✍ حمزہ اجمل
آپ اتنے فکر مند کیوں ہیں؟؟؟
بابا آپ اتنے پریشان کیوں ہیں؟؟؟
بابا کچھ تو بولو ہوا کیا ہے؟؟؟
بابا زبان کھولو ہوا کیا ہے؟؟؟
یہ الفاظ سنتے ہی ایک بوڑھا باپ اپنی بیٹی کو گلے لگا کر روتے ہوئے کہتا ہے بیٹا کچھ نہیں ہوا بس ایسے ہی۔
کچھ تو ہوا ہے بابا آپ کچھ ضرور چھپا رہے ہیں۔
نہیں بیٹی کچھ نہیں ہوا بس تمہاری شادی کی فکر ہے اس وجہ سے تھوڑا پریشان ہوں۔
شادی اور پریشانی؟ اس نے حیرانی سے پوچھا۔
جی ہاں بیٹا معاشرے نے شادی کو پریشانی ہی بنا دیا ہے۔
مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا بابا کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔
بیٹا پریشان نا ہوں آپ ابھی تمہارے بوڑھے باپ کی ہڈیوں میں جان ہے جب تک میں زندہ ہوں بیٹا تجھے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں بوڑھا باپ کہتا بھی کیا معاشرے نے شادی کو پریشانی ہی بنا ڈالا نئے رنگ برنگ کپڑے آنے لگے چھوٹے چھوٹے بچوں کے بڑوں کے بھی شادی کی تیاریاں ہونے لگی دوڑ بھاگ شروع ہو گئی بوڑھے بابا کی بیٹی یہ سب حیرت سے دیکھ رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ شادی ہو رہی یا پھر شادی کے نام پر ڈھونگ رچایا جا رہا ہے۔
ایک دن بابا سے وہ کہنے لگی بابا یہ سب کیا ہے اب؟
بابا نے زبردستی کی مسکراہٹ سجاتے ہوئے کہا بیٹا شادی کی تیاری ہو رہی ہے یہ سب تمہارے لئے اور ان لوگوں کے لئے ہے جہاں تم جاو گے یہ فلاں کے لئے یہ تمہاری ساس کے لئے وغیرہ وغیرہ وہ بوڑھا باپ ایک ایک کپڑا اٹھا کر اسے دکھاتے ہوئے کہا۔
تو بیٹی نے برجستہ جواب دیا: بابا کیا وہ لوگ غریب ہیں یا انکے پاس اتنے پیسے نہیں کہ وہ شادی کے لئے کچھ خرید سکیں۔
بیٹا ایسی بات نہیں یہ معاشرے کا ایک اٹوٹ حصہ بن گیا ہے جس کو پورا کرنا ہر لڑکی کے گھر والوں کے اوپر فرض سمجھا جاتا ہے۔
بابا لیکن آپ نے تو ہمیں بتایا تھا کہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری اور راج دلاری بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کی رخصتی ایک جوڑا کپڑا ایک چکی ایک چمڑے کا مشک تھا پھر یہ سب کیا ہے جو آپ کر رہے؟
بیٹا کیا بتاوں یہ سنتے ہی اس ناتواں انسان کی آنکھ سے جاری ہو گئے۔اور نم آنکھوں سے کہنے لگا: بیٹا لوگ کہتے ہیں زمانہ بدل گیا ہے اب ہمیں نئے طریقے سے جینا ہوگا وہ باتیں (نعوذباللہ) پرانی ہو گئی ہم نئے دور میں جی رہیں بابا یہ کہتے ہوئے اپنے منھ کو رومال سے چھپا لیا اور اپنی آہ کو ضبط کرتے ہوئے ایک کمرے کی طرف چلے گئے۔
ننھی پری یہ سوچتی رہی کہ آیا واقعی بیٹیاں رحمت ہیں یا ہم زمانہ جہالت میں جی رہے جب اس نے قرآن اٹھایا تو دیکھا کہ بیٹیاں سراپا رحمت ہوتی ہیں واقعی یہ معاشرہ زمانہ جاہلیت میں لوٹ گیا اور لڑکیوں کو جہیز کے بوجھ کے نیچے دفن کر دیا جاتا ہے۔
وہ وقت آگیا اور باراتیوں کا جم گھٹا بوڑھے باپ کے دروازے پر پہنچ گیا عمدہ سے عمدہ انتظامات کروائے گئے اور رخصتی کی تیاری ہونے لگی۔
آج وہ لڑکی جو کبھی ایک کلو وزن نہیں اٹھاتی تھی اسکے سر پر فلاں فلاں کے کپڑے اور زیورات لادے بوریا بستر گدا بیڈ غرض ہر سامان کے ساتھ اسے گھر سے رخصت کر دیا جاتا ہے گویا کہ اب اسے واپس نہیں آنا وہ ان سب سامانوں کے ساتھ اپنے شوہر کو بھی لیکر چلتی ہے۔
وہ شوہر جسے بیوی کو آنکھ پر بٹھایا چاہئے تھا اسی پر سوار ہو کر چلے گئے اور اگر جہیز میں کوئی کمی رہ گئی تو ظلم علی ظلم شروع طعنے اور الفاظوں کے تیر اس معصوم کو مارے جاتے ہیں۔
ہائے ہمارا ڈیجیٹل معاشرہ ہائے ہم نئے دور میں جینے والے خود کی بیٹی پر گزرے تو قیامت برپا دوسروں کی بیٹی پر گزارو تو اصلاح کی غرض سے۔
ائے اس ظالم معاشرہ سے ہر بچی کی حفاظت فرما۔
بیٹی اپنے باپ کو گلے لگاتے ہوئے کہتی ہے۔
دنیا کو سمجھاو نا بابا
بیٹیاں بوجھ نہیں ہوتی 😢
نوٹ: معاشرے کا یہ عالم ہے کہ غیر ضروری چیز کے لئے پیسوں کو پانی کے ذریعہ بہا دیا جاتا ہے لیکن باپ کے جگر کے ٹکڑے کو پالنے کے لئے جہیز جیسی لعنت چیز کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور اگر جہیز میں کوئی کمی نکل آئے تو اسے ٹارچر کیا جاتا ہے یا تو اسے معاشرہ مار دیتا ہے (خودکشی) یا پھر اسے قتل کر دیا جاتا ہے آئیں عہد کریں پاکیزہ شادی کرنے کا اللہ ہم سب کو استقامت دے

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں