تازہ ترین

جمعرات، 7 مئی، 2020

ندويون سے دو ٹوک بات: مرجعيت كس كو حاصل هے؟

بسم اللّه الرحمن الرحيم
از: ڈاكٹر محمد اكرم ندوى آكسفورڈ
 ندوه ایک زنده تحريكـ كا نام هے جس كا مقصد هر عهد مين ايسے ذى علم وفكر اور صاحب استعداد وكمال افراد تيار كرنا هے جو اس عهد كے تقاضون كے مطابق اپنى قوم وملت كى قيادت كا فريضه انجام دين، اس اهم ذمه دارى كى ادائيگى اسى وقت ممكن هے جب اس كے فارغين ايكـ طرف سرچشمه هدايت يعنى كتاب الهى سے براه راست رهنمائى حاصل كرنے كے اهل هون اور خدا كے آخرى پيغمبر صلى الله عليه وسلم كى سيرت وسنت پر گهرى نظر ركهتے هون كه آپ صلى الله عليه وسلم نے كس طرح اپنے حالات اور ماحول مين اس كتاب سے فيضيابى كى، اور اس كى روشنى مين كس طرح مثالى افراد تيار كئے اور مثالى معاشره وجود بخشا، چونكه آپ كو تاييد ايزدى حاصل تهى، آپ كى تعليمات خطا سے پاكـ تهين، اور آپ كو قيامت تكـ كے هر حالات اور ماحول كے لئے پيغمبر منتخب كيا گيا تها، اس لئے قرآن كريم كے ساتهـ آپ كا نمونه بهى ابدى هے.

 دوسرى طرف اپنے عهد كے تغير پزير حالات كو سمجهين، ان كا براه راست مطالعه كرين، اور ان پر گهرى نگاه ركهين، يه بات اچهى طرح ذهن نشين هونى چاهئے كه اسلامى تعليم وتربيت كا مقصد يه هے كه طلبه قرآن وسنت كى مهارت اور اس سے رهنمائى حاصل كرنے كى صلاحيت پيدا كرين، اسلامى تعليم وتربيت كا هرگز يه مقصد نهين هے كه دينى علوم وفنون كے مختلف الجهات دائمى مراكز قائم كئے جائين جو وقت گزرنے كے ساتهـ قرآن وسنت كى مرجعيت سے دور اور بے نياز هو جائين، بلكه خود مرجعيت كا مقام حاصل كرلين.

 ندوه كى يه خصوصيت آج تكـ قائم هے كه اس كے فارغين نے اپنے حالات اور ماحول كے لئے رهبرى كا فريضه انجام ديا، مولانا محمد على مونگيرى، مولانا شبلى نعمانى، اور مولانا عبد الحى حسنى سے ليكر سيد سليمان ندوى تكـ اور پهر سيد ابو الحسن ندوى تكـ يه عظيم روايت تسلسل كے ساتهـ اور بغير كسى انقطاع كے قائم ودائم رهى، ندوه كى ان عبقرى شخصيات كى سيرت كا عام مطالعه بهى يه ثابت كرنے كے لئے كافى هے كه انهون نے اپنے عهد كے مسائل كو كس طرح گهرائى كے ساتهـ سمجها اور مكمل اخلاص اور پورى تڑپ سے ان كے حل وعلاج كى كوششين كين.

 تعليمى وتربيتى تحريكون كى صحيح سمت مين پيش رفت كے لئے اسى اصول پر گامزن رهنا ضرورى هے جو فقهى اور كلامى مسالكـ اور تصوف كے طريقون كے لئے ضرورى هے، وه اصول يهى هے كه ان تحريكـون، مسلكـون، اور طريقون كے قائدين كس حد تكـ اپنے حالات سے با خبر هين، اور كس حد تكـ براه راست قرآن وسنت سے استفاده كے اهل، اپنے زمانه كى تقاضون اور حالات كے زير اثر ان تحريكون اور مسلكون كے قائدين نے مراكز قائم كئے، اور كتابين تصنيف كين، ان عظيم افراد، ادارون، اور تصنيفات كى قدر وقيمت سے انكار ممكن نهين، تا هم ان كى حقيقى افاديت اسى وقت تكـ برقرار رهتى هے جب تكـ كه ان كے منتسبين ان سے صحيح استفاده كرين، ان كے متعلق مبالغه آرائى سے كام نه لين، اور نه ان كو مرجعيت كا مقام عطا كرين.

 يه بات همارے ذهنون مين هميشه تازه اور زنده رهنى چاهئے كه اس دين كے اندر سارى كتابون كے مابين صرف كتاب الهى كو، اور سارے افراد كے درميان صرف پيغمبر خدا كے نمونه كو مرجعيت حاصل هے، يه مرجعيت اس دين مين نه فقهى، نه كلامى اور نه صوفيانه كتابون كو حاصل هے، نه فقه، كلام اور تصوف كے امامون كو، اور نه هى يه مرجعيت كسى اداره اور مكتبه فكر كو حاصل هے، اسى طرح عصر حاضر كے مسلم علماء وقائدين، ان كى تصنيفات اور ان كے قائم كرده ادارے، مراكز اور مدارس مرجعيت كے حامل نهين، ازهر شريف، ديوبند اور ندوه قيادت كے لائق علماء تيار كرنے كے مراكز هين، يه تعليمگاهين خود مرجعيت كے مقام پر فائز نهين، ان كو مرجعيت عطا كرنے كى غلطى نے اس امت پر فكرى، اجتماعى، ثقافتى اور قانونى عدم مرونت كا بحران مسلط كر ديا هے، جس كا نتيجه يه هے كه سيكڑون جلدون مين پهيلى هوئى ان ادارون كى تصنيفات فكرى، قانونى اور عملى حد بنديون اور فروعى جزئيات كى وه دقيق تفصيلات پيش كرتى هين جن كى موجودگى مين قرآن وسنت كا اساسى مقام ايكـ بے معنى اور غير متعلق نظريه سے زياده حيثيت نهين ركهتا، مسئله يه هے كه يه اصول وتعليمات خواه كس قدر واضح اور فيصله كن هون انهين اتهاريٹى هرگز حاصل نهين هوسكتى، بغير كسى شرط وقيد كے قرآن وسنت كى كامل مرجعيت كا تسليم كرنا كسى بهى فرد يا اداره كى اهليت كا پهلا زينه هے، اسى كے ذريعه هر عهد اور هر ماحول مين، اور دوسرے افراد اور ادارون كو كوئى فكر يا تجزيه يا استدلال تهذيب وشائستگى كے ساتهـ پيش كرنا ممكن هوگا.
 ندويون سے گزارش هے كه يه بات كسى پر مخفى نهين كه دنيا كے حالات جس برق رفتارى سے تبديل هو رهے هين، اس قسم كى تبديلى اس سے پهلے كبهى نهين پيش آئى، آپ كا عهد هر لمحه تغير پزير هے، اور آپ كا ماحول هر لحظه دگر گون، اس نازكـ گهڑى مين آپ پر قيادت كى ذمه دارى هے، حالات كو براه راست سمجهنے كى كوشش كرين، قرآن كريم اور سنت سے براه راست رهنمائى حاصل كرين، ان حالات مين بار بار علامه شبلى نعمانى، علامه سيد سليمان ندوى اور مفكر اسلام ابو الحسن على ندوى رحمة الله عليهم يا ماضى اور حال كى كسى شخصيت، تصنيف، مكتبه فكر اور اداره كا حواله دينا آپ كے شايان شان نهين، ان بزرگون نے اپنے حالات اور ماحول كے لحاظ سے رهنمائى كا فريضه انجام ديا، اب آپ پر امت كے مسائل سے نپٹنے كى ذمه دارى هے، ضرورى نهين كه ان كا جو حل ان بزرگون كے عهد مين صحيح تها وه آپ كے لئے بهى مناسب هو، ايكـ كامياب ڈاكٹر وه نهين جو بغير كسى تبديلى كے اپنے پيشروون كے نسخے استعمال كرتا هو، يا مريض كے حالات كى تبديلى پر نگاه كئے بغير ايكـ هى طريقه علاج پر مصر هو.

 اگر آپ اپنے عهد اور ماحول سے براه راست واقف نهين تو آپ كو مشوره دينے يا رهنمائى كا حق هرگز حاصل نهين، غير معتبر ذرائع ابلاغ اور غير مستند تجزيون پر اعتماد سخت نقصان ده هے، حالات سے سطحى واقفيت آپ كے مقام سے فرو تر هے، جب تكـ حالات وماحول سے صحيح اور قابل وثوق واقفيت نهين هوتى اس وقت تكـ نه آپ كتاب الهى سے هدايت حاصل كر سكين گے، نه هى پيغمبر خدا كے نمونه سے مستفيض هوسكين گے، اور نتيجتًا آپ قيادت كے بار گران كے متحمل نهين هو سكتے.

 اسى طرح اگر آپ براه راست كتاب الهى اور سنت نبوى سے صحيح رهنمائى حاصل كرنے كى همت اور صلاحيت نهين ركهتے تو آپ ميدان قيادت سے كناره كش هوجائين، كيونكه آپ جو حل بهى پيش كرين گے وه يا تو دوسرى قومون سے مستعار هوگا جن كى فطرت وساخت اور جن كے اجزائے تركيبى امت محمديه سے مختلف هين، يا اپنے حالات وماحول كے تقاضون كو نظر انداز كركے اپنے پيش روون كے الفاظ ومعانى دهراتے رهين گے، جبكه ان الفاظ كے معانى بلكه معانى كے معانى بهى تبديل هو چكے هون گے، ياد ركهين كه تقليد آپ كے منصب كے خلاف هے، امامت اور تقليد ايكـ دوسرے كى ضد هين، ان ضدين كے اجتماع پر وهى مصر يا راضى هو سكتا هے جو ان دونون كے مفهوم اور تقاضون سے واقف نهين.

 يه تحرير مين نے اس لئے پيش كرنے كى جرأت كى هے كه جب تكـ يه بنيادى اصول طے نهين هوجاتا همارى فكرى، عملى اور اصلاحى كوششين رائيگان هى نهين هون گى بلكه حالات كو خراب سے خراب تر كرتى رهين گى

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad