اندور(یو این اے نیوز 6مئی 2020)ایک طرف جہاں مرکزی حکومت کی جانب سے کورونا کے خلاف متحدہ جنگ کی بات کی جارہی ہے، وہیں بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں میں کورونا کے حوالے سے ہندو مسلم کو تقسیم کرنے کی حرکتیں مسلسل سامنے آرہی ہیں۔اسی طرح کا ایک نیا معاملہ اندور میں پیش آیا ہے جہاں ایک گاؤں کے باہر ایک پوسٹر لگایا گیا ہے جس پر لکھا ہے کہ ’’مسلم کاروباریوں کا گاؤں میں داخلہ ممنوع ہے۔ ‘‘ پولیس نے اس معاملے میں نامعلوم افراد کے خلاف معاملہ درج کرلیا ہے۔ اسکرول ڈاٹ ان کی رپورٹ کے مطابق اندور ضلع کے دیپال پور تحصیل میں واقع پیمل پور گاؤں کے باہر یہ پوسٹر سنیچر ہی کو کسی وقت لگایا گیا تھا۔اس پوسٹر میں مذکورہ ہدایت کے ساتھ ہی نیچے یہ بھی لکھا ہے کہ ’بحکم: پورے گاؤں کے لوگ، پیمل پور‘‘ واضح رہے کہ یہ پوسٹر سوشل میڈیا پر بھی ڈال دیا گیا تھا جس کی وجہ سے پولیس کی توجہ اس جانب مبذول ہوئی۔
انگریزی اخبار انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق اندور کے ڈی آئی جی ہری نارائن چاری مشرا نے بتایا کہ اطلاع ملتے ہی پولیس نے اس پوسٹر کو وہاں سے ہٹا دیا ہے اور نامعلوم افراد کے خلاف معاملہ بھی درج کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ معاملہ نامعلوم افراد کے خلاف اس لئے درج کیاگیاہے کہ یہ نہیں پتہ چل سکا ہے کہ یہ پوسٹر کس نے لگایا تھا۔ اس معاملے کے منظر عام پر آنے کے بعد ریاست کےسابق وزیراعلیٰ اور کانگریس کے سینئر لیڈر دگ وجے سنگھ نے ریاست کی پولیس اور ریاستی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔اس تعلق سے انہوں نے ٹویٹ کیا کہ’’کیا یہ حرکت وزیراعظم مودی جی کی اپیل کے خلاف نہیں ہے؟کیا تعزیرات ہند کے دفعات کے تحت یہ حرکت مجرمانہ نہیں ہے؟
میں وزیراعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان اور مدھیہ پردیش پولیس سے جاننا چاہتا ہوں کہ سماج میں اس طرح کی تقسیم کرنے والی حرکت کیا ملک کے مفاد میں ہے؟‘‘ اسی طرح کا ایک ٹویٹ مشہور سماجی کارکن نوید حامد نے بھی مدھیہ پردیش کے وزیراعلیٰ، مدھیہ پردیش کے ڈی جی پی اور ایمنسٹی وغیرہ کو ٹیگ کرتے ہوئے کیا ہے۔ خیال رہے کہ اس سے قبل اترپردیش کے ایک رکن اسمبلی سریش تیواری نے بھی ہندوؤں سے اپیل کی تھی کہ مسلم سبزی فروشوں سے سبزیاں نہ خریدیں۔ اسی طرح جھارکھنڈ میں ہندومالکان کے دکانوں پر بھگوا پرچم لگائے گئے تھے اور لوگوں سے اپیل کی گئی تھی کہ وہ صرف ہندو دکانداروں ہی سے اشیا کی خریداری کریں۔ فی الحال اس طرح کے واقعات کاسلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں