تازہ ترین

بدھ، 29 اپریل، 2020

رمضانُ المبارک کا مہینہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی عظیم نعمت۔

محمد سفیان خاں پپری پو روہ بسواں سیتاپور 
رمضانُ المبارک کا مہینہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی بڑی عظیم نعمت ہے۔اس مہینے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے انوار و برکات کا سیلاب آتا ہے اور اُسکی رحمتیں موسلادھار بارش کی طرح برستی ہیں۔مگر ہم لوگ اس مبارک مہینے کی قدر و منزلت سے واقف نہیں،کیونکہ ہماری ساری فکر اور جدّو جہد ما ذیت اور دنیاوی کاروبار کے لئے ہے،اس مبارک مہینے کی قدردانی وہ لوگ کرتے ہیں جنکی فکر آخرت کے لیے اور جنکا محور ما بعد الموت ہو،آپ حضرات نے یہ حدیث سنی ہوگی،حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب جب رجب کا مہینہ آتا تو آپ صلّی اللہ علیہ وسلم یہ دعا مانگتے،اے اللہ ہمارے لیے رجب اور شعبان کے مہینے میں برکت عطا فرما اور ہمیں رمضان کے مہینے تک پہنچا دیجئے،یعنی ہماری عمر اتنی لمبی کر دیجئے کہ ہمیں رمضان کا مہینہ نصیب ہو جائے۔آپ غور فرمائیے کہ رمضان المبارک آنے سے دو ماہ پہلے ہی رمضان کا انتظار و اشتیاق ہو رہا ہے،اور اُسکی حاصل ہونے کی دعا کی جا رہی ہے،یہ کام وہی شخص کر سکتا ہے جس کے دل میں رمضان کی صحیح قدر و قیمت ہو،

رمضان کے معنی
"رمضان"عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں "جھلسا دینے والا" اس مہینے کا یہ نام اس لیے رکھا گیا کہ اسلام میں جب سب سے پہلے یہ مہینہ آیا تو سخت اور جھلسا دینے والی گرمی میں آیاتھا۔لیکن بعض علماء کہتے ہیں کہ اس مہینے میں اللہ تعالیٰ اپنی خاص رحمت سے روزے دار بندوں کے گناہوں کو جھلسا دیتے ہیں اور معاف کر دیتے ہیں اس لیے اس مہینے کو "رمضان" کہتے ہیں

رمضان رحمت کا خاص مہینہ
اللہ تعالیٰ نے یہ مبارک مہینہ اس لیے عطا فرما یا کہ گیارہ مہینے انسان دنیا کے دھندوں میں منہمک رہتا ہے جس کی وجہ سے دلوں میں غفلت پیدا ہو جاتی ہے،روحانیت اور اللہ تعالیٰ کے قرب میں کمی واقع ہو جاتی ہے،تو رمضان المبارک میں آدمی اللہ تعالیٰ کی عبادت کر کے اس کمی کو دور کر سکتا ہے،تاکہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کر کے زندگی کا ایک نیا دور شروع ہو جائے،جس طرح کسی مشین کو کچھ عرصہ استعمال کرنے کے بعد اُسکی سروس اور صفائی کی جاتی ہے،اسی طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کی صفائی اور سرویس کے لیے یہ مبارک مہینہ مقرر کیا

روزے کا مقصد
روزے کی ریاضت کا بھی خاص مقصد اور موضوع یہی ہے کہ اس کے ذریعے انسان کی حیوانیت اور بہیمیت کو اللہ تعالیٰ کے احکام کی پابندی اور ایمانی و روحانی تقاضوں کی تابعداری و فرمانبرداری کا خو گر بنایا جائے اور اللہ کے احکام کے مقابلے میں نفس کی خواہشات اور اور پیٹ اور شہوتوں کے تقاضوں کو دبانے کے عادت ڈالی جائے اور چونکہ یہ چیز نبوّت اور شریعت کے خاص مقاصد میں سے ہے، اس لیے پہلی تمام شریعتوں میں بھی روزے کا حکم دیا گیا ہے،اگر چہ روزوں کی مدت اور بعض دوسرے تفصیلی احکام  میں اُن اُمتوں کے خاص حالات اور ضروریات کے لحاظ سے کچھ فرق ضرور تھا،قرآن کریم میں اس اُمت کو روزے کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا ہے،اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے جس طرح تم سے پہلی اُمتوں پر بھی فرض کیے گئے تھے (روزوں کا یہ حکم تم کو اس لیے دیا گیا ہے) تاکہ تم میں تقویٰ پیدا ہو
کیونکہ یہ بات یقینی ہے کہ نفس انسانی انسان کو گناہ،نافرمانی اور حیوانی تقاضوں میں اسی وقت مبتلا کرتا ہے جب کہ وہ سیر اور چھکا ہوا ہو،اُسکے بر عکس اگر بھوکا ہو تو وہ مضمحل پڑا رہتا ہے اور پھر اسکو معصیت کی نہیں سوجھتی،روزے کا مقصد یہی ہے کہ نفس کو بھوکا رکھ کر مادی و شہوانی تقاضوں کو بروئے کار لانے سے اس کو روکا جائے تاکہ گناہ پر اقتدام کرنے کہ دائیہ اور جزبہ سُنت پڑ جائے اور  یہی "تقوہ" ہے،اس طرح بھی کہا جاسکتا ہے کہ عالم بالا کی پاکیزہ مخلوق (فرشتے) نہ کھاتے ہیں اور نہ ہی پیتے ہیں اور نہ بیوی رکھتے ہیں،جبکہ روزہ (صبحِ صادق سے غروب آفتاب تک) انہیں تینوں چیزوں(کھانا،پینا اور جماع)سے ر کنے کا نام ہے،تو گویا اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو روزے کا حکم دے کر ارشاد فرمایا ہے کہ اے میرے بندو! اگر تم ان تینوں چیزوں سے پرہیز کر کے ہماری پاکیزہ مخلوق کی مشابہت اختیار کرو گے تو ہماری اس پاکیزہ مخلوق کی پاکیزہ صفت بھی تمہارے اندر پیدا ہو جائیگی اور وہ صفت ہے قرآنی آیات کا وہ ترجمہ: کہ وہ (فرشتے) خدا کی نافرمانی نہیں کرتے کسی بات میں جو انکو حکم دیتا ہے اور جو کچھ انکو حکم دیا جاتا ہے اسکو فوراً بجا لاتے ہیں (بیان القرآن) اور اسی کا حاصل "تقویٰ"ہےاللہ ہم سب کو رمضان المبارک کی قدر کی توفیق عطا فرمائے آمین یا رب العالمین

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad