نئی دہلی : اپنے والد مدثر خان سے ویڈیو کال پرہونے والی آخری بات چیت شفا کے ذہن میں پوری طرح تازہ ہے۔ ۱۵؍ سالہ شفا خوش قسمت ہے کہ اس کے پاس اپنے والد سے آخری بات چیت کی یادیں ہیں کیوں کہ مدثر کی سب سے چھوٹی بیٹی جو محض ۱۵؍ دن کی ہے ، جب بڑی ہوگی تو اس کے پاس والدکی یادیں بھی نہیں ہوں گی۔ مدثر دہلی میں پھوٹ پڑنے والے تشدد میں جاں بحق ہوگئے۔ ۳۵؍ سالہ مدثر بھنگار کا چھوٹا موٹا کاروبار کرتے تھے۔ ان کے پسماندگان میں بوڑھے والدین، جان نچھاور کرنے والی بیوی اور آٹھ بیٹیاں ہیں۔ مدثر اپنی سب سے بڑی اور دوسرے نمبر کی بیٹی کو ڈاکٹر اور ٹیچر بنانے کا خواب آنکھوں میں سجائےا س دنیا سے رخصت ہوگئے۔ اُن کی بیوہ عمرانہ اپنے شوہر کے خوابوں کو پورا کرنا چاہتی ہیں مگر وہ نہیں جانتیں کہ ان کے چلے جانے کے بعد یہ کیسے ممکن ہوپائےگا۔
مصطفیٰ آباد میں اپنے گھر پر اِس نمائندہ سے گفتگو کے دوران مدثر کو یاد کرتے ہوئے عمرانہ نے بتایاکہ ’’وہ کبھی کسی سے نہیں لڑتے تھے، ہماری شادی کو ۱۶؍ سال ہوگئے تھے اور زندگی انتہائی اطمینان کے ساتھ گزر رہی تھی۔ میں نے صرف آٹھویں جماعت تک تعلیم حاصل کی ہے، کیسے ان بچیوں کا خیال رکھ پاؤں گی؟ مجھے کہیں سے کوئی مدد نہیں ملی۔‘‘ ۲۴؍ فروری کو عمرانہ اوران کی ماں قیصر جہاں نے مدثر سے بار بار کہاتھا کہ کام پر نہ جائیں مگر چونکہ گھر میں کمانے والے وہ واحد تھے اس لئے چھٹی کرنے کا ’’عیش‘‘ نہیں کرسکتے تھے۔ وہ نکل گئے۔ رات انہوں نے کبیر نگر میں ایک رشتہ دار کے ہاں گزاری۔ دوسرے دن گھر آرہے تھے کہ راستے میں گولی مار دی گئی۔ ۸؍ بہنوں میں سب سے بڑی شفا اپنےوالد کو یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ’’پاپا نے امی اور دادی کو ۲۴؍ فروری کو فون کیاتھا...ان کاآخری فون ویڈیو کال تھا جو انہوں نے مجھے اورامی کو ۲۵؍ تاریخ کو کیاتھا...ان کا ہاتھ زخمی تھا... وہ کہہ رہے تھے کہ حالات بہت خراب ہوتے جارہے ہیں۔
زوزنامہ انقلاب

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں