از: مزمل حق ندوی، مدرس مدرسہ فاطمۃ الزھرا للبنات چھترگاچھ
    حضرات ! ہندوستان ایک جمہوری اور سیکولر ملک ہے اور اس کا تقاضا یہ ہے کہ اس میں رہنے والے تمام باشندگان کو اظہار آزادی رائے کے یکساں مواقع میسر ہوں۔ اس مختصر سی تمہید کے بعد ناچیز آپ تمام حضرات کی توجہات اس طرف مبذول کرانا چاہتا ہے کہ جب سے علاقہ سیمانچل میں اے آئی، ایم، آئی، ایم نے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ہے، تبھی سے اس پارٹی کے اعلیٰ اہلکار یا اعلی کمان اپنے ''سو کالڈ'' سیاسی بیانات اور سوجھ بوجھ سے عاری ''ڈیبیٹس'' اور اپنی عاقبت نااندیشی اور غیر دور رس حکمت عملی کے ذریعے ملک کی قدیم و جدید اور انتہائی مشہور و معروف علاقائی اور ملکی پارٹیوں پر سخت سے سخت تنقید کرتے چلے آرہے ہیں، حتیٰ کہ سیاست میں بھاجپا کی روش اپناتے ہوئے مذہبی منافرت پر مشتمل بیانات بھی بر سر اسٹیج دینے میں جھجک محسوس نہیں کرتے۔ ان کی شکایت ہے کہ ہم سے کوئی سیکولر پارٹی اتحاد کرنے کو تیار نہیں ہوتی، میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ نے کب کسی سیکولر پارٹی سے اتحاد کی کوشش کی ہے؟ آپ کے نزدیک تو تمام پارٹیاں قابل مذمت اور غیرسیکولر ہیں، جب آپ کسی کو سیکولر نہیں مانیں گے، بلکہ ہر پارٹی کے خلاف اسٹیجوں سے بیان دیں گے تو کوئی دوسری پارٹی کیوں آپ کو سیکولر یا قابل اتحاد سمجھے گی ؟ دوسری بات یہ کہ چلیے غیر مذہبی سیاسی جماعتیں آپ سے اتحاد نہیں کرتیں۔
 یا آپ ان سے اتحاد نہیں کرتے ؛ تو کیا مسلم پارٹیوں میں بھی کوئی ایسی پارٹی نہیں ہے جو آپ سے یا آپ اس سے اتحاد کے ساتھ الیکشن لڑیں ؟ کیا آپ کو کسی پر بھروسہ نہیں، یا پھر انہیں آپ پر بھروسہ نہیں؟ ان ہی سیاسی بیانات، غیر مستحکم اور غیر منظم حکمت عملی پر مبنی اظہار رائے کے تناظر میں آج بہار میں سیکولر اور غیر سیکولر ہندو ووٹرز متحد اور یکجا ہو رہے ہیں اور ان کا ووٹ فیصد مسلم اقلیت سے کئی گنا زیادہ ہے، اس کا تمام تر فائدہ بی،جے،پی اور جے ، ڈی ، یو کو ملتا نظر آرہا ہے۔ یہ اقلیات کی لٹیا ڈبونے والی قیادت اور کم ظرف لیڈر شپ بہار کی تمام بڑی پارٹیوں کے اوپر زبردست نکتہ چینی اور کسی قدر بے جا تنقید کرتی رہی ہے اور تاحال کرتی چلی آرہی ہے۔ حالانکہ سیاسی مبصرین کو یہ بات بخوبی معلوم ہے کہ سیاست میں دوستی اور دشمنی ہمیشہ کے لیے نہیں ہوتی، کوئی کبھی دوست ہوتا ہے تو کوئی کبھی دشمن ۔ مگر افسوس کے ساتھ یہ لکھنا پڑ رہا ہے کہ ایم، آئی، ایم کے لیے سب دشمن ہی دشمن ہیں (یعنی تمام پارٹیاں) تصور کیجیے کہ الیکشن کے بعد جب حکومت تشکیل دی جائے گی تو بھلا یہ بتائیں کہ اس وقت مسلمانوں کی ہمدردی اور شمولیت کس پارٹی سے وابستہ ہوگی ، یہ تو اتنی بڑی پارٹی نہیں ہے کہ اپنے دم پر حکومت سازی کر سکے تو ظاہر سی بات ہے کہ اس کو کسی مضبوط اور مستحکم پارٹی کے ساتھ مل کر الیکشن لڑنا ہوگا، جہاں تک جیتن رام مانجھی کی بات ہے تو اس پارٹی کو خود اس کے ووٹر اچھی طرح نہیں پہچانتے، تو لنگڑے کو اندھے کا سہارا کیا ملے گا؟
لہذامجھے ایسا لگتا ہے اور یہ حالات اور وقت کی پکار بھی ہے اور ضرورت بھی کہ اقلیت کے آنسو پونچھنے کی دعویدار پارٹی کانگریس اور آر جے ڈی کے ساتھ مل کر اگر اتحاد کے ساتھ ایم، آئی، ایم ٢٠٢٠ئ کا اسمبلی الیکشن لڑتی ہے اور عظیم اتحاد میں شامل ہونے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو اس کا ساتھ دیا جائے ورنہ تمام بھولی بھالی مسلم قوم سے کہہ دیا جائے کہ ابھی کے لیے ایم، آئی، ایم کو بھول جاؤ! کیوں کہ اگر دس بیس سیٹوں پر بھی ایم آئی ایم اکیلے الیکشن لڑتی ہے تو اس کا سیدھا فائدہ جے، ڈی، یو کو ہوگا اور پھر پانچ سالوں کے لیے بھاجپا جدیو الائنس رولنگ پارٹیاں بن کر نمودار ہوں گی اور مسلمان کسی قطار یا شمار میں نہ ہوں گے۔ تمام سیاسی آقاؤں ، لیڈروں اور مبصرین کو اس پر سنجیدگی سے غور و خوض کرنے کی ضرورت ہے۔
مجلس علمائے ملت کے ذمہ داران نے چونکہ ''گذشتہ ضمنی انتخاب'' میں ایم، آئی، ایم کا بڑھ چڑھ کر ساتھ دیا، بلکہ جناب قمر الہدیٰ کو کامیابی دلانے میں اہم رول آپ کی تنظیم کا ہی رہا، اس لیے آپ حضرات سے درخواست ہے کہ میری مؤدبانہ گزارشات کو پارٹی کے اعلی عہدہ داران تک پہنچائیں اور انہیں اس بات پر آمادہ کریں کہ وہ زبانی تنقید بازی سے آگے بڑھ کر صحیح سیاسی حکمت عملی کو اپنائیں ، اتحاد کی طرف قدم بڑھائیں، اپنی پارٹی کو صرف مسلم پارٹی کی شکل میں نہ ابھاریں، ہر غیر مسلم خطے میں اپنے غیر مسلم بھائیوں کو ٹکٹ دے کر الیکشن لڑوائیں ، سیکولر پارٹیوں سے اتحاد کی ہر ممکن کوشش کریں اور آنے والے وقت میں تمام اقلیتوں کے حق میں بہتر ثابت ہوں، اللہ پاک اہل سیاست کو ان کی سیاسی ذمہ داریوں کو ایمانداری کے ساتھ ادا کر سکنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
جواب منجانب ''مجلس علمائے ملت ضلع کشن گن''
    مکرمی! مولانا مزمل حق ندوی صاحب ! اللہ پاک آپ کو امت کی بھلائی کے لیے اسی طرح بہتر سوچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہم آپ کی تحریر سے اتفاق کرتے ہوئے چند باتوں کی وضاحت کر رہے ہیں(١) مجلس علمائے ملت کوئی سیاسی جماعت نہیں ہے اور نہ ہی کسی بھی سیاسی جماعت سے ہمارا کوئی سیاسی معاملہ ہے۔(٢) مجلس علمائے ملت کے اغراض و مقاصد میں چونکہ امت کی سیاسی رہنمائی بھی شامل ہے، اس لیے ہم انتخابات کے موقع سے کسی بھی پارٹی کے کسی بھی امیداوار کے لیے جس پر ہمیں بھروسہ ہو حمایت کا اعلان کر سکتے ہیں، حتی کہ اس کے لیے در در جاکر ووٹ کی تشکیل بھی کرسکتے ہیں، گذشتہ ضمنی انتخاب میں ہمیں اندیشہ تھا کہ کانگریس اور ایم ، آئی، ایم کے مقابلے میں کہیں بھاجپا کی خاتون امیدوار کامیاب نہ ہوجائے ، اس لیے ہم نے ایم، آئی، ایم کے امیدوار جناب قمر الہدیٰ کا ساتھ دیا، بلکہ ان کے ورکرز کی بہتر طریقے پر رہنمائی کی ، بستی، بستی، نگر نگر جاکر ہم نے لوگوں کو سمجھایا اور الحمدللہ ہم اپنی محنت میں کامیاب رہے۔(٣) ضروری نہیں کہ ہم ہر الیکشن میں کسی ایک پارٹی یا کسی ایک امیدوار کا ساتھ دیں ، ہم اپنی حکمت عملی اور عوام الناس کا نفع دیکھ کر فیصلہ لیں گے۔ ان ضروری وضاحتوں کے ساتھ ہم آپ کا پیغام ''ایم، آئی، ایم'' کے اعلیٰ عہدہ داران تک ارسال کر رہے ہیں۔جزاک اللہ احسن الجزائ

 
 
 
         
 
 
 
 
 
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں