکی اشیاء مناسب قیمتوں میں فروخت نہیں ہوسکےگی، اور بھی دیگر نقصانات ہونگے اسی لئے کسان نیتا تینوں قوانین کے واپسی کے ساتھ ایم ایس پی کو بھی قانونی دائرہ میں لانے کی بات کررہے ہیں جس سے حکومت نظریں چرارہی ہے، وقت کافی گذر چکا ہے اب سرکار کو کسانوں کی بات مان کر ان قوانین کو واپس لینا چاہئے
زاہد حسین نے کہا کہ جب کسان ان قوانین کو اپنےحق میں بہتر نہیں سمجھتے تو کسانوں کا فائدہ اور انکی بات ماننا سرکاری ترجیحات میں ہونا چاہئے جب کسان اپنی بھلائی اسکو نافذ نہ کرانے میں مانتے ہیں تو سرکار کو بھی اسکا خیال رکھنا چاہئے،عقیل نایر نے کہا کہ موجودہ حکومت ظلم کی حدوں کو پارکرہی ہے اس سرکار نے تمام بھارت واسیوں کو ہر اینگل سے پریشان کرنے کاکام کیا ہے ملکی معیشت استحکام، بے روزگاری کو دور کرنا انکا کام نہیں انکا کام صرف زبردستی کے قوانین بنانا ہے کسانوں کو اس قانون سے سخت تکلیف پہونچی ہے اور کسان پوری شدت کے ساتھ اسکی واپسی کا مطالبہ کررہے ہیں ایسے میں سرکار ہو اس پر توجہ دینے اور قانون کو واپس لینے کی ضرورت ہے!

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں